شایاں ہے مجھے غمِ جدائی

مولانا ذکی الرحمن غازی مدنی

موت، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں، بیداری کا اِک پیغام ہے

  سولہ نومبر ۲۰۱۷ء مطابق چھبیس صفر المظفر ۱۴۳۹ھ۔ جمعرات کا دن۔ آج ہمارے استادِ محترم ومکرم مولانا محمد طاہر ندوی صاحب (مہتممِ تعلیم وتربیت، جامعۃ الامام ولی اللہ الاسلامیۃ، پھلت مظفر نگر) کی شریکِ حیات مرحومہ ’’تحسین صبا‘‘ صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔

  فیس بک پر ایک روز پہلے ہی جامعہ کے دیرینہ رفیق حافظ ادریس قریشی صاحب کے وال پر خبر پڑھنے کو ملی تھی کہ ماہنامہ ارمغان کے ایڈیٹر استادِ محترم مولانا وصی سلیمان ندوی صاحب کی خوش دامن صاحبہ دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔ عادت کے مطابق آج بھی عشاء کے بعد موبائل پر نیٹ کھولا تو پھر ان کی وال پر ملتی جلتی ایک نیوز دکھائی پڑی۔ اندر سے آواز آئی کہ وہی پرانی خبر ہے، دوبارہ کسی کے کمینٹ یا لائک کی وجہ سے وال پر آگئی ہے۔ مگر نظریں ایک لفظ پر اٹک چکی تھیں۔ خبر میں مہتمم کا لفظ بھی تھا۔ پوری خبر پڑھنے کے لیے اسکرین پر دبائو ڈالا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا، اندیشے سر نکال رہے تھے۔ نیٹ ورک نے اپنا ٹائم لیا اور پوری خبر کھل کر سامنے آگئی۔ ہم فرزندانِ جامعہ کی پیاری امی جان طویل علالت کے بعد، زہرہ گداز بیماریوں پر صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس جہانِ فانی سے چند منٹ قبل رخصت ہوگئی تھیں۔

جاگنا تھا ہمیں بہ کارِ حیات

سو لیے موت کے بہانے سے

          خبر پڑھی۔ پانی کی عینک آنکھوں پر لگ گئی۔ ایک مہیب سناٹے نے سر سے پائوں تک غڑا پ سے نگل لیا۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ کسی شیش محل میں ایک جانور غلطی سے بند ہوگیا ہے۔ لرزے کے بخار کی طرح تن بدن پر کپکپی طاری تھی اور دانت بے اختیار کٹ کٹ بج رہے تھے۔ مرگی کے مریض کی مانندتشنج میں گرفتار ہوکر آناً فاناً لڑھکتا ہوا میں ایک ایسی ٹائم ٹنل (Time Tunnel)میں جاگرا تھا جہاں برسوں پرانی خوابیدہ یادیں انگڑائیاں لے لے کر بیدار ہورہی تھیں۔ یادوں کا ہجوم تھا جو پُرسہ دینے نکل پڑا تھا۔

آئی کسی کی یاد تو محسوس یہ ہوا

جیسے کسی نے پائوں کلیجے پہ رکھ دیا

وہ عظمتِ نسواں کا نشان تھیں۔ میں انہیں شروعات سے ماں سمجھتا تھا اور یہی سب سے کہتا اور لکھتا تھا۔ بے شک وہ میری حقیقی ماں نہ تھیں۔ مگر ہمیشہ میرے دل نے تمنا کی ہے کہ کاش ایسا ہی ہوتا۔ ماں کیا ہوتی ہے، میں نہیں جانتا۔ میری والدہ بہت بچپن میں مجھ سے دور جا چکی ہیں۔ تعقل اور شعور نے آنکھیں کھولیں تو چچازاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد بہنوں بھائیوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ دیر تک ٹکٹکی باندھے مائوں کے ساتھ ان کی شرارتیں دیکھتا تھا۔ انہیں وہ نعمت حاصل تھی جو مجھے میسر نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ سنِ بلوغ تک پہنچنے سے پہلے اگرباپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو شریعت کی نگاہ میں بچے یتیم تصور کیے جاتے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زوال پذیر، مادہ پرست اور اخلاق باختہ سماج میں بِن ماں کے بچوں کا حال اصطلاحی یتیموں سے کچھ زیادہ ہی برا ہوتا ہے۔ اللہ نہ کرے کسی کو اس کا تجربہ کرنا پڑے۔

