مغربی تہذیب کا زوال اور اسلامی لائحہ عمل
محمدصابرحسین ندوی
تہذیب کا لفظ عربی زبان میں مادہ ’’ ھذب‘‘ سے ماخوذہے، اس کے لغوی معنی :کانٹ، چھانٹ اور اصلاح کرنے کے ہیں ، (المعجم الوسیط:ھذب )، دراصل انسانی بستی متعدد گروہوں ، جماعتوں اور قبائلوں میں منقسم ہے اور ان میں ہم آہنگی، ومناسبت کا پیدا ہونااور نتیجتاً زندگی بسر کرنے اور اور اخلاق واقدار، معیشت وحکومت میں کسی خاص طرح واساس کا ایجاد ہوجانا ؛جو نہ صرف کسی قوم کی پہچان بلکہ اس کی روح وخلوص کا آئینہ دار ہوتہذیب کہلاتا ہے، ’’ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرزفکرو احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان آلات و اوزار پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہین سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسانوں ، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں ‘‘۔ ( سبط حسن صاحب :”تہذیب کا ارتقا”ص: 11)۔ کشتی خاکی پر متعدد تہذیب و ثقافت نے دستک دے کر انسانی روح و جاں کو سرشار تو کبھی شرمسار کیا، یونانی، رومی تہذیبوں ، پیریشین اور ہندوازم تہذیبوں کی بلندی اور کئی صدیوں اور دہائیوں تک کی حکمرانی تاریخی مسلمات میں سے ہے، لیکن انکی خصوصیات سے زیادہ تنقیصات نے شہرت حاصل کی، امیر، غریب اور بڑے چھوٹے سے لیکر نسلی امتیازات، آپسی دورخا پن جگ آشکارا ہے۔
عصر حاضر میں تہذیب وتمدن کی قیادت وزمام مغربی قوموں کے پاس ہے، جن کی زندگی رومی ویونانی تہذیب کا چربہ ہے، اس تہذیب وتمدن کا اگر تجزیہ کیا جائے اور رومی ویونانی تہذیب کو مد نظر رکھاجائے ؛تو بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے؛کہ اس کا شجرہ نسب یونان وروما سے ملتا ہے، یہ کسی نئی تہذیب وتمدن کا نام نہیں ، چنانچہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رقمطراز ہیں :’’بیسوی صدی کی مغربی تہذیب (جیسا کہ بعض سطحی انظر سمجھتے ہیں )کوئی ایسی نو عمر تہذیب نہیں ہے، جس کی پیدا ئش پچھلی صدی میں ہوئی ہے، دراصل اس کی تاریخ ہزاروں سال کی پرانی ہے، ا ن کا نسبی تعلق یونانی اور رومی تہذیب سے ہے، ان دونو ں تہذیبوں نے اپنے ترکہ میں جو سیاسی نظام، اجتماعی فلسفہ، اور عقلی وعلمی سرمایہ چھوڑا تھا، ا س کے حصہ میں آیا، اس کے سارے رجحانات اور خصوصیات اس کو نسلاً بعد نسل منتقل ہوئے‘‘(انسانی دنیاپر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر:۱۰۷)، ترکی فاضل ضیاءگوگ الپ کا ماننا ہے کہ’’مغربی تہذیب درحقیقت بحرروم کی تہذیب کا امتدادcontinuationہے، اس تہذیب (جس کو ہم بحیرہ روم کے منطقہ کی تہذیب کہتے ہیں )سماری (sumerians)، سیٹھی(scythians)، فینقی(phoenicians)، رعاۃ(hyksos) ترکی النسل تھے( turkish nationalism and western civilization,gokalp.zia:p.267)، جو انسانیت سے پرے، روحانیت اور تقدس سے کوسو دور تھے، یہی وجہ ہے کہ آج مغرب یونان وروما کے جاہلی ورثہ کو سینہ سے لگائے اور انہی مسلمات کو آنکھوں کا سرمہ بنائے ہوئے