بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں

حفیظ نعمانی

سہارا کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے مودی سرکار کے ایک وزیر اور وہ بھی مسلمان وزیر سے انٹرویو لیتے ہوئے کیسے یہ سمجھ لیا کہ وہ ان سے ان شرمناک واقعات کی تائید کرالیں گے جن کی وجہ سے پوری حکومت مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی بدترین مخالف ہے؟ وزیر تو حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے ملک میں جہاں کہیں کوئی ایسی بات ہوگی جس سے حکومت کی طرف انگلی اٹھے گی تو وہ اس کی صفائی دینا اپنا فرض سمجھے گا۔ فیصل صاحب یہ کہلانا چاہتے تھے جو نائب صدر حامد انصاری صاحب نے کہا تھا کہ ملک میں فضا ایسی بنتی جارہی ہے کہ مسلمان اپنے کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ مختار عباس نقوی صاحب نے اپنی لولی لنگڑی دلیلوں کے ساتھ کہہ دیا کہ مسلمان خوفزدہ نہیں ہے۔ اور پھر وہی کہانی دہرادی کہ حکومت کی تبدیلی سے پہلے ہر وہ برائی جائز تھی جس سے ملک کی ترقی میں گھن لگ گیا اور دیمک نے اسے کھوکھلا کردیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا اور تین سال سے ملک ترقی بھی کررہا ہے، آگے بھی بڑھ رہا ہے اور اب نہ بدعنوانی ہے نہ گھوٹالے ہیں نہ لوٹ کھسوٹ ہے اور نہ اقربا پروری۔ انہوں نے ہر اس جگہ کے بارے میں جہاں تشدد پھوٹا صفائی دی کہ پولیس نے فرض شناسی کا ثبوت دیا گرفتاریاں کیں اور سنگین دفعات لگاکر بند کردیا۔ انہوں نے راجستھان میں ہوئی واردات کے بارے میں کہہ دیا کہ درجن بھر افراد کو گرفتار کیا گیا اور ایسی دفعات لگائیں کہ ضمانت بھی نہیں ہوئی۔

وزارت کی اور پارٹی کی ذمہ داریوں میں کہاں اتنا موقع ملتا ہوگا کہ ٹی وی کے سامنے ایک گھنٹہ برباد کریں ؟ لیکن ہم نے راجستھان کی درندگی کے واقعہ کو نہ جانے کتنی بار دیکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ ایک سابق رانی ہیں جن کے نزدیک ایسے واقعات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کے منھ سے تو دو لفظ بھی نہیں سنے البتہ ایک دوسرا سین یاد ہے کہ ان غنڈوں میں سے دو کو پولیس کے تین جوان پیدل لے کر جارہے تھے۔ راستہ میں ایک جوان اور خوبرو عورت نے جو پیلی ساڑی میں ملبوس تھی ان کو روکا اور لڑکوں سے کہا کہ تم کو اگر پھانسی بھی ہوتی ہے تو تمہاری حیثیت بھگت سنگھ اور بسمل جیسی ہوگی تم نے گئورکشا کے لئے کیا ہے جو بھی کیا اور جو مرا ہے وہ تمہارے مارنے سے نہیں دہشت سے مرگیا۔ 10  منٹ سے زیادہ وہ زہر اگلتی رہی اور تینوں پولیس والے اس کی باتوں پر مسکراتے رہے۔