تُو تو ہر چہرے کو آئینہ بنا دیتی ہے

اے یتیمی! ترا رکھیں بھی تو پردہ کیسے

 احساسِ محرومی کی دبیز چادر لپیٹے زندگی کا مسافر آگے بڑھتا رہا۔ خوش قسمتی سے میرا داخلہ جامعۃ الامام ولی اللہ الاسلامیۃ میں ثانویہ رابعہ کی جماعت میں ہوگیا۔ اب مجھے وہاں چار سال رہنا تھا، پھر دو سال ندوہ العلماء میں تعلیم مکمل کرکے عالمیت کی سند لینی تھی اور عملی زندگی سے نبردآزما ہونا تھا۔ جس وقت میں پہلی بار پھلت مدرسے کے قدیم کیمپس کی چہاردیواری میں داخل ہواتھا، تو میرے فرشتوں کو بھی احساس نہ تھا کہ آنے والے یہ چار سال میری زندگی کا سب سے بڑا ٹرننگ پائنٹ ثابت ہونگے اور جتنی خوشیاں، مسرتیں، قہقہے، شرارتیں اور شیطانیاں نصیب میں مقدر ہیں، وہ سب مجھے یہاں بٹوری ہوئی ایک جگہ مل جائیں گی۔ اس کے بعد باقی تمام عمر صرف اِن حسین یادوں کے سہارے تنہائی میں ہنستے اور محفل میں دوسروں سے نگاہیں بچا کر مسکراتے گزارنی پڑے گی۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ماضی کا غبار زندگی کی شاہراہ سے ہٹ گیا ہے اور تصور کی کرنیں لڑکپن کے اُس افق پر پڑ رہی ہیں جہاں ہم رہ رہ کر تلملاتے تھے کہ یہ زمانہ جلد کیوں نہیں ختم ہوجاتا، اور ہم جھٹ پٹ بڑے کیوں نہیں ہوجاتے۔ مدرسے کی قید وبند سے آزادی کتنی دلفریب ہوگی۔ لیکن اب کیا حال ہے؟ ہم بدل گئے، زمانہ بدل گیا، دنیا بدل گئی۔ رنج وراحت، عزت وذلت کا تصور بدل گیا۔ زندگی کی جدوجہد وہی ہے، لیکن جدوجہد کا لطف باقی نہیں رہا۔ تصورات میں نہ رنگینی باقی رہی نہ حرارت۔ عزائم میں نہ استواری ہے اور نہ برکت۔ مانا کہ موجودہ عہد کے مسائل اور مطالبات کچھ اور ہی ہیں۔ فرائض اور ذمے داریاں بھی بدلی ہوئی ہیں، لیکن کوئی یہ بتائے یہ کیسے فرائض ہیں جن سے دماغ میں روشنی، دلوں میں ولولے، ہاتھوں میں قوت نہیں پیدا ہوتی اور زندگی سے حرارت مفقود ہوتی جاتی ہے۔

اب کے خفا ہوئے تو منانے نہ آئیں گے

یہ پیڑ ہیں پھلوں کو اٹھانے نہ آئیں گے

آنکھوں میں کچھ سمیٹ کے رکھ لو رُتیں امام

پھر اِس کے بعد دن یہ سہانے نہ آئیں گے

 ظاہر ہے پرانے خیال کا ہوں۔ راگنی بے وقت کی ہے۔ زمانہ ترقی کر چکا ہے۔ زندگی اور زندگی کے تاروپود نئے اسلوب سے مرتب ہورہے ہیں۔ نظامِ کہن کے ملبے پر نیا سماجی ڈھانچہ تعمیر ہورہا ہے۔ ہر چیز کی قدر وقیمت گھٹ بڑھ رہی ہے۔ جس چیز کو ہمارے زمانے میں متاعِ کنعاں سمجھتے تھے وہ متاعِ کاسد سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی، اور جسے اب دیکھ کر ہم خجل اور سراسیمہ ہوجاتے ہیں وہی کسی وقت حاصلِ حیات تھی۔ زمانہ اور زندگی کی رفتار ہی نہیں، اس کا رخ بھی بدل گیا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ زندگی کی برہنگی کو برگزیدگی کا انکشاف کیوں کر مان لیا جائے۔ سائنس کے کرشموں کو انسانیت کی معراج کیسے قرار دیا جائے۔ آرٹ اور آزادی کی قربان گاہ پر کن سعادتوں کی بھینٹ چڑھائی جارہی ہے۔ افراد کی شادی اور غمی کیا ہوگی؛اس کی پرواہ کیوں نہیں کی جاتی۔ جماعت کے ریگ زار سے افراد کی امید اور امنگ کے نخلستان کیوں فنا کیے جارہے ہیں۔ زمانے کے بدلنے سے زندگی کی سیّآت حسنات میں کیوں کر تبدیل ہو سکتی ہیں ؟

