قرآنی آیات کی روشنی میں دعا کی اہمیت
مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی تمام تر حاجات اور ساری ضروریات (خواہ ان کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے) مانگنا شریعت میں ’’دعا ‘‘ کہلاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہی حاجت روا اور مشکل کشا ہیں،اللہ کے علاوہ نہ تو کوئی حاجت روا ہے اور نہ ہی مشکل کشا،صرف وہی ذات ہمیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نقصان سے بچا سکتی ہے، ہم سب اس کے مملوک اور وہ ذات ہم سب کی مالک ہے،ہم سب اس کے در کے فقیر اور محتاج ہیں وہ غنی اور وھاب ذات ہے، ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا ہے۔ الغرض ہم بندے ہیں اور وہ آقا ہے۔اس کریم ذات کا محض اتنا کرم ہی کافی ہے کہ وہ ہم جیسے نالائق، غیر مستحق بلکہ مستحقِ سزا و عقاب لوگوں کواپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے لیکن یہاں تک معاملہ صرف کرم کا ہے اب اْس کرم کی انتہاء تو دیکھیے کہ جو اس سے دعا نہ مانگے وہ ذات اس سے ناراض ہو جاتی ہے،چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہے :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے(دعا)نہیں مانگتا تو اس پر اللہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ (جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث نمبر 3295)
یہ دستورِ دنیا کے بالکل برعکس ہے کیونکہ دنیا والوں سے مانگو تو ناراض اور نہ مانگو تو خوش ہوتے ہیں۔اس کے باوجود اگر ہم اس ذات سے اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کی دعا نہ مانگیں تو بتائیے ہم سے زیادہ بے عقل اور کون ہو گا؟اس لیے ہمیں اپنی ضروریات کے حل کے لیے دعا کی ضرورت کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو مسلمان کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مملوک اور بندہ ہے اس لیے اسے اللہ سے اپنی حاجات اور ضروریات کو مانگنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اگر غور کیا جائے توکئی وجوہات ایسی ہیں کہ جن کا بھی تقاضا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہیے،ان میں سے چند یہ ہیں:
1۔ رحمان و رحیم:
قرآن کریم میں ہے: اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔(سورہ الفاتحہ، آیت نمبر 2)
یہ بات بالکل واضح ہے کہ بے رحم سے کچھ نہیں مانگا جاتا، رحم کرنے والے سے ہی مانگا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات تو صرف رحم کرنے والی ہی نہیں بلکہ بے حد رحم کرنے والی ہے اس کا تقاضا ہے کہ دعا صرف اسی سے مانگی جائے جو بے حد رحم کرنے والا ہے۔
2 … قدرت کاملہ:
قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ اللَّہ َ عَلیَ کْلِّ شیئٍ قَدِیر۔(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 20)
جس ذات سے مانگنا ہے اس کے لیے قدرت والا ہونا بھی ضروری ہے اگر اس کی قدرت ہی نہ ہو تو دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں، مرادیں کیسے پوری کرے گا ؟ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دعا اس سے کی جائے جس کو ہر کام کی مکمل قدرت ہو اور وہ ذات سوائے اللہ رب العزت کے اور کسی کی نہیں۔
3 ۔ قبولیت:
قرآن کریم میں ہے: وَاِذَا ساََلکََ عِبَادِی عَنیِ فاَِنیِّ قَرِیب اْجِبْبُ دَعوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔(سورۃ البقرۃ، آیت 186)