بھیڑ کے ذریعہ جن پچاس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے وہ جھارکھنڈ ہو، ہریانہ ہو یا راجستھان یا اُترپردیش ہر جگہ پولیس اپنا فرض ادا کرتی اور لاٹھیاں برساتی تو ایک کی بھی جان نہ جاتی۔ لیکن پولیس کو معلوم ہے کہ اسے کس موقع پر کیا کرنا ہے؟ نقوی صاحب نے بھی وہی کہہ دیا کہ 125  کروڑ میں مٹھی بھر لوگ اگر غلط کررہے ہیں تو حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ اگر وہ مٹھی بھر لوگ مسلمان ہوں اور مرنے والے ہندو ہوں تو کیا کوئی وزیر یہ الفاظ کہے گا؟ نقوی صاحب نے کہہ دیا کہ راجستھان میں درجن بھر گرفتار ہوئے اور ان کی ضمانت بھی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ آر ایس ایس کے کتنے غنڈوں پر دفعہ 302  لگائی گئی ہے۔ جبکہ ہر کیس میں دفعہ 302  لگنا چاہئے اور سازش کی دفعہ بھی۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ وزیر اعظم کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک اپنی جگہ رُکا نہیں ہے بلکہ پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ بات مسلمانوں کی نہیں 130  کروڑ کی ہے کہ جس سے معلوم کرو کہ کیا حال ہے وہ کہتا ہے کہ اتنے برے دن تو نہ دیکھے تھے نہ سنے۔ مختار عباس نقوی صاحب یا کسی بھی وزیر کی آنکھیں بندنہیں ہیں سب دیکھ رہے ہیں کہ جو بازار رات کو 11  بجے تک کھلے رہتے تھے وہ اب آٹھ بجے بند ہوجاتے ہیں ۔ اس میں نقوی صاحب کا قصور نہیں ہے یہ تو مودی اور جیٹلی کا کیا دھرا ہے۔ اور اب امت شاہ نے بھی پانچ سال کہے اور دوسروں نے بھی کہنا شروع کردیا کہ پانچ سال میں اس کا پھل سامنے آنا شروع ہوگا۔ کہنے والا اور لکھنے والا پانچ سال پانچ سیکنڈ میں لکھ دے گا لیکن پانچ سال   ؎

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ایڈیشنل چیف سکریٹری نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی سے پہلے مہنگائی بڑھے گی پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ہماری عمر اب وہاں ہے جسے آخری پڑائو کہا جاتا ہے آج تک یاد نہیں کہ پہلے مہنگائی بڑھی ہو اور پھر کم ہوگئی ہو۔ 2014 ء میں جب مودی جی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا تو مہنگائی دوسرے نمبر کا نعرہ تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے حکومت سنبھالتے ہی مہنگائی آدھی رہ جائے گی اور ان کی ہی حکومت میں 200  روپئے سے زیادہ میں ارہر کی دال بکی اور آج ہر چیز غریب کی پہونچ سے باہر ہے۔ ایک غریب خاندان جیسی زندگی گذار رہا ہے ایسی اس نے 70  برس میں کبھی نہیں گذاری۔ لیکن وزیروں کی مجبوری ہے کہ وہ حکومت پر تنقید نہیں کرسکتے۔

جب بات اقلیت کی آتی ہے تو اس سے صرف مسلمان سمجھے جاتے ہیں لیکن جب فائدہ پہونچانے کی بات آتی ہے تو سکھ، پارسی، عیسائی، جین، بودھوں کی جھولی بھر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اقلیتوں کو تعلیم میں اتنا دے دیا۔ ملازمت کا تو اب کیا پہلے بھی کوئی سوال نہیں تھا۔ اب اُترپردیش کی حکومت کو 6  مہینے ہونے والے ہیں اُترپردیش کے چار کروڑ مسلمان گوشت کا نام سنتے ہیں اور بس۔ اور جس جس پیشہ سے مسلمان وابستہ تھے وہ اب ختم ہوگیا یا کردیا گیا۔ مسلمان لڑکے سعودی عرب چلے جاتے تھے اب وہاں کے حالات ہندوستان جیسے ہی ہوگئے ہیں ۔ اب اس کی فکر ہے کہ فاقے اور بے روزگاری انہیں چور، ڈاکو نہ بنادے؟

سابق حکومت کی بدعنوانیاں اور گھوٹالوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج نقوی صاحب وزیر ہیں لیکن منھ مانگی قیمت پر ایم ایل سی اور اعلان کے ساتھ 15  کروڑ میں ایم ایل اے کی خریداری یا گوا اور منی پور کی ہاری ہوئی حکومتوں کو فتح میں تبدیل کرنے کا کارنامہ کس خانہ میں رکھا جائے گا؟ آج انہیں بدعنوان اور گھوٹالہ نہ کہا جائے لیکن کل ضرور کوئی اٹھے گا اور اس کو موضوع بناکر حکومت پر حملہ کرے گا اس لئے کہ پانچ برس جی ایس ٹی کی مار برداشت کرنا آسان نہیں ہے اور یہ تو ہر حکومت نے کہا کہ بس ذراسی تکلیف ہے اس کے بعد چین ہی چین ہے۔ اس وقت مسلمان کی نہیں ہر ہندوستانی کی بات ہے اور سب کو اس کا انتظار ہے کہ کوئی جے پرکاش نرائن اٹھے اور انقلاب آجائے۔ اس وقت نہ راہل کی طرف دیکھا جائے گا نہ نتیش کمار کی طرف بس ایک سیلاب ہوگا ایسا ہی جیسا آج ہر طرف نظر آرہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