یادِ ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

 جامعۃ الامام کے مہتممِ تعلیم وتربیت مولانا طاہر ندوی صاحب -دامت برکاتہم-ندوۃ العلماء میں میرے والدِ محترم مولانا جلیل الرحمن ندوی صاحب -مد ظلہم العالی-کے ہم سبق رہے تھے۔ پاسِ تعلق کی بنا پر مہتمم صاحب نے میرے اوپر خصوصی شفقت فرمائی اور مجھے کبھی وہاں بے گانگی، اجنبیت، محرومی اور Non Belonging کا احساس نہ ہونے دیا۔ میں کم عمر تھا، اس لیے درونِ خانہ چلا جاتا تھا۔ وہاں میں نے پہلی بار اُس عظیم خاتون کو دیکھا جس نے آئندہ کے لیے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔ میں نے ان کے منھ سے کبھی کوئی علمی بات نہیں سنی، مگر اخلاص وشفقت کے جذبے سے ہمیشہ سرشار پایا۔ انہوں نے اپنی شفقتوں اور محبتوں سے اتنا نہال کیاکہ مجھ ایسا حرماں نصیب بھی اپنے تئیں کچھ کر دکھانے کے زعم میں مبتلا ہوگیا۔ اس خود اعتمادی نے مستقبل میں میرے لیے فتوحات کے بڑے دروازے کھولے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بڑی حد تک امی جان کی پیہم ہمت افزائیوں کا فیضان ہے۔ عمر کے اُس نازک مرحلے میں جب کہ خودی کے آبگینے کی ٹوٹ پھوٹ کا امکان بہت ہوتا ہے، انہوں نے بے پناہ خود اعتمادی پیدا کی تھی۔

بس کے دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو ہی میسر نہیں انساں ہونا

  شروع میں مہتمم صاحب کے گھر جانے سے جھجھک آڑے آتی تھی، مگر امّی جان کا لاڈ دُلار میرے تکلف پر غالب آگیا اور میں ایک فردِ خانہ کی طرح ہوگیا۔ وہ کبھی بھی کچھ اچھا کھانا بناتیں تو مجھے خاص طور پر بہ اصرار بلاتیں اور کھلاتیں۔ طبیعت سیمابی تھی، اس لیے آئے دن کچھ نہ کچھ بناتیں اور میری ضیافت کا سامان ہوجاتا۔ میرے تئیں اماں جان کا یہ مشفقانہ رویہ دیکھ کر مہتمم صاحب کے بچے؛رافع، اسامہ، ماریہ اور یحییٰ بھی مجھے اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ اب وہ میرا اپنا گھر تھا۔ پریشان ہوتا تو امی کے ہاں جاتا، جی گھبراتا تو وہاں جاتا، خوش ہوتا تو وہاں ضرور جاتا اور جب کہیں نہ جانا ہوتا تو وہاں چلا جاتا۔ دیر تک بیٹھتا۔ جو کچھ موجود ہوتا اس سے ضرور تواضع کرتیں اور ایسا کبھی نہ ہوا کہ کوئی چیز موجود نہ ہو۔ میں امی سے کافی بے باک ہوگیا تھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی پوچھتیں کہاں تھے، کیسے ہو۔ پھر مسکرا کر اورمادرانہ لہجے میں شفقت کے انداز سے لطف ومراحمت کا کوئی جملہ کہتیں۔ کوئی ایسی بات ضرور کہتیں جس سے مجھے اپنی فرزانگی، شرافت اور قدر وقیمت کا احساس ہوتا۔ زمانہ وزندگی کی عارضی یا مسلسل مکروہات یا سیرت کے بعض داغ دھبّے دُھل جاتے یا مدھم پڑ جاتے، اور محسوس ہونے لگتا کہ شرافت، اولی العزمی، اخلاق اور ایثار دنیا کی بڑی چیزیں اور زندگی کا بڑا انعام ہیں۔ پریشان ومایوس ہوکر گیا تو ان کے یہاں سے بشاش اٹھا۔ رنج یا غصہ ہوا تو ان کی باتوں سے غم غلط ہوگیا۔ وہ میرا بڑا سہارا تھیں۔

