فروعی اختلافات: سبب رحمت ونعمت!

عبدالکریم ندوی گنگولی

  یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام ایک روشن وتابناک دین حنیف ہے اور لوگوں کی دنیوی واخروی صلاح وفلاح کا واحد ذریعہ بھی، ابتدائے اسلام سے لے کر دور حاضر تک اسلام کے خلاف جب بھی فرعونیت کا روپ دھارکر جو بھی اس دین متین سے نبردآزما ہوا تو کوئی نہ کوئی مصلح ومجدد اور صاحب دل وصاحب نظر نے دینی لبادہ اوڑھ کر میدان عمل میں اتر آیا اور دین وملت کی حفاظت میں اپنے جوہر دکھائے ،کیونکہ اس دین کی تحفظ اور بقاء کی ذمہ داری خودخالق کائنات اور مالک لوح وقلم نے لیا ہے ،ارشاد ربانی ہے ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘(الحجر:9)۔

  اللہ تعالی نے دین اسلام کو بہت ہی آسان کیا ہے اور اس کے قوانین واحکام بھی عین فطرت سے ہم آہنگ ہیں ،جس کی وضاحت قرآنی آیات اور نبوی تعلیمات سے بھی ہوتی ہے اور اس کی آسانی کا تجزیہ مختلف حیثیتوں سے کیا جاسکتا ہے ،ان میں سے ایک چیز فروعی مسائل میں اختلاف بھی ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی کسی بھی حال میں تنگی میں نہیں پڑتا اور دین پر عمل کرنے کی راہیں اس کے سامنے کھلتی جاتی ہیں ،لیکن انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں بالخصوص ہندوستان میں اور عموماً پورے عالم اسلام میں بڑی قابل قدر تنظیمیں وتحریکیں وجود میں آئیں ان کے وجود وقیام کاپس منظر کچھ بھی رہاہو لیکن تقریباً سب نے یکساں مقصد کا اظہار کیا تھا ،ان کی فکر وسوچ میں امت مسلمہ کی نشأۃ ثانیہ اور دین اسلام کی خدمت میں سرگرم رہنے کا جوش اور ان کے افق دل پر مسلمانوں کی ظلمت ونکبت کو دور کرنے والاستارہ چمک رہاتھا اور مستقبل میں روشن تاریخ رقم کرنے کا جذبہ ابھر رہا تھا ،ان کے نظریات واصول ،ان کی محنتیں وکاوشیں اپنی جگہ ،ان کے دلوں میں امت کی فکر اور روشن مستقبل کے خیالات واحساسات اپنی جگہ لیکن درمیان میں جو صورت حال پیدا ہوتی رہی اور اس وقت ملت اسلامیہ خاص طور سے ملت اسلامیہ ہندیہ جس صورت حال سے دوچار ہے وہ ضرور باعث تشویش اور لائق اعتناء ہے۔