ہے، اورانہی کےتمام فطری، ذہنی، اخلاقی اور سیاسی تسلط وطرز حکومت اور مزاجی خصائص کے پیکر ہیں ، ان میں محسوسات پرستی، وطن پرستی، نسل پرستی، اور عیش وتنعم میں حد سے گزرجانا، اور دوسری قوموں کے ساتھ جارحانہ سلوک کرنا، انہیں زندگی کے حق سے محروم سمجھ کر، شہنشاہیت اور مطلق العنان حکومت کی داغ بیل ڈالنا اور غیر محدود شخصی آزادی کا شوق کی روح روم سے منتقل ہوئی، جس نے پورے مغرب کو چھوٹے چھوٹے کیمپوں اور دائروں میں محدود کردیا ہے، وہ اسی دائرے کے باشندوں کو زندگی کا مستحق سمجھتے ہیں ، اور انہی کی استعماری اور امپیرلزم نے ساری دنیا کو بردہ فروشی کی منڈی اور آپسی رقابتوں میں دنیا کو لوہے کی بھٹی بنا دیا ہے، جہاں ہر وقت آگ کا کھیل ہے، اور لوہے کو تپا کر اپنے کام کے ہتھیار بنائے جاتےہیں ۔
چنانچہ ایک طرف آسمانی سرچشموں سے محرومی اور حکمت الہی کا کوئی سرمایہ نہ ہونے ہونے کی وجہ سے اور گر مسیحی تعلیمات کی بجھتی لو ؛بلکہ سینٹ پال اور قسطنطین کی منافقت اور خراش تراش کے بعد پہونچی بھی تو تمام مذہبی امور اور تعلیمات نبوی اور نور ہدایت نے شخصی وذاتی امر کا مقام پایا، مزید برآں کلیسا کی ستم رانی، ہولو کاسٹ کی حکومت، رہبانیت کی مجنونانہ کیفیت نے پوری قوم میں برہمی اور عدم توزن پیدا کردیا، دین وسیاست اور مذہب کی تفریق نے رہی سہی امید بھی کاٹ دی اور پوری نسل ایک بولعجبی، ہوس پرستی اور مادیت پرستی کی عمیق غار میں مبتلا ہوگئی، اب ان کا مذہب پیٹ ہے، ان کی کدوکاوش کا محور پیٹ ہے، ان کی زندگی کا ماحصل پیٹ ہے؛بس یوں کہئے:’’لا الہ لا الخبز‘‘اور ’’لا موجود الاالبطن‘‘، حضرت مولانا سعید الرحمن الاعظمی دامت برکاتھم مغربی مادیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’مادہ پرستی نے نہ صرف مذہب بیزاری کو عام کیا، اور پرائیویٹ زندگی کے نام پر انسانی شرافت ومروت کاخاتمہ کیا ؛بلکہ مختلف النوع جرائم کی حوصلہ افزائی کی اور انسانی خون کے ساتھ انسان کی سب سے گراں قدر متاع، عزت وآبرو کو بھی بے قیمت بنا دیا، حقیر مفاد پرستی کی راہیں ہموار کی اور قریب ترین خونی رشتوں کو خواہشات نفس کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھادیا، باپ اور اولاد کے رشتے اور تمام خاندانی قرابتوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا، حقیر ترین مادی فائدے کی راہ میں ایک دوسرے کو قتل کرنا، بے آبروکرنااور ذلت ونکبت کی آخری حد تک پہنچادینا روز مرہ کا معمول بن گیا‘‘(اسلام اور مغرب:۴۳)
مغرب کی تحقیقی، صنعتی، میکانکی اکتشافات اور تجرباتی علموں میں عروج اورذمہ داری کااحساس، وقت کی پابندی، وعدہ کا پاس ولحاظ اور ایمانداری کے ساتھ ڈیوٹی کی انجام دہی کے باوجود دینی تعلیمات سے محرومی اور اخلاقی تربیت کی کمی کی وجہ سے توازن و اعتدال کا دامن چھوٹ گیا ہے، حضرت مولانا سیدی ابولحسن علی ندوی کی زبانی:’’انسانوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلیوں کی طرح پانی میں پیرنا سیکھ لیا لیکن آدمیوں کی