شریعت میں دخل اندازی نہ قابل قبول

آمتہ الصبیحہ

  بے شک قرآن عظیم اللہ کی طرف سے تمام انسانیت کے لئے تحفہ ہے اوراللہ نے تمام انسانوں کے لئے اس میں تمام مشکلات کا علاج رکھا ہے چاہے اس کا تعلق مذہبی زندگی سے ہو یا دنیاوی زندگی سے ہو اور اس کے احکامات و اسکی تعلیمات ہر دور کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اس پر عمل کرنے میں دنیاوآخرت میں سعادت مندی ہے۔ اس سے غفلت برتنے سے دنیاوآخرت میں شرمندگی ہے۔ قرآن وحدیث ‘شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل عقیدہ ایمان عمل صالح کی بنیاد ہیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے وقت میدان عرفات میں اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا یقینا میں تم میں دوبھاری بھرکم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان کوتھامے رہو گے کبھی بھی گمراہی میں نہیں پڑو گے (ایک کتاب اللہ ‘دوسری میری سنت)۰

 مسلمانوں کے لئے دنیاوآخرت میں کامیابی ونجات کی بنیاد دوہی چیزیں ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت۔ سورہ النساء میں واضح طورپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی۔

 اسلامی نظام اتناجامع اور مانع ہے اس کے مقابل کسی دوسرے نظام کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی۔ آج کا ترقی پذیر بنام مسلمان اپنی کم فہمی ‘ کم علمی اور تعصب کی بناء پر طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو غلط ناجائز طریقہ سے پیش کیا جارہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نکاح کو شوہر وبیوی کے درمیان محبت والفت کا ذریعہ بنایا ہے اورانسانی نوع کی بقاء کا ذریعہ بنایا۔ شوہر معاشی طورپر بیوی کا ذمہ دار ہے اور بیوی شریعت کے قانون کے تحت اس کی اطاعت کرے ‘دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف)عورتوں کے مردوں پر شریعت کے مطابق اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بیوی کے ساتھ ادائی حقوق کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ اختیار رکھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ( خیر کم خیر کم لاھلہ وانا خیر کم لاھلہ وانا خیر کم لا ھلی)تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھروالو ں کے حق میں اچھاہو اور میں اپنے گھروالوں کے لئے تم میں سے سب سے بہترہوں (جامع ترمذ)۔

 زوجین میں اگرکوئی ایک دوسرے پر زیادتی کو یا حق تلافی پرصبرکرتا ہے توحضورعلیہ السلام نے اس کے لئے عظیم ثواب کی بشارت عطا فرمائی ہے۔

 اگرزوجین میں سے کسی ایک سے غلطی ہو تو دوسرا اس کو نظرانداز کرتے ہوئے عفودرگزر سے کام لیں۔ پھربھی بات نہ بنی تو اسلام نے تین کا رہنمایانہ اصول بتایاہے کہ یہ سب سے پہلے وہ بیوی کو نصیحت کرے‘ یا بستر علحدہ کریں یا تنبہ کریں۔ اگران تین چیزوں میں سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو شوہر کی طرف سے ایک آدمی اور بیوی کی طرف سے ایک آدمی آئیں اور دونوں کے درمیان صلح کرائیں اگر تب بھی دونوں نہ مانیں تواور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارنا مشکل ہو توایسی صورت میں شوہر کواطلاق دینے کا حکم ہے۔

 شریعت نے شوہر کو ہدایت دی کہ اگر بیوی حالت حیض میں ہوتوطلاق نہ دے بلکہ ایسے طہر میں صرف ایک طلاق دے اگراس دوران فریقین کواپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو پھر سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ اگرعدت کے اندرشوہر عورت کو نہ لوٹائے یوں ہی عدت گذرجائے توعورت خود بخود بائن ہوکر نکاح سے نکل جائے گی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے (الطلاق مرتان فاساک بمعروف اوتریح باحسان)سورہ البقرہ(۲۲۹):طلاق دوبارہے پھر یا توبھلائی کے ساتھ لینا احساس کے ساتھ چھوڑدینا ہے‘‘۔ اگر شوہر تین طلاق دے دیں تودونوں کا کسی طرح شوہر وبیوی کی حیثیت سے رہنا جائز نہیں ہے۔

  اور اگر کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دیں توطلاق توہوجاتی ہے لیکن ایسے کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔ بخاری ‘مسلم ‘ترمذی ‘ابوددائود حدیث کی کتابوں کی روشنی میں تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی اور شوہر پربیو ی حرام ہوجائے گی۔

(کتاب اجماع بلامام ابن المنذی‘کتاب الطلاق میں ذکرکرتے ہیں کہ فقھا کے اس مسئلہ پراجماع کا اتفاق ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کوتین طلاق دی تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

(آئمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیھم کے پاس بھی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہے(الفقہ علی المذاھب الااربعۃ) (کتاب الطلاق)(جمہوی محدثین ‘علمائے وفقھا کابھی یہی قول ہے کہ اگرکوئی اپنی بیوی کوتین طلاق دے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ شرح النووی علی مسلم‘ کتاب الطلاق)

 تین طلاق کا حکم قرآن سے ہے اورقرآن کا قانون رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ اس میں کسی بھی قسم کا ردوبدل نہیں کیاجاسکتا۔

