طائف کا مظلوم مبلغ

مولانا محمد غیاث الدین حسامی

          دعوتِ دین اور اشاعت ِ اسلام ایک اہم فریضہ ہے ، امت محمدیہ کی فلاح و کامیابی اسی میں مضمر اور پوشیدہ ہے ، تاریخ گواہ ہےکہ جب تک امت مرحومہ نے اس فریضہ کو بحسن و خوبی اداکیا کامیابی و کامرانی ان کی حلیف رہی ، عروج و اقبال مندی ان کےہم آغوش رہی ، اور جب بھی امت مرحومہ نے اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کیا ذلت و ناکامی کی عمیق کھائیوں میں جاگری ، شکستہ مائی اور زبوں طالعی اس کا مقدر ہوئی ، دین کی دعوت اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لئے مسلسل جدو جہد اور پیہم قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے ، جب تک اس مہتم بالشان عمل کے لئے قربانی نہیں دی جائے گی یہ عمل مطلوبہ حد تک نتیجہ خیز اور بار آور ثابت نہیں ہوسکتا ، آپ ﷺ کی پوری زندگی امت کے لئے مشعل ِ راہ ہے ، آپ ﷺ کی زندگی کا ایک اہم پہلو بلکہ آپ ﷺ کی زندگی کا بنیادی مقصد دین کی دعوت اور پیامِ حق کو پوری انسانیت تک پہونچانا تھا ، آپ نے اس عمل کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں ؟ اور اس راہ میں کتنی مشقتیں اور مصیبتیں جھیلیں ہیں اس کےلئے طائف کا دعوتی سفر ہمارے لئے انمول اور قابل تقلید ہے۔

          نبوت کا دسواں سا ل جس کو’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے، اسی سال ہمارے پیارے نبی ﷺ کے مشفق چچا ابوطالب اور وفا شعار رفیقۂ  حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تھا،چچا ابوطالب کے انتقال پر آپ ﷺ بہت زیادہ مغموم ہوئے کیونکہ ابوطالب کفارِ مکہ کے مقابلہ میں نبی کریمﷺ کا دفاع کررہے تھے ، ایک توظاہری اسباب کےدائرہ میں چچا ابوطالب کی حمایت و مدد ان کے انتقال کے وجہ سے ختم ہوچکی تھی ،دوسرے چچا ابوطالب کا انتقال کفر پر ہوا اس کا بھی آپ ﷺکو بہت قلق تھا ، پھر تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال ہوا جو نہ صرف آپ ﷺ کی بیوی تھی بلکہ حق کی آواز ، سب سے پہلے لبیک کہنے والی اور گلشن اسلام کی پہلی کلی تھی ، جب کبھی آپﷺ کفار و مشرکین کی ایذا رسانی سےملولِ خاطر ہوتے تو حضرت خدیجہ ؓ آپ کی غمگسار ہوتیں اور آپ کو تسلی دیتیں ، ان دونوں شخصیات کی وفات کے ساتھ ہی کفار ِ مکہ کے ظلم و ستم کا بادل آپ ﷺ پر پیہم برسنے لگا ، طاغوتی طاقتوں نے مکرو فریب کے ترکش خالی کرنا شروع کردئے، قریش کا یہ غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک نہ صرف پیغمبر اسلام کے ساتھ تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے تھے، ان میں آپ ﷺ کا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور اس کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی ،ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی چچا تھا مگر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سخت دشمن تھا، ہر لمحہ آپ ﷺ کو تکلیف دینے کے در پے رہتا ، موسم حج ہویا مکہ کا بازار جہاں بھی آپ ﷺ کو دین کی تبلیغ کرتے ہوئے پاتا آپ ﷺ پیچھے سے آواز لگاتا اورکہتا کہ لوگو! یہ شخص بد دین اور جھوٹا ہے اس کی باتوں میں مت آؤ ،اور دوسروں کو آپ کے خلاف بھڑکاتا چنانچہ قریش آوارہ لڑکوں اور اپنے اوباش غلاموں کو آپﷺ کے راستے پر بٹھا دیتے اور جب آپ ﷺ اس راستے سے گزرتے تو سب آپ کے پیچھے لگ جاتے، آپ کا مذاق اڑاتے،آپ پر طعنے کستے ، ان ہی حالات کی وجہ سےمکہ کی سرزمین آپ ﷺ پر تنگ ہوگئی ،آپ نے یہ دیکھا کہ نبوت کا بادل پیہم برس رہا ہے، لیکن مکہ کی سرزمین بنجر اور غیر صالح ثابت ہورہی ہے، اسی لئے آپ نے طائف کا رخ کیا جو آبادی اور خوشحالی کے اعتبار سے مکہ کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ جیسے مکہ ’’ہبل‘‘ کی عبادت کا مرکز تھا تو طائف میں ’’لات‘‘ کی پوجا پاٹ ہوتی تھی، خاندان بنو ہاشم کی طائف میں رشتہ داریاں تھیںچند قبیلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموؤں کا خاندان کہا جاتا ہے، مکہ کے اہل ِ ثروت تجارت اور گرمیاں گزارنے طائف آیا کرتے تھے۔ زرخیز زمین، خوبصورت موسم اور باغات کی کثرت کی وجہ سے یہاں کے باشندے کافی خوشحال تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر نہ وہاں کے باشندوں کی خوشحالی اور زرخیزی سے متاثر ہوکر کیا تھا اور نہ ہی آپ اپنے ننھالی رشتہ داروں سے ملنے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے آئے تھے،بلکہ آپ ﷺ نے یہ سفرپیدل چلتے ہوئے خالص توحید کے پیام کو عام کرنے اور انسانیت کو کفروشرک کے ظلمات سے نکال کر ایمان و یقین کے روشنی سے منور کرنے کے لئے کیا تھا اور اس امید سے آئے تھے کہ یہاں کے لوگ پیامِ توحید قبول کرلیں اور آپ کو محفوظ ٹھکانہ دے دیں، مگر طائف والوں نے آپ کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی اہل مکہ کو بھی جرأت نہیں ہوئی تھی، طائف کا دن آپ کی زندگی کا سخت ترین دن تھا،چنانچہ صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ کی زندگی میں اُحد سے بھی زیادہ سخت ترین دن کوئی گزرا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں عائشہ! طائف کا دن بڑا سخت ترین دن تھا جب میں نے اپنے آپ کو وہاں کے سرداروں کے سامنے پیش کیا تھا۔