طرح زمین پر چلنابھول گئے، بے قید اور بے شعور عقل وعلم نے ہر رہزن اور قفل شکن کو قفل شکنی کا آلہ اور ہر بد مست کو تلوار مہیا کی، سائنس نے بیسویں صدی کے شریر اور نادان بچوں کو کھیلنے کیلئے دھاردار اور خطرناک اوزار تقسیم کئے جن سے وہ اپنے کو بھی زخم کر رہے ہیں اور اپنے بھائیوں کو بھی، بالآخر اندھے بہرے سائنس نے’’ذراتی اور ہیڈروجن بم‘‘کی شکل میں انسانوں کے ہاتھ مین خود کشی کا بھی ہتھیار دے دیا ‘‘(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر:۳۱۸)۔
واقعہ ہے کہ جب مغربی تہذیب و تمدن نے انسانی زندگی میں دستک دی، تو اسکی زندگی کا رخ اک نئے دھارے کی طرف موڑ دیا، نسلی امتیازات، ذات پات اور رنگ و نسل کے نام پر خود بینی و خود پرستی اور عصبیت کو ہوا دی، زندگی کو موت پر ترجیح اور اس میں افراط وتفریط، تصویر سازی کا انتہائی جنون، موسیقی، شراب نوشی، اور فنون لطیفہ کی قدردانی کا شوق، لطف وتمتع اور بوالہوسی، روشن خیالی کو آزادی کا سمجھ لیا گیا، عورت، بوڑھے اور بزرگوں کی تعظیم اور ان کے ساتھ سایہ عاطفت کوبارگراں بتلا کر محبت وشفقت اور گرمی محبت سے محروم کردیا، افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی تمدن کا لبادہ اوڑھے وہی جاہلی طرز عمل نے سب ہی کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، اس کی چمک ہر ایک نگاہ کو خیرہ کر رہی ہے، اس کے قدم سے قدم ملانے کو فخر و تجدد کا معیار مانا جارہا ہے، اور اس کی اتباع نہ کرنا گویا جرم عظیم اور تہمت قدامت پرستی کا الزام ہے، بزرگوں کی بے توقیری کرنا عورتوں کو سر بازار ننگا کرکے مردانہ ہوس کی تسکین کرنا ہی معاشرت و انسانیت کے ساتھ ہمدردی بن گیا ہے، مفکر اسلام نے سچ لکھا ہے:’’مغربی تہذیب کو پورئے طور پر گھن لگ چکاہے، وہ اب محض اپنی صلا حیت اور زندگی کے استحقاق کی بنا پر نہیں جی رہی ہے، بلکہ اس لئے کہ بد قسمتی سے کوئی دوسری تہذیب اس کی جگہ لینے کیلئے تیار نہیں ، اس وقت جتنی تہذیبیں اور قیادتیں ہیں ، یا مغربی تہذیب کی لکیر کی فقیر، اور اس کی روکھی پھیکی تصویر ہیں ، یا اتنی کمزور اور شکست خوردہ ہیں کہ اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتیں ‘‘(مسلم ممالک میں اسلامیت اور مگربیت کی کشمکش:۳۱۴)۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
خدارا ! مغربیت کی طرف بڑھتے قدموں کو روکئے، سنئے اور دیکھئے کیا اس تمدن کی حمایت و ھدایت اور سرپرستی کے خواہاں ہیں جو سوائے اک ہیولہ اور بوسیدہ ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں ، کیا آپ اس مغربیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی، اخلاقی انارکی اور بہیمیت و حیوانیت عروج کو پہونچ جائے اور عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی اور مکمل بے پردگی، مرد وعورت کا اختلاط اور شراب نوشی عام ہوجائے، اگر قدم نہ رکے تو اسلامی ممالک ہو ں یا غیر اسلامی اخلاقی انتشار اور دینی اساس واصول سے بغاوت ہوجائے گی، اور مغربی تہذیب کا یہ کینسر اور جذام اپنے ساتھ اسلامی تمدن وحضارت اور انسانی عزت ووقار کا خاتمہ کردے گی، اور ایک ایسا عالم برپا ہوگا جس سے کہیں کوئی مفر نہ ہوگا، کیونکہ تمدن وثقافت کی حقیقت ہی یہ ہےکہ:
