منحوس

 محمد شمشاد

کیا وہ منحوس تھی؟ نہیں ! میں ایسا نہیں کہہ سکتا۔ وہ منحوس نہیں تھی لیکن عام و خواص لوگوں کے خیالات و توہمات کو یکسر جھٹلایا بھی کیسے جاسکتا ہے۔

 شاید لوگوں نے اسے منحوس اس لیے کہنا شروع کیا تھا کہ اسکی پیدائش کے چند دنوں کے بعد ہی ایک حادثہ میں اسکے باپ کا انتقال ہو گیا اور ابھی وہ مشکل سے دو برس کی ہوئی تھی کہ اسکی ماں کو دق کا عارضہ ہو گیا اور وہ بھی اسے بے یارو مددگار چھوڑ کر چل بسی۔

 اب اس لڑکی کو کوئی اپنے ساتھ رکھ کر مصیبت اور آفت کو دعوت دینے کی ہمت نہیں کرتا تھا آخر کار اسے اسکے مامونے سہارا دیا۔ ممانی کو وہ پھوٹی کوڑی آنکھوں نہیں بھاتی لیکن مامو کچھ تو اللہ کے خوف سے اور کچھ دنیا والوں کے برا بھلا کہنے کے ڈر سے اسکی پرورش کرتا رہا۔

  طلعت اسی نفرت و حقارت کی فضاء مین پروان چڑھتی رہی۔ وہ ابھی پانچ سال کی ہی تھی کہ اس پر گھر کے کام کاج کا بوجھ ڈالا گیا۔ اب اسکی حیثیت گھر میں ایک خادمہ کی تھی۔ وہ نہایت دلچسپی سے کام کرتی۔ لیکن ممانی کے رویہ میں زرا بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ ذراسی کوئی چیز برباد ہوتی تو ممانی کے زناٹے دار تھپڑ اسکے رخسار پر ایسی نشان چھوڑ جاتے کہ دیر تک سہلانے کے بعد بھی طلعت کو محسوس ہوتا کہ وہاں انگارے رکھے ہوئے ہیں اس گھٹی گھٹی جان لیوا فضاء اور کلیجہ جھیلنے والے ماحول میں طلعت کو بس ایک ہی سہارا  تھااوروہ اس کا ماموں زاد بھائی ضیاء تھا۔ جب دونوں ایک ساتھ کھیلتے تو طلعت دنیا کا سارا غم بھول جاتی ہاں اگر ضیاء کی ماں اسے طلعت کے ساتھ کھیلتے دیکھ لیتی تو ضیاء کی بھی شامت آجاتی۔

 اس طرح روز و شب گذرتے رہے۔ اور طلعت جوان ہوگئی طلعت کی جوانی اسکے ماموں اور ممانی کے لیے ایک مسئلہ بن گئی وہ جہاں شادی کی بات کرتے طلعت کی منحوسیت کی خبر پہلے سے پہنچی رہتی نتیجہ یہ ہوا کہ اس شکیل و جمیل لڑکی سے کوئی شادی کرنے کو تیار نہ تھا اس مسئلے کا آسان حل موجود تھا۔ ماموں ممانی چاہتے تو اسکی شادی ضیاء سے کر سکتے تھے لیکن وہ بھی اسکی بدنصیبی سے اس طرح خوف زدہ تھے کہ کس طرح اس بلا کو کسی دوسرے گھر میں شادی کر کے ٹالنا چاہتے تھے لیکن اس میں وہ ابھی تک کامیاب نہ ہوئے تھے۔

 ماں باپ کی ساری تگ دو کاپتہ ضیاء کو بھی تھا اور طلعت بھی اس افتاد سے بے بہرہ نہیں تھی۔ ایک دن ضیاء نے طلعت سے کہا’’اگر تم راضی ہو جائو تو میں اپنے والدین سے کہوں کہ میں طلعت سے شادی کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

 پہلے تو طلعت کا چہرہ شرم و حیا سے سرخ ہو گیا پھر اپنے بدنصیبی کے واقعات اسکے سامنے آئے اور اس نے ضیاء سے کہا۔ ’’تم ایسی بات سوچوبھی نہیں ۔ تم کیوں یہ آفت اپنے سر لینا چاہتے ہو؟ پتہ نہیں تم پر کون سی مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑے اگر کوئی دوسرا تیار نہیں ہوتا تو میں کسی دن خاموشی سے یہاں سے نکل بھاگوں گی اور کہیں جاکر خود کشی کر لونگی آخر مجھے کسی کو منحوسیت کا ساجھی دار بنانے کا کیا حق ہے؟‘‘