  ہندوستان کثرت آبادی پرمشتمل ملک ہے۔ اس کی آبادی کا تخمینہ ایک سوبیس کروڑ سے کیاگیا ہے اور ہندوستان سیکولربنیادوں پرقائم ہے۔ اس کا خصوصی امتیاز اس کا سیکولرازم ہے۔ ہرایک کو اپنے مذہب پرعمل پیرارہتے ہوئے زندگی گذارنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور دستور کے مطابق ہرکسی کو مذہبی آزادی کاحق حاصل ہے اور اس وقت ملک کے سیکولرازم کوداغدرکرنے کی منصوبہ بند مہم چھڑ رکھی ہے لیکن اس سے بڑھ کر افسوس مسلمان قوم پرہے جس میں اس قدر بے فکری اور تنگ نظری آگئی ہے کہ ہم خود اس قدر باہمی مسلکی اختلافات میں گھرگئے ہیں آج دوسری قوم ہماری شریعت میں دخل اندازی کررہی ہے۔ ہماری اس کمزوری کی بنا پر حکومت ہمارا فائدہ اٹھارہی ہے اوریونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنا چاہ رہی ہے۔

 1951ء میں آزادی کے بعد سب سے پہلے بھیم رائو امبیڈکرنے پہلی بار یونیفارم سیول کوڈ کونافذ کرنے کا نظریہ پیش کیاتھا اور آزادی سے پہلے موتی لال نہرو نے اس نظریہ کوپیش کیاتھا۔ اور امبیڈکر نے اس لئے اس نظریہ کو نافذ کرنے پرزوردیاتھاکہ ان کے مذہب میں جورواداری ہے اس کوختم کرنے کیلئے یونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنے کی بات کہی تھی۔ شریعت کا قانون ہندوستان میں 1937ء میں آچکاتھا اورمسلم پرسنل لا بورڈ جس میں مسلمانوں کے عائلی نظام اور خاندانی معاملات (جیسے شادی‘جائیداد ‘وراثت ‘اوقاف‘ گودلینا ‘طلاق)سے متعلق شریعت اپلیکشن ایکٹ کے نام سے قانون کی تدوین کی اور مسلمانوں کے لئے مسلم پرسنل لا کے نام سے علحدہ قانون بنایا۔ اورمسلمانوں کے مسائل کوان کے اپنے مذہبی قانون کے مطابق ہندوستان میں زندگی گذارانے کا پورا اختیاردیاگیا۔ ہم ہماری شریعت کودل وجان سے مانتے ہیں اور اس کے ہرحکم پرراضی بارضا ہے۔ پچیس کروڑ مسلمانوں میں سے چند ایک نام نہاد مسلمان اپنی کم علمی کی بنا پراسلام کے خلاف جاتے ہیں تو ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم مسلمان عورتیں اسلامی قانون کواپنے لئے رحمت مانتے ہیں۔ اسلام نے عورتوں کوماں ‘بہن ‘بیوی ‘بیٹی کی شکل میں بے شمار حقوق عطا کئے ہیں۔  جس دینِ اسلام نے عورت کو اتنے حقوق دیئے‘ وہ دین اسلام طلاق کے مسئلے میں عورت پرظلم کیسے کرسکتا ہے۔جو اسلام ایک چھوٹے سے جانور پر ظلم کرنا یا اس کو نقصان پہنچانے کی بھی اجازت نہیں دیتا توپھرکیسے عورت کو کوطلاق کے ذریعہ ظلم اور نقصان پہنچاسکتا ہے۔

 طلاق ثلاثہ ایک خالص شرعی مسئلہ ہے جس میں نہ حکومت ‘نہ کورٹ کودخل دینے کا حق ہے بلکہ کسی عورت پراس طرح کا ظلم ہوا توہمیں اس مسئلہ کا حل شریعت کی روشنی میں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ شریعت نے ہی ہرمسئلہ کا حل موجود ہے۔ تمام مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کرنا چاہئے کہ وہ سختی سے شریعت کی پابندی کریں اور ایک ساتھ تین طلاق دینا ناپسندیدہ اور گناہ کام ہے۔طلاق جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام ہے۔

یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے شرعی مسائل کوکورٹ ‘پنچایت تک نہ لے جائیں بلکہ شرعی لحاظ سے اس کا حل ڈھونڈیں اور ہم ہماری نسلوں کو Modern Educationکے ساتھ ساتھ Islamic Educationبھی دلائیں تو زندگیاں اجڑنے کے بجائے سدھرجائیں گی۔ تین طلاق کا حکم قرآن سے ہے اور قرآن کا قانون رہتی دنیا تک قائم ودائم رہے گا‘ اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں کیاجاسکتا۔

  دستورہند کے تیسرے حصہ میں ہر شہری کے بنیادی حقوق ہے۔ اس حصہ کی دفعہ(25)میں تمام ہندوستانیوں کواپنے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اگریونیفارم سیول کوڈ نافذ کیاگیا تو مذہبی آزادی پرضرب کاری ہوگی اورمذہبی آزادی ختم ہوجائے گی۔ قومی یکجہتی کونقصان ہوگا۔ کیا حکومت کے اس طرح کے فیصلے لینے سے عورتوں کے مسائل حل ہوجائیں گے ؟۔ اگرحکومت کوہم مسلمانوں کی اتنی ہی فکر ہے توہمیں ہمارے بنیادی حقوق دیں ناکہ شریعت میں دخل اندازی کریں۔   شریعت 1500سال سے ہے اور قیامت تک رہے گی۔ اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہ قابل قبول ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