نماز کا مقصد اور فوائد

عبدالعزیز

نماز ہر مسلمان مرد اور عورت پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ اس کی ادائیگی کے بغیر کسی کا مسلمان رہنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ اس لئے فرد کسی بھی حالت میں ہو اس کی نماز کی ادائیگی کے  بغیر چھٹکارہ نہیں ہے۔ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے یا اس سے غافل ہیں وہ اللہ کی کھلی نافرمانی کر رہے ہیں ۔ نماز اللہ کا سب سے بڑا حکم ہے۔ اگر کوئی اس بڑے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے تو آخر وہ دیگر احکامات کی پابندی کیسے کرسکتا ہے؟ نماز مومن کی پہچان اور شناخت ہے، اس کے بغیر مومن کی پہچان اور شناخت مٹ جاتی ہے۔ نماز کا مقصد کیا ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

  فریضۂ نماز کا اصل اور بنیادی مقصد تو اللہ کا ذکر ہے۔ وہ انسان کو اللہ کا شکر گزار اور فرماں بردار بندہ بناتی اور اس میں وہ خدا ترسی پیدا کرکے اسے فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ لیکن اس کے ساتھ نماز کے قیام دے متعدد اہم اور دور رس فوائد آپ سے حاصل ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً:

  مرکزیت، مسجد میں اجتماع سے۔  انتخاب امیر کی تربیت، امام کے چناؤ سے۔  قیادت، امامت کے فرائض ادا کرنے سے۔ سمع و طاعت، امام کی اقتداء سے۔  امداد باہمی (تنظیم جماعت) مسجد کی تعمیر اور اس کے انتقامات سے۔ فرض شناسی، وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے سے۔ مساوات، باجماعت نماز کی صف بندی سے۔  ضبط نفس، ہر حالت میں نماز ادا کرنے سے اور ضوابط نماز کی پابندی کرنے سے۔  اخلاس، محض خدا کی خوشنودی کیلئے نماز کی پابندی کرنے سے۔  تعمیر سیرت، اسلام کے ایمانیات کی بار بار یاد دہانی سے۔

  یہ ہمہ گیر اصلاحی پروگرام فریضہ نماز کی اہمیت کو پوری طرح واضح کرتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہر حال میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اسی اہمیت کے پیش نظر مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی ملک میں ان کو اقتدارحاصل ہو تو ملک میں جو پہلا اصلاحی پروگرام جاری کریں گے اس میں اقامت نماز کو اولیت حاصل ہوگی: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْ الصَّلٰوۃَ ۔ (پ17، ع13)۔

  پیشتر اس کے کہ نماز کے متذکرہ بالا دینی مقاصد کو ترتیب وار بیان کرکے واضح کیا جائے کہ ان کے ذریعہ نماز کس طرح معاشرہ کی اصلاح و تربیت کرتی ہے، اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہئے کہ اگر کسی کام کے کرنے سے اس کا بنیادی مقصد حاصل نہ ہوتا ہو تو ذیلی مقاصد کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

 مثال کے طور پر نہر ہی کو لیجئے … اگر نہر کی تعمیر سے اس کا بنیادی مقصد پورا نہیں ہوتا، زمین ناکارہ ہے، فصل نہیں اٹھاتی یاز مین کی سطح نہر کی سطح سے اونچی ہے اور پانی نہیں پہنچتا یا کسی وجہ سے دریا ہی سے نہر کیلئے پانی نہیں ملتا تو ظاہر ہے کہ بنیادی مقصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے نہر بند ہوجائے گی اور ذیلی مقاصد بھی ختم ہوجائیں گے۔ نہر کی ظاہری شکل تو کچھ عرصہ موجود رہے گی اور دور سے نہر ہی نظر آئے گی، لیکن پانی جو نہر کی روح کا درجہ رکھتا ہے اس کے نہ ہونے سے بنیادی اور ذیلی مقاصد حاصل کرنا تو درکنار اس کی تعمیر پر جو رقم خرچ ہوئی اور جو محنت کی گئی وہ سب ضائع ہوجائے گی اور جس زمین پر اس کی کھدائی ہوئی ہوگی وہ بھی ناکارہ ہوکر رہ جائے گی۔

 اسی طرح اگر فریضۂ نماز ادا کرنے سے اگر خدا کی محبت، اس کے آگے جھکاؤ اور خدا ترسی کی صفات پیدا نہیں ہوتیں اور انسان اللہ کی نافرمانی اور فحشاء و منکر سے بچنے کی توفیق نہیں پاتا۔ اس کی وجہ خواہ نمازی کی تنگ دلی ہو یا وہ کسی مادی مفاد کا طالب ہو یا اس کی زندگی میں تضاد ہو۔ بہر حال ایسی نمازیں تقویٰ کی روح سے خالی ہوتی ہیں ۔ اس لئے ایسی نمازوں سے نماز کے ذیلی فوائد کے حصول کا سوال پیدانہیں ہوتا؛ بلکہ ایسی نمازیں تو خدا کے قرب کے بجائے اس سے اور زیادہ دوری کا باعث بن جاتی ہیں ۔

  چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جس نے نماز پڑھی مگر اس نماز نے فحشاء و منکر سے اس کو باز نہ رکھا تو جنابِ الٰہی سے قرب و تعلق کی جگہ اس کا فاصلہ اوربڑھ گیا۔

  مرکزیت: انسان اس قدر کمزور اور عاجز ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اجتماعی زندگی کا دوسرا نام معاشرہ ہے۔ اس اجتماعی زندگی میں ہرانسان کے ذمے کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں اور اس کے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں ۔ اگر ہر فرد ادائے فرضی کا اہتمام و التزام کرے تو اجتماعی زندگی بڑی خوشگوار ہوسکتی ہے۔ اب دیکھئے کہ بنیادی مقصد کے ساتھ ساتھ نماز کس طرح فرائض کی بجا آوری اورحقوق کی نگہداشت میں معاشرہ کی اصلاح و تربیت کرتی ہے۔

  ہر جماعت یا سوسائٹی کو اپنے افراد کی اصلاح کرنے کیلئے ایک مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بستی یا محلہ کے مسلمانوں کیلئے مسجد ایک مرکزی مقام ہوتی ہے۔ جہاں دن میں پانچ وقت بستی یا محلہ کے مسلمان نماز با جماعت ادا کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں ۔ اس جمع ہونے میں بے شمار فائدے ہیں ۔ اس اجتماع میں شامل ہونے والے افراد ایک ہی نظریہ کے حامل ہوتے ہیں ، وہ سب ایک ہی خدا کے بندے، ایک رسولؐ کے پیرو اور ایک ہی کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں ۔ اور پھر وہ ایک ہی مقصد کیلئے جمع ہوتے ہیں ۔ ہم خیال اور ہم مقصد ہونے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر ان میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ سب ایک ہی قوم کے افراد ہیں ، ایک ہی فوج کے سپاہی ہیں اور ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں ، اور اس طرح آپس میں ایک دوسرے کے بھائی اور رفیق ہیں ۔ اور محلہ، بستی یا دنیا میں ان کے اغراض، ان کے مقاصد، ان کے تعلقات اور ان کے فوائد سب مشترک ہیں اور ان کی زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں ۔

  پھر مسجد کے روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر کوئی بھائی پریشان ہے، کوئی پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے یا فاقہ کا شکار ہے، کوئی معذور، لنگڑا، لولا یا اندھا ہے یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہے تو کھاتے پیتے اور خوش حال مسلمانوں کے دل میں خود بخود ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا اور پھر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایسے افراد کی تکلیفیں رفع کرنے یا انھیں سہارا دینے کا خیال پیدا ہوگا۔ اگر کسی کے متعلق معلوم ہوگا کہ بیماری یا کسی دوسری مصیبت کی وجہ سے مسجد میں حاضر نہیں ہورہا ہے تو اس کی بیمار پُرسی یا امداد کرنے کا خیال پیدا ہوگا۔ اگر اس اجتماع میں کسی کے وفات پانے کی خبر ملے گی تو اس اجتماع کے مسلمان اس کے جنازہ میں شریک ہوکر اس کیلئے مغفرت کی دعا کریں گے اور اس کے لواحقین کو تسلی دیں گے۔ یہ سب باتیں آپس میں محبت بڑھانے والی، ایک دوسرے کے قریب کرنے والی اور ایک دوسرے کا مددگار بنانے والی ہیں ۔

 مسجد کے اس پنج وقت اجتماع میں خدا پرست اور بھلے لوگوں کو بار بار دیکھنے اور ملاقات کرنے سے خود بخود طبیعتوں میں نیکی کا میلان پیدا ہوتا ہے اور گناہوں پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر کسی نمازی نے کوئی گناہ پہلے کسی دوسرے بھائی کے سامنے کیا ہے اور بھائی اس اجتماع میں موجود ہے تو محض اس کی نگاہوں کا سامنا ہوجانا ہی اس کی اصلاح کیلئے کافی ہے۔ گناہ گار اپنے دل ہی میں شرمندہ ہوگا اور اس طرح آئندہ گناہوں سے بچ جائے گا۔ اوراجتماع کے مسلمانوں میں ایک دوسرے کو نصیحت کرنے کا جذبہ موجود ہو اور وہ جانتے ہوں کہ ہمدردی، خیر خواہی، محبت اور حکمت کے ساتھ ایک دوسرے کی اصلاح کس طرح کرنی چاہئے تو پھر یہ اجتماع نہایت ہی رحمت و برکت کا موجب ہوسکتا ہے۔