’’تمدن کی جڑیں انسانی نفسیات اورقوم کے جذبات واحساسات کی گہرائیوں تک اتری ہوئی ہوتی ہیں ، اور کسی قوم کو اس کی مخصوص تہذیب وتمدن سے الگ کردینا جو اس کے دین وشریعت کے سایہ میں پروان چڑھا ہے، اور مخصوص دینی ماحول میں اس کا نشو نما ہوا ہے، اسے کارزار حیات سے الگ اور عقیدہ وعبادت اور دینی رسوم تک محدود کردینے اور اس کے حال کو اس کے ماضی سے کاٹ دینے کے مترادف ہے، اس کا قوموں اور معاشروں پر بڑا گہرا اثر پڑا ہے، اور بالآخر وہ معاشرے ان معاشروں میں ضم ہوگئے ہیں ، جن کی تہذیب انہوں نے اپنائی تھی، اور اس طرح وہ آسانی کے ساتھ رفتہ رفتہ…اپنے بنیادی عقائد اور مسلک حیات سے بھی الگ ہوگئےجس کو وہ دانتوں سے پکڑے ہوئے تھے(مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش:۲۹۵)۔
اس صورت حال کا مقابلہ کسی فوجی طاقت اور احتساب ونگرانی سے مشکل ہے، البتہ اسلام اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں مساوات اور انصاف قائم کیا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ مغرب کی کن چیزوں سےاستفادہ ممکن ہے، اور کن چیزوں کا ازالہ ضروری ہے، اس کیلئے اصلاحی، تعلیمی تحریک کا آغاز اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ پیش قدمی کی جائے، اور ایک ایسے نظام کی بنیاد ڈالی جائے جوبنیادی عقائد واصول کے ساتھ عصری ودینی ضروریات سے ہم آہنگ ہو، جو نسل نو میں ایک طرف دینی ویقینی رجحان پیدا کرے تو دوسری طرف فکری و اخلاقی اور خود اعتمادی اور خودداری بھی حاصل ہو، انہیں اپنے دین پر ثبات واستقامت اور استقلال بھی ہو اور مغربی افکار وپروپیگنڈے کا بلند ہمتی اور او اولوالعزمی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں ، جیساکہ مفکر اسلام ؒتحریر فرماتے ہیں :
’’اس انتشار اور بغاوت سے بچنے کیلئے عوام میں دینی روح، طاقت ور ایمان، اخلاقی حس اور اسلامی شعور پیدا کرنا ہوگا، اس ذہنی انتشار اور بے دلی اور بغاوت کے جراثیم کا خاتمہ کرنے کیلئے ان کے اسباب و محرکا ت کا ازالہ، حالات کی عمومی اصلاح اور سیرت وکردار میں تبدیلی کی ضرورت ہے، مغرب سے وہ لینا ہوگا جو اسلامی ممالک اور معاشرہ کیلئے مفید اور اس کے عقیدے سے ہم آہنگ ہے، اور بجائے خود کوئی عملی اور ایجابی افادیت رکھتا ہے اور قوم وملک کو مضبوط کرسکتا ہے، اور زندگی کی جد وجہد سرفروشی اور دعوت الی اللہ کے مقصد میں مفید ہوسکتا ہے‘‘(مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش:۵۲)۔
اس سلسلہ میں محمد اسد صاحب کی کتاب (Road to mecca.p:347.349) کا ایک اقتباس قابل ذکر ہے، جس میں انہوں نےمغرب سے استفادہ وافادہ کے متعلق چشم کشا عبارت لکھی ہے:
’’میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان مغرب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتےبالخصوص صنعتی علوم وفنون کے میدانوں میں ، اس لئے کہ علمی افکار واسالیب کا اختیار کرنادرحقیقت تقلید نہیں ، خصوصاً اس امت کیلئے جس کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اسکو ہر ممکن ذریعہ سے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہو، علم نہ مغربی ہے، نہ مشرقی، علمی انکشافات وتحقیقات ایک ایسے سلسلہ کی کڑی ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ، اور جس میں تمام بنی نوع انسان برابر کے شامل ہیں ……………..اسی طرح اگر مسلمان (جیساکہ ان کے اوپر واجب ہے) صنعتی علوم وفنون کے نئے ذرائع اپناتے ہیں تو وہ صرف ارتقاء وترقی کی فطری خواہش اور جذبہ سے کرتے ہیں ، دوسروں کے تجربات اور معلومات سے فائدہ اٹھانے کی فطری خواہش اور جذبہ، لیکن اگر وہ(اور ان کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے) مغربی زندگی کی اشکال (Forms)آداب وعادات (Manners)اور مغرب کے اجتماعی تصورات کو اپناتے ہیں تو اس سے ان کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہ ہوگا، اس سلئے کہ یوروپ ان کو اس میدان میں جو دے سکے گا وہ اس سے بہتر نہیں ہوگا جو خود ان کی ثقافت اور ان کے دین نے ان کو عطا کیا ہے، اگر مسلمان ذرا ہمت کریں اور حوصلہ سے کام لین اور ترقی کو ایک ذریعہ اور وسیلہ کی حیثیت سے اپنائیں تو اس طرح نہ صرف اپنی باطنی حریت کی حفاظت کرسکیں گے بلکہ شاید یوروپ کے انسان کو زندگی کے گم شدہ لطف کا راز بھی بتا سکیں گے‘‘(طوفان سے ساحل تک:۱۸۷۔ ۱۸۹)۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں‘ یہ مغربی تہذیب کے غلبہ کا دور ہے۔یہ تہذیب اپنے طاقتور آلات کے ذریعہ ملکی سرحدوں کی حدود‘ درس گاہوں اور گھروں کی دیواروں کو عبور کر کے‘ افراد کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ عورت ومرد اس تہذیب کے مظاہر پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب کی پیدا کردہ ایجادات نے اگرچہ انسان کو بہت ساری سہولتیں بھی پہنچائی ہیں‘ آمد ورفت اور رابطہ میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں‘ گرمی وسردی سے بچاؤ کےلیے انتظامات ہو گئے ہیں‘ خوب صورتی اور زیب وزینت کے نت نئے سامان ایجاد ہوئے ہیں‘ انسانی جسم کو لاحق بعض اہم بیماریوں کے علاج میں سہولتیں پیدا ہو گئی اور ظاہری روشنی اور چمک دمک میں اضافہ ہو ا ہے لیکن اس کے کئی ایک نقصانات بھی ہوئےہیں، جیسا کہ رشتوں کی اہمیت گنوا دی گئی ہے لوگ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور مال داروں کو احساس برتری اور غریبوں کو احساس کمتری کے امراض میں مبتلا کر دیا گیا ہے غرض اس مادی تہذیب نے رونق اور زیب وزینت کے نت نئے سامان کی قیمت پر انسان کے دل اور روح کو آخری حد تک بے چین کر دیا ہے۔ دل، روح کی بڑھتی ہوئی اس بے چینی نے ہی انسان سے انسانیت اور محبت ورواداری‘ ہمدردی اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنے کی حسوں کو مسدود کر دیا ہے۔۔