محروم انسان اگر حسّاس بھی ہو تو وہ نیم چڑھا کریلا بن جاتا ہے، جسے چہار سو تیرگی وتیرہ بختی ہی دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان باتوں میں بھی اپنی تحقیر وتذلیل کا پہلو تلاش لیتا ہے جن سے عام لوگ یا تو غافل ہوتے ہیں، یا جان بوجھ کر غافل بن جاتے ہیں۔ بچپن سے مجھے لوگوں کی نظروں کی لکیریں اور ان کی زبانِ حال کی تحریریں پڑھنے اور پہچاننے کی صلاحیت تھی جو مرورِ وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ مگر میں اِس بات کی شہادت دے سکتا ہوں کہ میں نے امی جان کے گھر میں کبھی کوئی ایسی حرکت کسی فرد کی طرف سے صادر ہوتے نہ دیکھی جس سے میرے پندارِ خودی کو کچھ ٹھیس لگتی، یا ہلکا سا بھی مجھے یہ احساس ہوجاتا کہ میں وہاں ایک اجنبی ہوں۔

ہم سے تو حرمتِ افلاس بھی بیچی نہ گئی

لوگ کر لیتے ہیں ایمان کا سودا کیسے؟

مہتمم صاحب کو شاید وہ بتا دیتی ہوں، اور نہ بتاتی ہوں تو آج میں اُن کا یہ راز افشاں کر دیتا ہوں کہ وہ مجھے ہمیشہ جیب خرچ کے لیے روپے دیتی تھیں، اور مجال ہے کہ کبھی واپسی کا مطالبہ تو کیا، اشارہ بھی کیا ہو۔ ایک آدھ بار، اور وہ بھی شروعات میں، میں نے لیے ہوئے پیسے لوٹانے کی کوشش کی تو خلافِ معمول ڈانٹ دیا۔ اُس ڈانٹ میں بھی بے پناہ اپنائیت تھی۔ مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ پیار بھری ڈانٹ پھٹکار کیا ہوتی ہے۔ اس کے بعد سے میں اپنا احساسِ ندامت مٹانے کے لیے یہ کرنے لگا کہ میرے والد مہینے دو مہینے میں آکر جتنا جیب خرچ یک مشت مجھے دے جاتے تھے، وہ سب اٹھا کرمیں امی جان کے حوالے کر دیتا تھا اور پھر بالاقساط ان سے لیتا رہتا تھا۔ مگر پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری یہ قسط وار وصولی، میری دی ہوئی رقم سے درجنوں گنا زیادہ ہوتی تھی۔ شرما حضوری میں اگر مجھے پیسے مانگے زیادہ دن ہوجاتے تو خود بلا کر پوچھتیں اور زبردستی جیب میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتیں۔ آج بھی جب ان کے برتائو پر غور کرتا ہوں تو احسانات کا بوجھ گردن توڑ دیتا ہے۔ پسِ مرگ معلوم ہوا کہ ان کا یہ برتائو صرف میرے ساتھ خاص نہ تھا۔ مختلف ادوار میں انہوں نے چھوٹے طلبہ کی اسی طرح سرپرستی فرمائی ہے۔ وہ معلوم نہیں کن کن مواقع پر کیسے کیسے لوگوں کی مدد کرتی تھیں۔ اس ایک پہیّے کی گردش سے کتنی چھوٹی چھوٹی اور مختلف متفرق مشینیں گردش کر رہی تھیں۔ وہ محتاجوں ہی کی مددگار نہ تھیں، بلکہ اُن طلبہ کی آن بان اور وضع داری کی بھی کفیل تھیں جن کو آسیائے گردشِ ایام برابر پیستی جاتی ہے۔