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو فرماتے ہیں: اے میرے پیغمبر!جب کوئی آپ سے میرے بارے میں سوال کرے تو (آپ فرمادیں کہ) میں قریب ہوں ، جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔
4 ۔الحی القیوم:
قرآن کریم میں ہے:
اَللَّہْ لَا اِلہ َاِلَّاھوَ الحیّْ القَیّْومْ۔ (سورۃ البقرۃ، آیت 255)
بے جان اور کمزور کسی کو کیا دے سکتا ہے اور ایسا زندہ جس کو ہروقت مرنے کا دھڑکا لگا رہتا ہوں وہ کسی کی حاجت روائی کیسے کر سکتا ہے اس لیے دعا اس ذات سے مانگنی چاہیے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے قوت و طاقت والا ہے کمزور نہیں ہے یعنی اس سے جو ’’الحی القیوم‘‘ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔
5 ۔غنی کریم :
قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ رَبیِّ غَنِی کَریم ۔(سورۃ النمل، آیت نمبر 40)
ظاہر سی بات ہے کہ جو خود کسی دوسرے کا محتاج ہو اس سے کیا مانگنا؟ مانگنا تو اس ذات سے چاہیے جو تمام خزانوں کا مالک ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو۔ اس لیے دست دعا بھی اس کے سامنے دراز کرنا چاہیے۔ غنی کے ساتھ ساتھ اس کا کریم ہونا بھی ضروری ہے کریم کا مقابل بخیل ہوتا ہے بخیل سے کچھ نہیں مانگا جاتا اور مانگ بھی لیا جائے تو بخیل نہیں دیتا اگر دے بھی دے تو ضرورت سے کم دیتا ہے۔ کریم وہ ذات ہے جو استحقاق کے بغیر بھی نواز دے۔
6 ۔ مْختارِ کل:
قرآن کریم میں ہے :
وَرَبّْکَ یَخلْقْ مَا یَشَاء ْ وَیختَارْ ۔(سورۃ القصص، آیت نمبر68)
اللہ تعالی کی ذات مختار کل ہے۔ تمام تر اختیار ات اس کے پاس ہیں اس لیے مانگنے کے لیے اسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانے چاہییں جس کے پاس تمام اختیارات ہوں اور جو خود مختار نہ ہو بلکہ کسی اور کا پابند ہو تو وہ مختار کل نہیں ہو سکتا۔ نہ تو اللہ کے علاوہ کوئی مختار کل ہے اور نہ ہی کسی اور مافوق الاسباب مانگنا جائز ہے۔
7۔غفور الرحیم:
قرآن کریم میں ہے:
اِنہّ ْ ھْوَ الغَفْورْ الرَّحِیمْ(سورۃ الزمر، آیت نمبر 53)
انسان خطا کا پْتلا ہے۔ شیطان ، نفس یا ماحول سے مغلوب ہو کر بالآخر گناہ کر بیٹھتا ہے اب یہ معافی مانگنا چاہتا ہے تو اب ضروری ہے کہ یہ ایسی ذات کے سامنے ہاتھ پھیلائے جو معاف کرنے والی ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
8۔سمیع علیم:
قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ اللّہَ َ سَمِیع عَلیم۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر1)
جس سے دعا مانگی جا رہی ہو وہ اس کو سن بھی سکتا ہواور جانتا بھی ہو کہ کیا مانگا جا رہا ہے۔ اس لیے ایسی ذات سے دعا مانگنے کا حکم ہے جو سنتی بھی اور جانتی بھی ہے۔ سننے کے مفہوم میں بہت زیادہ وسعت ہے ہر کسی کی ہر وقت سنے اور علم کے مفہوم میں بھی بہت وسعت ہے کہ ہر کسی کی ہر زبان کی ہر بات کو جانے بلکہ اس میں بھی مزید وسعت ہے کہ وہ یہ بھی جانتا ہو کہ کسے، کس وقت ،کیا اور کیسے دینا ہے ؟ اور کسے، کب ،کیا اور کون سی چیز نہیں دینی ؟
مذکورہ بالا آیات قرآنیہ کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں دعا مانگنے کی ضرورت کیوں ہے ؟ اور یہ کہ دعا کس سے مانگنی ہے ؟ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنے کی کون سی وجوہات ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہی در کا محتاج بنا کر غیروں کی محتاجی سے محفوظ فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
تبصرے بند ہیں۔