’’بیشک! آپؐ اخلاق کے سب سے بڑے مرتبے پر فائز ہیں‘‘

ترتیب: عبدالعزیز
سورہ ’القلم‘ میں تین مضامین اللہ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں۔ مخالفین اسلام کے اعتراضات ان کی تنبیہ اور نصیحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر و استقامت کی تلقین۔
آغاز کلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ دشمنانِ اسلام تم کو دیوانہ کہتے ہیں، حالانکہ جو کتاب تم پیش کرتے رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کیلئے کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون ؟
صاحب تفہیم القرآن نے سورہ ’قلم‘ کی آیت 4 کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے، ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں، اسی وجہ سے آپ ہدایتِ خلق کے کام میں یہ اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج میں اعتدال باقی نہ رہا ہو۔ اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق جیسے کچھ تھے، اہل مکہ ان سے ناواقف نہ تھے۔ اس لئے ان کی طرف محض اشارہ کر دینا ہی اس بات کیلئے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ وہ لوگ کس قدر بے شرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں۔ ان کی یہ بیہودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نہیں بلکہ خود ان کیلئے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش میں پاگل ہوکر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا۔ یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقیق کا بھی ہے جو اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہیں۔ قرآن پاک دنیا میں ہر جگہ مل سکتا ہے اور حضورؐ کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس بے مثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایسے بلند اخلاق رکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہیں وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہوکر کیسی لغو بات کہہ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہے کہ کان خلقہ القراٰن ’’قرآن آپ کا اخلاق تھا‘‘۔ امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ ان کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھا دیا تھا، جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا آپؐ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا جس چیز سے اس میں روکا گیا، آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو اس میں فضیلت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات ان سے متصف تھی اور جن صفات کو اس میں ناپسندیدہ ٹھیرایا گیا سب سے زیادہ آپ ان سے پاک تھے۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا، کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اپنی ذات کیلئے کبھی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو اِلّا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے، اِلا یہ کہ وہ گناہ ہو، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے‘‘ (مسند احمد)۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ آپؐ نے کبھی میری کسی بات پر اُف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا‘‘ (بخاری و مسلم)۔
صاحب تدبر قرآن نے سورہ ’قلم‘ کی آیت 4 کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’یعنی حضراتِ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ نے اعلیٰ کردار کے جو نمونے پیش کئے ہیں تم اسی کی ایک نہایت شاندار مثال ہو اور تمہارا یہ کردار ان لوگوں کے خلاف سب سے بڑی حجت ہے جو تمھیں دیوانہ یا کاہن یا شاعر کہہ کر اپنے کو اور اپنے عوام کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ تمہاری یہ باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ کردار کو آپ کے دعوے کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سورۂ شعراء میں نہایت تفصیل سے کاہنوں اور شاعروں کے اخلاق کی پستی، ان کی فکری ہرزہ گردی اور ان کے قول و عمل کی بے ربطی کا حوالہ دے کر ان لوگوں کو علامت کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ناپاک زمرے میں شامل کرتے تھے۔ ان سے سوال کیا گیا ہے کہ نبی کے اعلیٰ کردار کو ان کاہنوں اور شاعروں کے کردار سے کیا تعلق جن کا ظاہر و باطن دونوں ہی یکساں تاریک ہے!
تفسیر روح القرآن میں سورہ ’قلم‘ کی آیت 4 کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں:
’’جنون کوئی ایسا مرض نہیں جو کسی خاص علاقے یا خاص زمانے کے ساتھ مخصوص ہو۔ ہم آج بھی اپنے دائیں بائیں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے ہر شخص اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ جو شخص اختلالِ دماغ کا شکار ہو وہ نہ تو بلند اخلاق کا حامل ہوسکتا ہے اور نہ اس کے مزاج میں اعتدال ہوسکتا ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات میں ٹھہراؤ، وقار، تحمل اور بردباری ہوسکتی ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ صرف صفات پائی جاتی تھیں بلکہ آپؐ اس کا مظہر اتم تھے۔ قرآن کریم میں اوامر و نواہی ہیں، مکارم اخلاق کی تعلیم ہے، فضائل اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے، رزائل سے روکا گیا ہے، زندگی کے بلند مقاصد کی خبر دی گئی ہے، ایک نظام زندگی دیا گیا ہے جسے برپا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے اس کیلئے سر کٹوانا پڑے۔ ایک بالکل نئی زندگی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے دین کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ قرآن کی ان تعلیمات اور اس کی دی ہوئی زندگی کی چھاپ کو اگر چلتے پھرتے، بولتے چالتے اور فعال شکل میں دیکھنا ہو تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایک قرآنِ ساکت ہے جس کی ہم تلاوت کرتے ہیں اور ایک متکلم قرآن ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک قرآن کا متن ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کی شرح آنحضرتؐ کی ذات گرامی ہے۔ قرآن قول ہے اور آپؐ اس کا عمل ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے یہاں خلق عظیم قرار دیا گیا ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا خُلْقُہٗ الْقُرْاٰنَ ’’قرآن آپ کا اخلاق تھا‘‘۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ کا خلق خود قرآن ہے، یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعثت لِاُ تَمِّمَ مکارم الاخلاق یعنی ’’مجھے اس کام کیلئے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ (ابو حیان)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کے مکارم اخلاق کا یہ حال تھا کہ مدینہ کی کوئی لونڈی، باندی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لے جانا چاہے لے جاسکتی تھی‘‘۔ (رواہ البخاری)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے کہ اس میں کفار کو مارنا اور قتل کرنا ثابت ہے ورنہ آپؐ نے کسی خادم کو یا کسی عورت کو کبھی نہیں مارا، ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی ہوتو اس پر شرعی سزا جاری فرمائی۔ (رواہ مسلم)
اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے۔ نہ بازاروں میں شور و شغب کرتے تھے، برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میزان عمل میں خلق حسن کے برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزمان سے بغض رکھتے ہیں۔ (روالترمذی وقال حدیث حسن صحیح)۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حسن خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو۔ (رواہ ابو داؤد)
اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل مقرر کرکے بھیجنے کے وقت آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پاؤں رکاب میں رکھ چکا تھا، وہ یہ تھی یَا مَعَاذ اَحْسِنْ خُلْقَکَ لِلنَّاسِ ’’اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتاؤ کرو‘‘۔ (رواہ مالک) یہ سب روایات حدیث تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