میرا شہر مجھ پر گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں

وہ چراغ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

 اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ اور بن ماں کے بچے کو کیا چاہیے، ماں کی ممتا اور پیار۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ مجھے اپنے گھر، خاندان اور وطن سے زیادہ گائوں پھلت اچھا لگنے لگاجس کی ساری جاذبیت اور کشش میرے لیے مہتمم صاحب اور امی جان کے وجود میں سمٹی ہوئی تھی۔ چار سال میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں چھٹیوں میں بھی اپنے وطن نہ لوٹا، یا دیر سے لوٹا اور پھلت ہی میں رکا رہا اور مہتمم صاحب کی نگرانی اور امی جان کے سایۂ شفقت میں ایسے رہا جیسے یہی میرا اصلی ٹھور ٹھکانہ ہو۔ استادِ محترم اور امی جان سے یہ عقیدت ومحبت ہی تھی کہ میں ندوہ جانے کے بعد بھی لمبی چھٹیوں میں پہلے پھلت آتا، ہفتہ دس دن وہاں رکتا، پھر اس کے بعد اپنے شہر کا رخ کرتا۔ وہ مجھے کتنا عزیز رکھتی تھیں، اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجئے۔ میری طالب علمی کے زمانے میں پھلت میں بجلی کا معقول انتظام نہیں تھا۔ ایک ہفتے رات اور ایک ہفتے دن کے حساب سے بجلی سپلائی کا سسٹم تھا۔ مگر چونکہ یہ گائوں کھتولی شہر سے چھے سات کلومیٹر دور واقع ہے اور درمیان میں کوئی آبادی بھی نہیں ہے، اس لیے ہر بار یہ ہوتا تھا کہ چوراُچکّے بجلی کے تار کھمبوں سے کاٹ لے جاتے تھے۔ اس لیے پھلت میں بجلی کی آمد حیرت آمیز مسرت کا موقعہ ہوتا تھا جس سے لطف اندوزی کا سلسلہ صرف ہفتے دو ہفتے چل پاتا۔ پھر وہی کہانی دہرادی جاتی تھی کہ تار کٹ گئے ہیں، اور ماہ دو ماہ بعد دوبارہ لگائے جائیں گے۔

  مدرسے میں بچوں کی پڑھائی کے پیشِ نظر مغرب بعد پیٹرومیکس گیس جلادی جاتی تھی جسے ہم ہنڈا کہتے تھے۔ طلبہ اس کے چاروں طرف بیٹھ کر پڑھتے یا مذاکرہ کرتے تھے۔ کسی نہ کسی نگراں کی ڈیوٹی بھی رہتی تھی۔ نگراں کے ہٹتے ہی شوخ طلبہ شور ہنگامہ شروع کر دیتے تھے۔ ایسے ہی کسی موقعے پر ایک نگراں صاحب اچانک واپس نمودار ہوئے۔ وہ بڑے غضبناک ہوکر تشریف لائے تھے۔ آتے ہی انہوں نے بغیر تحقیق وتفتیش کے ہاتھ پڑے بچوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ میں بھی مار کھانے والوں میں تھا۔ بھاری من اور بسورے منھ کے ساتھ میں سیدھا امی جان کے پاس گیا۔ میری انا کو ٹھیس لگی تھی۔ میں ہوشیار طالب علم تھا، اور پڑھائی پر کبھی مار نہیں کھائی تھی۔ مہتمم صاحب گھر کے صحن میں مچھر دانی میں نیم دراز آرام فرماتھے۔ میری افتاد سن کر مولانا نے وہی کہا جو کسی بھی ادارے کے ذمے دار اور مربی استاد کو کہنا چاہیے۔ ’’کوئی بات نہیں، میں ان سے کہوں گا، ویسے بھی استاد کی مار تو بڑی برکت کی چیز ہوتی ہے، ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ باہر صرف ایک چراغ روشن تھا، چہرے کے تاثرات اس کی روشنی میں پڑھے نہیں جاسکتے تھے۔ اندازہ ہے کہ امی غصے میں آگئی تھیں کیونکہ اس وقت انہوں نے مجھ سے جو کہا وہ ایک ماں سخت غصے کی حالت میں ہی کہہ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’تو چپ چاپ پٹ کر کیوں آیا؟ اگر آئندہ کوئی کچھ کہے تو میرے پاس آنا، میں چلوں گی تیرے ساتھ، دیکھوں کون ہاتھ لگاتا ہے۔ ‘‘ الفاظ شاید بالکل یہی نہ ہوں، مگر مفہوم یہی تھا۔ یقینا میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں کبھی ایسی نوبت نہیں آنے دی کہ وہ میری حمایت کو آتیں، مگر ان کے الفاظ اُس وقت میری بڑی ڈھارس بنے۔ آج بھی جب اس بارے میں سوچتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

