رِس رہا ہے تعلق کی رگ رگ سے خوں، کیا کروں
افتخار راغبؔ
رِس رہا ہے تعلق کی رگ رگ سے خوں، کیا کروں
کتنے خستہ ہیں قصرِ وفا کے ستوں، کیا کروں
…
تشنہ کامی بڑھاتا ہی جائے گا کیا ساقیا
روح بے تاب ہے اور دل بے سکوں، کیا کروں
…
اب نہ روکوں گا خود پر ستم سے تجھے، جان لے
جان لیوا ہے تیری نظر کا فسوں، کیا کروں
…
حال کے حال سے دل رہا بے خبر عمر بھر
سوچ کر حالِ فردا پریشان ہوں، کیا کروں
…
قوّتِ ضبط ہونے کو ہے اب جدا اے خدا
آشکارا نہ ہو جائے سوزِ دروں، کیا کروں
…
آپ کو پہلے جیسا ہے مجھ پر یقیں یا نہیں
خوش نما شعر لکھّوں کہ نوحہ کہوں، کیا کروں
…
ربط اب کوئی راغبؔ خرد سے کہاں، الاماں
ڈھا رہا ہے مسلسل قیامت جنوں، کیا کروں
تبصرے بند ہیں۔