 اسلام سوائے عقائد کے کہیں بھی شدت پسندی کی تعلیم نہیں دیتا،کیونکہ عقائد اسلام کی وہ بنیادی جڑ ہے جس میں ذرہ برابر کمزوری یا کھوکھلاپن برداشت سے باہر ہے لیکن اسلامی قوانین وپابندیاں فطرت کے عین مطابق اور اعتدال پر مبنی ہیں پھر اس کے داعیوں اور خدمت گذاروں کا آپس میں اس قدر اختلاف یہ حیرت کن مقام کا حامل ہے،ہر ایک اپنی ذات اور نظریات کے حصار میں قید ہے ،ہمیں تسلیم کہ فروعی اور نظریاتی واجتہادی اختلاف ایک فطری عمل ہے جس کا وجود امر ناگزیر ہے لیکن یہی چیز وسعت ورحمت کا درجہ رکھتی ہے جس کو آج ہم نے زحمت ومذمت کا سبب بنالیا ہے اور اتحاد واتفاق کے بجائے انتشار وافتراق کاسامان بنالیا ہے ،جب کہ یہی فروعی واجتہادی اختلافات صحابہ ؓ اور تابعین وتبع تابعینؒ کے دور میں پایا جاتاتھا لیکن عقائد اسلام اور اصول دین میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں تھا ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ سے جب امام شافعیؒ کے عقیدہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے یوں جواب دیا’’امام شافعیؒ کا عقیدہ اسلام کے سلف صالحین امام ملک ،امام ثوری،امام اوزاعی ،ابن مبارک ،احمدبن حنبل،اسحاق بن راھویہ کے عقیدہ کے موافق ہے اور اسی طرح مقتدی بہ مشائخ یعنی فضیل بن عیاض ،ابوسلیمان دارمی،سہل بن عبداللہ تستری وغیرہ کے مطابق عقیدہ ہے ،اسی لئے ان ائمہ اور ان کے علاوہ ائمہ کے درمیان اصول دین میں کوئی نزاع نہیں پاجاتاہے ،اسی طرح امام ابو حنیفہ ؒ کے عقیدہ کے سلسلے میں انہیں ائمہ کے موافق ہونا ثابت ہے اور ان تمام ائمہ کا عقیدہ صحابہ کرام ،تابعین عظام اور کتاب وسنت کے موافق ہی ہے (مجموع الفتاوی:5؍254)۔

 دشمنان اسلام کی زہر افشانیاں وچیرہ دستیاں امت مسلمہ کی مقدر بن چکی ہیں اس پر مستزاد اب یہ امت اپنوں ہی کی جعل سازیوں اور نااتفاقیوں کا شکار بن گئی ،جی ہاں !صورت حال کچھ ایسی ہی ہے ،باطل نظریات اور فاسد تحریکات کی بات نہیں اس دور میں یہ حال ان لوگوں کا ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں خدمت دین ،خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں اور بظاہر ملت اسلامیہ کے مفاد میں کوشاں وسرگرداں نظر آتے ہیں ،جن کے چہروں پر امت کا درد وغم ،آنکھوں میں درد بھرے آنسوں اور فکروں میں امت کی زبوں حالی ،شکست وریخت کی تلاطم خیزی نظر آتی ہے ،لیکن خودساختہ اصولوں کی شدت،اپنی دین فہمی پر دوسروں کو عمل کرانے کی ضداور خدمت دین وکار دعوت میں تشدد نہ مطلوب مؤمن ہے اور نہ ہی مقصود دین فطرت ہے،کیوں کہ اس کے نتیجے میں منفی اثرات اور آپسی انتشار واختلافات کا پیدا ہونا لازمی ہے۔

 اگر بچشم غور جائزہ لیا جائے تو امت مسلمہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ منفی اثرات واختلافات کے دام فریب میں آچکا ہے ،آپسی محبت والفت نفرت وعداوت میں بدل چکی ہے ،نااتفاقیوں ،ناچاقیوں ،دوریوں اور بحث ومباحثوں کا بلاخیز طوفان رواں دواں ہے ،اس سے بھی آگے بڑھ کر الزام تراشیوں اور ایک دوسرے پر تضلیل وتکفیر کی گرم بازاری ہے ،غرض یہ امت اسلامی تعلیمات و شرعی احکامات کی ساری حدیں پار کر چکی ہیں ،ایسے ناگزیر حالات میں کسی تنظیم وتحریک سے کیا حاصل؟باوجود اس کے کہ ہر ایک بزعم خود دین کا داعی اور خدمت اسلام میں سرگرم عمل ہے۔