  نیز جمعہ کے خطبات سے بھی یہی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور یہ اجتماع بستی یا محلہ کے لوگوں کیلئے ایک خاموش عملی تربیت کی درس گاہ کا کام دیتا ہے۔

   قـیادت: انسان اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور اجتماعی زندگی میں ایسی ضروریات لازمی طور پر پیش آتی ہیں جن کا انتظام مشترکہ طور پر کرنے کیلئے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے اور تنظیم کے مقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے ایک قائد، امیر یا سربراہ کا ہونا لازمی ہے۔ اب دیکھئے کہ نماز کس طرح مسجد میں مسلمانوں کو اپنے امیر(امام) کے انتخاب کی تربیت دیتی ہے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز منفرد کے مقابلے میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر با جماعت نماز ادا کیا کریں اور جو مسلمان بلا عذر شرعی جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے، ان پر بہت غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ چند ارشادات درج ذیل ہیں :

 ٭ جو شخص عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے گا، اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملے گا۔

  ٭ نماز با جماعت کا ثواب منفرد نماز سے ستائیس درجے زیادہ ہے۔

  ٭ ایک مرتبہ حضورؐ نے فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی اور شخص میری جگہ امامت کرے، میں شہر (آبادی) میں نکل جاؤں اور جو مسلمان جماعت میں شامل نہیں ان کے مکانوں کو آگ لگا دوں ۔

٭ حضرت عبدؓاللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی تھے اور کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والانہیں تھا، وہ بھی نماز با جماعت میں حاضر ہونے سے معذور نہ سمجھے جاتے تھے۔ انھیں یہی فرمایا گیا کہ اگر اذان سنائی دیتی ہے تو مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کیا کریں ۔

 ٭ با جماعت نماز کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل یہ تھا کہ انتقال سے چند روز پہلے حالتِ مرض میں جب آپؐ کو خود چلنے کی قوت نہ تھی تو دو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لائے اور جماعت سے نماز ادا کی۔

  با جماعت نماز کی فضیلت: اس کی تاکید اور نمازِ منفرد کی وعید سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ با جماعت نماز پڑھنا اسی طرح ضروری قرار دیا گیا ہے جس طرح کہ خود نماز فرض ہے۔ اِلّا یہ کہ کسی نمازی کو کوئی شرعی عذر ہو یا وہ ایسی جگہ ہو جہاں قیامِ جماعت ممکن نہ ہو۔

  باجماعت نماز ادا کرنے کیلئے ایک امام کی ضرورت ہوتی ہے اور امام کے فرائض کے پیش نظر اس کے انتخاب سے متعلق مسلم کی ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

  قوم کا امام وہ شخص ہو جو (1) قرآن کا سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو یعنی سمجھ کر اس کی تلاوت زیادہ کرتا ہو۔

   (2 اگر قرآن کے پڑھنے سے میں سب برابر ہوں تو وہ شخص امام بنے جو سنت سے زیادہ واقف ہو۔

(3 اگر قرآن و سنت میں سب برابر ہوں تو وہ شخص امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو۔

  (4 اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ امام بنے جو عمر میں سب سے بڑا ہو۔

   اب دیکھئے امام جماعت کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ نمازیوں کو اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کی سورۃ یا سورۃ کا کچھ حصہ پڑھ کر سنائے۔ اس لئے امام کی جن قابلیتوں کا ہونا ضروری ہے ، ان میں سب سے مقدم اسی قابلیت کو لازم قرار دیا گیا ہے؛ یعنی قرآن کی قرأت کرنے میں سب سے افضل ہو اور قرأت میں صحیح تلفظ اور حفظ آیات کے ساتھ فہم قرآن بھی شامل ہے، اس کے بعد دوسری صفات کا لحاظ رکھا گیا ہے، اس سے معاشرہ کو یہ رہنمائی ملتی کہ جس مقصد کیلئے کوئی تنظیم قائم کی جائے۔ اس تنظیم کا امیر یا سربراہ وہ ہونا چاہئے جو اس مقصد کو بروئے کار لانے کیلئے زیادہ سے زیادہ قابلیت رکھتا ہو۔ مسلمانوں کا امیر وہ ہو جو دینی علم، قرآن و سنت کا زیادہ سے زیادہ علم رکھتا ہو، وہ دین کی خاطر قربانیاں بھی کرسکتا ہو، ان صفات کے ساتھ عمر کا لحاظ بھی ہو، اس وجہ سے کہ زیادہ عمر والا متقی مسلمان حسن عمل میں بڑھا ہوا ہوتا ہے۔

   اب اگر کسی ملک کے مسلمان قوت اور طاقت رکھنے کے باوجود مساجد کے اندر اور مساجد کے باہر امارت کے عہدوں کا چناؤمتذکرہ بالا ارشادات کے مطابق نہ کریں گے تو مسجد کے اندر ایک نا اہل امام سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، مسجد کے باہر نا اہل امامت سے اس سے بھی برے نتائج نکلیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