 یہ تو ایک موقعہ تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع ایسے آئے کہ انہوں نے میرے دفاع میں غصے کا اظہار کیا۔ وہ قلبِ حزیں اور روحِ تابندہ وتپاں کی مالک تھیں۔ میرے حق میں وہ شمشیرِ برّاں تھی جو رزم میں بے پناہ ہوتی ہے۔ وہ آغوشِ مادر، بازوئے برادر اور راحتِ عزیزاں تھیں۔ میری دل دہی اور دل آسائی کرتیں، لڑنے کے لیے بھی تیار رہتیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اہلِ نظر اِسے ان کی خوبی کہیں گے یا خامی۔ میرے نزدیک وہ بس ممتا کا پیکر تھیں اور ان کا ہر کام مجھے بے حد عزیز تھا۔ بھلا کوئی بیٹا ماں کے پیار دُلارکو عقل ومنطق کی کسوٹی پر آزمائے گا؟ماں کے روپ بھی عجیب عجیب ہوتے ہیں۔ انہیں کبھی الہامی قرار دیا جاتا ہے، اور کبھی یہ مہمل بھی ہوتے ہیں۔ لیکن عجیب تر ہونے کے معنی ہمیشہ مہمل ہونے کے نہیں ہوتے۔ وہ انسان تھیں، اس لیے یقینا ان میں کچھ نہ کچھ بشری کمزوریاں بھی رہی ہونگیں، لیکن وہ کمزوریاں ایک اچھے شعر کی کمزوریاں تھیں جن سے شعر کے لطف، بے ساختگی اور تاثیر میں کوئی فرق نہیں آتا۔

اسی رستے سے آیا، چلچلاتی دھوپ میں، لیکن

بھروسہ کس کو ہوگا میرے سائے کی گواہی کا

بن ماں کے بچوں کو سب سے زیادہ پریشانی گھرکے بنے کھانے نہ ملنے کی ہوتی ہے۔ ہوٹل خوری کرتے کرتے طبیعت بالکل اُوب جاتی ہے۔ گھریلو کھانا کہیں مل جائے تو چاندی ہو جاتی ہے۔ ظاہری تمیز داری اور کھوکھلی نستعلیقیت کے پاسدار اسے بھکڑ پن یا بھِنکتا پن کہتے ہیں۔ مجھے بھی بچپن سے گھر کے کھانے پسند ہیں۔ خاص کر رمضان میں بنائی جانے والی فروٹ چاٹ تو بے حد پسند ہے۔ ایک خواہشِ ناتمام بچپن سے رہی تھی کہ فروٹ چاٹ افطار کے وقت بھی کھائوں اور تراویح کے بعد آکر بھی مجھے کچھ چاٹ مل جایا کرے۔ جب سے میری گرہستی جڑی ہے، الحمد للہ یہ جائز شوق امکانی حد تک پورا کرتا ہوں۔ مگر بچپن میں دل مسوس کے رہ جاتا تھا۔ کسی گفتگو کے دوران شاید میں نے ذکر کر دیا، یا کسی اور سے میں نے کہا اور اس نے امی سے بتا دیا۔ بہر صورت اُس کے بعد میں نے دوبار رمضان کا مہینہ پھلت میں گزارا، اور امی نے روزانہ اہتمام کے ساتھ میری خاطر چاٹ اٹھا کر رکھی اور زبردستی مجھے عشاء بعد کھلائی۔ وہ اپنی اولاد کی طرح مجھ پر جان کیوں چھڑکتی تھیں اس کا بھید تو مجھے معلوم نہیں، لیکن جب کبھی یہ چھوٹے چھوٹے واقعات یاد آتے ہیں تو ان کے کردار کی عظمت کی حرارت میرے وجود پر جمی ہوئی بے حسی کی برف کو کسی قدر پگھلا دیتی ہے اور ان کی جدائی کا احساس ایک بار پھر میرے دل ودماغ کی ظلمت پر چند لمحوں کے لیے ایک ناقابلِ بیان غمگینی، شوخی، اور نورانیت کی پھوار سی برسا جاتا ہے۔