اختلافات کی دنیا پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فروعی واجتہادی اختلافات آپ ﷺ ،صحابہ کرام ،تابعین عظام کے دور میں بھی پائے جاتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس کو عداوت ومخالفت کا سبب ہونے نہ دیا ،بلکہ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اوراسے اہمیت دیتے ہوئے امت کے لئے باث وسعت ورحمت قراردیا ،چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ فرمایا کرتے تھے ’’مجھے اس کی خوشی نہ ہوتی کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا ،اس لئے کہ اگر ان میں اختلاف نہ ہوتا تو سہولتیں نہ ہوتیں ،اسی طرح حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر (جن کا شمار مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں ہوتا ہے)فرماتے ہیں :صحابہ کے اختلاف سے اللہ نے ملت کو فائدہ پہنچایا ،اس لئے تم اس میں سے جس بات پر بھی عمل کرو تمہارے دل میں کھٹک پیدا نہیں ہونی چاہئے (الفقیہ والمتفقہ:2؍116)۔

  یہ بات ذہن نشین رہنی چائیے کہ تاریخ اسلام میں کہیں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ فقہی اختلافات نزاع وصدام اور لڑائی جھگڑے کا سبب بنے ہوں اس کے برعکس وہ تو رحمت ووسعت کا سبب تھے،اسی لئے جلیل القدر تابعی امام سیوطی ؒ نے اپنے رسالہ میں فرمایاہے کہ:’’مذاہب کا اختلاف ملت لئے ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم دولت ہے اور اس میں ایک ایسا باریک اور لطیف راز ہے جس کو صرف علماء ہی جانتے ہیں اور جاہل اس سے بے بہرہ ہیں ،اختلاف تو رحمت ہے نہ کہ کلفت (جزیل المواہب فی اختلاف المذاہب:1؍2)۔

عصر حاضر امت مسلمہ سے زبان حال سے درد وکرب بھری آوازمیں چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ فروعی واجتہادی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر سب ایک فلیٹ فارم پر جمع ہوکر ایک نبی کی امت بن کر زندگی گذاریں اور اس بات کا متقاضی ہے کہ جو اصول دین وعقائد اسلام اور فرائض دین ہیں ان پر عمل پیرا ہوجائیں اور ان اختلافات کو من جانب اللہ باعث رحمت وبرکت سمجھے،اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپسی تفرقہ بازی وگروہ بندی سے منع فرمایا ہے کیوں کہ اس سے امت ایک دوسرے کی دشمن بن جاتی ہے اور فرقوں وٹولیوں میں بٹ جاتی ہے اور اس کی مستقبل کی تاریخ تاریک ترین اور بدترین ہوجاتی ہے اور شکست وریخت اس کا مقدر بن جاتی ہے ،باری تعالی اس امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ’’ولاتکونوا کالذین تفرقواواختلفوامن بعد ماجاء ہم البینات وأولٰئک لہم عذاب ألیم‘‘(آل عمران :104 تا 105) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاناجنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا ،انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔

 اللہ تعالی کو یہ ہر گز پسند نہیں کہ یہ امت فروعی اختلافات میں الجھ کر مقصد زندگی کو بھلا بیٹھے اور اپنی زندگی کے قیمتی وحسین لمحات اللہ کی عبادت کے بجائے نفرت وعداوت کی میں گذاردے،اسی لئے اللہ تعالی نے اپنی نبی ﷺ کوزور دار انداز میں امت کے نام یہ پیغام دیا ’’ان اللذین فرقوادینھم وکانوا شیعاً لست منھم فی شیٔ انما أمرہم الی اللہ ثم ینبئہم بما کانوا یفعلون‘‘(الانعام:159)بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیااور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ،بس ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے،پھر ان کو ان کا کیا ہو اجتلادے گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اتحاد واتفاق ،یکجہتی ویکسوئی عطافرمائے اور باہمی اختلاف وافتراق،انتشار وخلفشار،فرقہ وگروہ بندی سے حفاظت فرمائے اور آپس میں حقد وکینہ ،بغض وحسد، عداوت ودشمنی جیسی تمام برائیوں سے کوسوں دور رکھے اور ملت اسلامیہ کو امن وسلامتی ،صلح وآشتی اور باہمی اتحاد ویگانگت سے مالامالا فرمائے۔(آمین)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