سپریم کورٹ کا تین طلاق پر فیصلہ اور مسلمان

عبدالعزیز

 تین طلاق کے سلسلے میں موجودہ حکومت اور اس کے زیر اثر میڈیا نے جس بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کیا اس سے پورے ملک میں تین طلاق ایک نفرت انگیز چیز بن گئی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مسلک پرستی نے بھی سپریم کورٹ کے ججوں کو متاثر کرنے کے بجائے بدظن کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بورڈ نے اسلام کے قانونِ طلاق کو دفاع کرنے کے بجائے ایک مخصوص فقہ کا دفاع کرکے اپنے کیس کو انتہائی کمزور بنا دیا۔ ججوں کی جو رائے آئی ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ تین طلاق غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو چیز گناہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتی ہے اور کیسے اسے قانون کا حصہ بنایا جاسکتا ہے؟ بورڈ کے وکیل سے اس کا کوئی معقول جواب نہیں بن پڑا۔

حکومت کی پروپیگنڈہ مشنری اور بورڈ کی کمزور وکالت سے بالکل پہلے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اکثریت تین طلاق کو کالعدم قرار دیدے گی۔ عام طور پر جس مقدمہ میں حکومت فریق ہوتی ہے۔ 90 فیصد مقدمات کا فیصلہ حکومت کے حق میں ہوتا ہے، اس لئے بھی پانچ ججوں میں سے تین ججوں نے اگر چہ مودی حکومت کی ہر بات کی تائید نہیں کی مگر تین طلاق کو غیر قانونی اور غیر دستوری ہونے کا فیصلہ دیتے ہوئے بھی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ طلاق کے سلسلہ میں قانون سازی کرے۔ حکومت مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی خواہاں تھی اس فیصلہ سے مداخلت کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اور ان کے رفقاء فیصلہ پر بغلیں بجا رہے ہیں ؛ حالانکہ ان کے معاشرہ میں جو عورتوں پر ظلم و زیادتیاں ہو رہی ہیں اس سے ان کی آنکھیں بند ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے یہاں طلاق کا کوئی تصور (Consept) ہی نہیں ہے اور جو ہندو کوڈ میں قانون ہے اس سے کسی خاتون کا طلاق لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ وزیر اعظم کو پچاس سال بعد یاد آیا کہ دنیا میں کوئی ان کی بیوی بھی ہے جو شادی شدہ ہوکر بھی مطلقہ کی طرح ہے۔

فیصلہ سے پہلے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے کا اعلان اور اظہار کیا تھا۔ اب جو فیصلہ کے بعد جنرل سکریٹری صاحب یا بورڈ کا بیان آیا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ بورڈ کو ہار میں اپنی جیت نظر آرہی ہے۔ بورڈ اس پر خوش ہے کہ فیصلہ میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ دفعہ 25 کے تحت کسی کے پرسنل لاء میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ بورڈ نے اس فیصلہ کو تضاد سے بھی تعبیر کیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 10 ستمبر کو بھوپال میں بورڈ کا اجلاس منعقد ہوگا۔ اس میں غور و فکر کے بعد مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ فیصلہ کا خیر مقدم کرکے اسے قابل قبول اور فتحیابی بتانے کے بعد لائحہ عمل کیا ہوگا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

 بورڈ کے ایک ممبر اور وکیل ظفر یاب جیلانی کا بیان وزنی ہے اور درست ہے ۔ بورڈ کو اسی طرح کا بیان جاری کرنا چاہئے۔ بحیثیت مجموعی بورڈ مسلمانوں کا اچھا اور قابل قدر ترجمان یا وکیل بننے سے قاصر ہے۔ بورڈ کے دانشوروں کو یہ بھی غور و فکر سے کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔

جہاں تک عام مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ان کو نہ مشتعل ہونے کی ضرورت ہے اورنہ مایوس ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ تین طلاق کے غلط استعمال نے ہی اپنوں اور غیروں کو موقع دیا جس کی وجہ سے آج جج صاحبان کو تین طلاق کو صریحاً ظالمانہ کہنے کا موقع ہاتھ آیا۔ جو لوگ مسلمانوں میں شریعت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ان کیلئے سپریم کورٹ یا کسی اور کے فیصلہ سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہاں جو لوگ طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن و سنت میں موجود ہے اسے چھوڑ کر من مانی کا رویہ اپناتے ہیں اور اپنی بیویوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور انتہائی غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویہ اپناتے ہیں ان پر یقینا اثر پڑے گا اور پڑنا بھی چاہئے کیونکہ جو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے پر راضی نہیں ہے ان کیلئے کفر کی نشتر زنی ضروری ہے۔

 مسلم تنظیمیں جو مسلم معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کرتی ہیں ان کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی کوششوں کا بھی کوئی اثر معاشرہ پر نہیں پڑرہا ہے۔ مسلم معاشرہ عورتوں یا لڑکیوں کیلئے بے رحم اور سنگدل ہے۔ جہیز کا چلن کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ طلاق کی شرح ہندو معاشرہ سے کم ہے مگر طلاق کی شرح میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ جس عورت پر ظلم ہوتا ہے مسلم معاشرہ خاموش رہتا ہے۔ شوہر ظلم پر ظلم کرتا ہے مگر معاشرہ اس کا ہاتھ پکڑنے اور عدل و انصاف کی طرف موڑنے سے قاصر رہتا ہے۔ معاشرہ کے چھوٹے بڑے سبھی تماش بین بنے رہتے ہیں یا ظالم شوہر کا ساتھ دیتے ہیں ۔ مسلم تنظیموں کو ضرورت ہے کہ اصلاح معاشرہ کیلئے ایک پُر اثر مہم چلائے اور مسلسل چلائے اور معاشرہ ایسے لوگوں کو تیار کرے جو جبر و ظلم کرنے والوں کا ہاتھ پکڑ سکیں اور مظلومین کیلئے دوڑ دھوپ کرکے اسے انصاف دلاسکیں ۔

فیصلہ میں ایک اچھی بات ہوئی ہے کہ حکومت کے وکیل جو چاہتے تھے کہ طلاق کے سارے طریقے کو رد یا کالعدم قرار دے دیا جائے۔ جج صاحبان اس کیلئے بالکل تیار نہیں ہوئے۔ تعدد ازدواج اور حلالہ کو بھی ختم کرنے کی بات سرکاری وکیل کی طرف کی گئی مگر جج صاحبان نے اسے قابل قبول نہیں سمجھا۔ جہاں تک حلالہ کی بات ہے تو اس کا غلط طریقہ رائج ہے جو باقاعدہ Manage کیا جاتا ہے، اسے بھی مسلم معاشرہ سے بالکل ختم کرنا ہوگا۔ بہت سے مفتی صاحبان حلال کے رائج طریقہ جو انتہائی مجرمانہ اور ظالمانہ ہے اسے صحیح سمجھتے ہیں اور خاندان کو بچانے کی غلط کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے علماء یا مفتیوں کو بتانا چاہئے کہ اگر خاندان کو بچانے کی صحیح نیت ہو تو مسلک پرستی کے تنگ دائرے سے نکل کر حق پرستی کے دائرہ میں قدم رکھیں اور ایسے مکتبہ فکر کے مفتیوں سے فتویٰ لینے یا دلانے کے قائل ہوں جو طلاق کو ایک مجلس میں ایک ہی شمار کرتے ہیں ۔ ائمہ اربعہ یا دیگر ائمہ کی یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ وہ دوسرے اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے اور کسی بھی امام کی تشریح و تعبیر کو غلط کہنے سے پرہیز کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے فقہ یا استنباط کا دل سے احترام کرتے تھے۔ ہر مسلک اور مکتبہ فکر کو اسلام کے دائرے میں سمجھنے سے ہی انتشار ختم ہوسکتا ہے اور اصلاح کی صورت بھی نکل سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