          طائف مکہ مکرمہ سے 120 کلومیٹر کے فاصلےپر مشرقی جانب اور سطح سمندر سے تقریباً 5 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے،اس سفر میں آپ ﷺاپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کوساتھ رکھا ، اسلام کی تبلیغ کے لئے جب وہاں کے سرداروں سے آپ ﷺ ملاقات کئے جو آپ ﷺ کے ننھالی رشتہ دار تھے، ن دنوں طائف میں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبد یا لیل ، مسعود اور حبیب بنو ثقیف کے سردار تھے، آپﷺ نے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی، آپ ﷺ مسلسل دس دن وہاں قیام کرکے ان کو سمجھانے کی پوری کوشش کی ، کفر و شرک چھوڑ کر ایمان کی طرف آنے کی دعوت دی ؛ لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا،ایک نے کہا : تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا ؟ دوسرے نے کہا : کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو ؟ تیسرا بولا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں، مذکورہ سرداروںنے نہ صرف ہدایت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپ ﷺکو یہ حکم بھی دیا کہ بہت جلد آپ یہ بستی چھوڑ دیں ،ان بد بختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، طائف کے بدمعاشوں اور اوباشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑائیں ، چنانچہ انھوں نے راستہ سے گذرتے وقت آپﷺ پر پتھر مارنے شروع کردئے، حضرت زید ؓبن حارثہ ان پتھروں کے لئے سپر بن جاتے یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا، حضورﷺ کا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپﷺ کی جو تیاں خون سے بھر گئیں ، جب آپﷺ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپﷺ جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے ، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے ، پتھروں کے برسانے سے آپﷺ کوبہت چوٹیں آئیں اور آپ ﷺ زخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے،حضرت زیدؓ آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر آبادی سے باہرعتبہ اور شیبہ کے باغ میں لے آئے،عتبہ اور شیبہ جو باوجود کفر پر قائم ہونے کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے،اس باغ میں بیٹھ کر آپﷺ نے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کا ایک ایک فقرہ معلوم ہوتا ہےکہ عبدیت اور تواضع و انکساری کے سانچے میں ڈھلا ہوا ، سوزو گداز اور درد و کرب کے عطر میں بسا ہوا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپﷺ سے جو بدسلوکی کی اور بدتمیزی کی اس کی وجہ سے آپﷺ کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے، آپﷺ نے فرمایا:بار الٰہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے ، تو مجھے کس کے حوالہ کر رہاہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ؛لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔

          عتبہ اور شیبہ کے اسی باغ میں عداّس نامی ایک شخص نے آپ ﷺ کے دست ِ حق پرست پر اسلام قبول کیا ، وہ آپ ﷺ کے پاس کچھ انگور لیکر آیا اورآپ کے سامنے رکھ دیا ، آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر انگورکھانے لگےتو عدّاس حیرت سے آپﷺ کی صور ت دیکھنے لگاآ پ ﷺنے پوچھا تم کہاں کے ہو اور تمھارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے، حضورﷺ نے فرمایا ! کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کانام یونس بن متی تھا ، عدّاس نے پوچھا کہ آپ کس طرح انھیں جانتے ہیں تو حضورﷺ نے جواب دیا کہ وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ، عدّاس نے آپﷺ کا نا م پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا” محمد” تب عدّاس نے کہا کہ میں نے توریت میں آپ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپﷺ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں ،اس کے بعد اس نے کہا کہ میں ایک عرصہ سے یہاں آپﷺ کے انتظار میں ہوں ، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپﷺ کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور ﷺ کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا۔

          طائف کے اس سفر میں بہت سی باتیں قابل توجہ اورلائق تقلید ہیں، پہلی یہ کہ آپ ﷺ لوگوں کی ہدایت کے لئے بہت فکر مند اور بے چین رہا کرتے تھے ، مکہ کے مشرکین جب دین ِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردئے تو آپﷺ طائف کے لوگوں کوسمجھانے کےلئے وہاں کا سفر کئے ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ ﷺ امت کے ہر فردِ بشر کو اسلام کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں ، نبی ﷺ کے اسی درد اور جذبہ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا ’’ شاید اے محمد آپ تو اہل مکہ کے ایمان نہ لانے کے غم میں اپنی جان کھودیں گے ( الشعراء ۳)

          سفر طائف سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہےکہ دشمنوں کے ساتھ آپﷺ کے برتاؤ بہت بہتر تھا اور آپ ﷺ کے اخلاق بہت اعلی تھے ، اور اسی اعلی اخلاق کے ساتھ آپ ﷺ طائف کے سرداروں اور لوگوں سے ملےاور ان کے نازیبا سلوک کے باوجود اپنے عالی اخلاق کو پیش کئے ، اور امت کو بھی یہ تعلیم دئے کہ دعوت و تبلیغ کے لئے داعی کے اندر عمدہ اخلاق اور صبر و تحمل کا ہونا ضروری ہے، نبی ﷺ کے انہی اخلاق کو قرآ ن مجید میں’’ اخلاق عظیمہ‘‘کہا گیا اور اسی کی تکمیل کے لئے آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا۔

          اس سفر میںایک نصیحت یہ بھی ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ کی طرف متوجہ رہے ، خوشی ہو یا غم ، راحت ہو یا مصیبت ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرنا کامیاب انسان کی دلیل ہے ،رسو ل اللہ ﷺ نے طائف کے سفر میں یہی کام کیا ، جب طائف والوں نے آپ ﷺ کو سخت ترین تکلیفیں دیںآپ ﷺ کا پورا جسم لہو لہان ہوگیا اس وقت بھی آپﷺ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہوئے ۔

          واقعہ ٔ طائف میں ایک بات جو سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے وہ آپ کا عفو درگذر ہے ، بے انتہا ء تکلیف دینے والو ں کو آپ نے معاف کردیا ، جبکہ اللہ تعالی نے عذاب کا فرشتہ بھی بھیج دیا تھا اور آپ ﷺ کی اجازت کی ضرورت تھی ؛ لیکن آپ ﷺنے کہا کہ اے جبرئیل ؑ ان کو عذاب میں مبتلامت کرو ہوسکتا ہےکہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائے تو میرے دین کو ماننے والے ہونگے ، اسی عفو و درگذر اور صبر و تحمل کا نتیجہ تھا کہ چند ہی سالوں میں طائف کے لوگ ایمان سے مشرف ہوئے ۔

          اس سفر میں آپ ﷺ تمام تر مصائب و تکالیف کے باوجود تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے ، جس بستی سے گذر تے وہاں کے باشندوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عتبہ اور شیبہ کے باغ میں کام کرنے والاشخص عداّس ایمان قبول کیا ، علماء نے لکھا کہ عداّس کا ایمان قبول کرنا   اس سفر کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