  ’’نہیں !ایسا نہیں ہوگا میں تم سے شادی کرونگا ہاں میں تم سے اجازت چاہتا ہوں تم ایسا نہ سمجھو کہ میں تم پر ظلم کر رہا ہوں ‘‘

  ’’ماموں جان اور ممانی جان کبھی راضی نہ ہونگے‘‘ طلعت نے کہا۔

      ’’تم خواہ مخوہ ایسے خیالات رکھتی ہو وہ راضی ہونگے‘‘ ضیا نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ ضیاء کے والدین نے ہر طرح سے بیٹے کو اس شادی سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن ضیا کے آگے آخر انہیں بھی جھکنا پڑا۔ اور دونوں کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔

  ضیاء مقامی اخبار میں نیوز ایڈیٹر تھا۔ وہ سماج کی برائیوں کو بے نقاب کرتا اور پسماندہ لوگوں کی حمایت میں ہمیشہ مضامین لکھا کرتا تھا اس شہر میں فرقہ وارانہ فساد ہو گیا تھا۔ اس میں بہت سارے لوگ شہید ہوگئے ضیاء کے ماں باپ بھی شہید ہو گئے۔ ضیاء ان دنوں شہرسے باہر دوسری جگہ گیا ہوا تھا جیسے ہی یہ اندوہناک خبر اسے ملی وہ فوراً گھر واپس آگیا اسکے محلے کے لوگ ایک کیمپ میں پناہ گزیں تھے حالات معمولی پر آگئے تو سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آگئے۔

   ایک شام، ضیاء ابھی دفتر سے گھر لوٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر پولس انسپیکٹر اور کئی مسلح سپاہی کھڑے تھے اسکے نام گرفتاری کا وارنٹ تھا۔ اس پرالزام یہ تھا کہ و فساد کی خبریں شائع کر کے مسلمانوں کو مشتعل کر رہا ہے اس طرح اسے جیل کی چہار دیواریوں میں بند کر دیا گیا۔

 ابھی بھی شہر کی فضاء مکدر تھی آئے دن ایک دو خنجر زنی کے واقعات ہو جایا کرتے تھے طلعت کے لیے زندگی مسلسل عذاب بن گئی تھی۔ محلے کے غنڈے اور بد چلن لوگ اسے پریشان کیا کرتے اور دھمکاتے آخر ان سے تنگ آکر وہ تھا نے میں ان لوگوں کے خلاف اطلاع دینے گئی۔ تھانیدار نے اس سے طرح طرح کے سوالات کئے جیسے وہ مظلوم نہیں ملزم ہو۔ طلعت کو بڑا غصہ آیا اس نے بپھر کر کہا ’’آپ نے ایک بے قصور معصوم کو محض چھوٹے چھوٹے الزام میں جیل میں بند کر دیا ہے اور میں آپ سے مظلومیت کی داستان کہنے اور ظالموں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے استدعا کر رہی ہوں تو آپ مجھ پر ہی شک کر رہے ہیں ‘‘

جب تھانیدار کو یہ پتہ چلا کہ وہ ضیاء کی بیوی ہے تو اس نے اسے گرفتار کروا لیا اور وہ رات طلعت کے لیے قیامت کی رات تھی۔ اسکا سب کچھ لٹ گیا اسے منہ اندھیرے تھانے سے باہر سڑک پر چھوڑ دیا گیا اسکے پائوں لڑکھڑا رہے تھے آنکھوں کے سامنے بیکراں تاریکی تھی۔ اسی وقت اس نے ایک پولس ٹرک کو آتے دیکھا اور اس نے اپنے کو اسکے سامنے ڈال دیا۔ بریک کی کر یہہ چیخ کے ساتھ طلعت کی دلدہلا دینے والی آواز نے فضاء میں ارتعاش پیدا کیا۔ اور چند منٹوں کے بعد اسکا لہولہان بدن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔

تبصرے بند ہیں۔