یہ پسینہ ہے میری آنکھوں کا

غم کے آنسو کچھ اور ہوتے ہیں

 میں مہتمم صاحب کے ساتھ امی جان کے میکے شاہ جہاں پور بھی گیا ہوں۔ وسطِ شہر میں گہما گہمی سے بھرے محلے میں مکان تھا۔ ان کا میکہ دیکھا اور پھلت میں ان کی رہائش سے تقابل کیا تو مزید ان کی بڑائی کا قائل ہوگیا۔ عام طور پر شہر کی رہنے والی لڑکی گائوں میں نباہ نہیں کر پاتی، اور گائوں بھی اگر (اُس وقت کے) پھلت جیسا ہو جہاں بجلی، پانی اور ہاسپٹل جیسی بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں تو رہنا سخت پتّے ماری کا کام ہے۔ مگر امّی جان صبر وشکر کا اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ وہاں رہیں اور بالآخر وہیں پیوندِ خاک ہوگئیں۔ میں نے انہیں دیکھا ہے۔ مہتمم صاحب کی خاطر وہ ہر مرحلے سے گزری ہیں، ہر طرح کی سختیاں جھیلیں، توقعات کے خلاف کبھی مایوسی بھی ہوئی، زیر بار بھی ہوئی ہونگیں، بعض صدمے بھی اٹھائے، مگر کم از کم میرے سامنے کبھی پھلت میں اپنی بودوباش کے حوالے سے کوئی ناملائم کلمہ زبان سے نہ نکالا اور نہ کبھی چہرے بشرے سے مایوسی یا بیزاری کا اظہار کیا۔ بچپن سے آج تک زندگی میں طرح طرح کی خواتین سے سابقہ پڑا۔ اکثر محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں کوئی خامی ہے۔ کوئی بڑی مخلص تھی تو اتنی ہی روکھی پھیکی۔ کوئی ہنسوڑ ہوئی تو محسوس ہوا کہ اس میں گنوار پن بھی ہے، کوئی عالم فاضل دکھی تو اس میں نخوت، تنگ نظری اور کم ظرفی بھی کسی نہ کسی حد تک پائی گئی۔ مگر امّی جان کی شخصیت اتنی جامع اور متنوع تھی کہ ہر موقع سے اس خوبی سے عہدہ برآ ہوتیں کہ ان کی صحبت میں جی لگتا اور کبھی یہ محسوس نہ ہوتا کہ فلاں کمی ہے جو ان کے اندر نہ ہونی چاہیے تھی۔ ہو سکتا ہے یہ ایک بیٹے کی نگاہ کا دوش ہو، اور ہو سکتا ہے یہی حقیقت ہو۔ یہ احساس ایک امانت تھا، اس لیے ذکر کر دیا۔

امّی جان کی سیرت وشخصیت کا ایک کمال یہ تھا کہ کسی حالت میں اپنی حدود سے متجاوز نہ ہوتی تھیں۔ اوپر والے نے ایسا متوازن دل ودماغ دیا تھا اور شخصیت اتنی دل آویز تھی کہ ان کو اپنے مقام ومرتبے کی آڑ پکڑنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ ہوئی اور نہ انہوں نے کسی کے سامنے اپنے طور طریقوں سے کبھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ اتنے بڑے مدرسے کے مہتممِ تعلیم وتربیت یا عالمِ دین کی بیوی ہیں، حالانکہ اس قسم کے اکثر مواقع پیش آتے رہتے تھے۔

 بچپن سے محبتِ مادری سے محروم رہا ہوں۔ اس لیے کسی کو امی کہتے ہوئے بڑی جھجھک ہوتی تھی۔ ایک انجانا سا خوف اور مجہول سی کھٹک دل میں پیدا ہوجاتی تھی۔ امی جان نے مجھ سے بارہا کہا کہ میں انہیں امی بلایا کروں، مگر میری زبان نہ ٹوٹ سکی۔ مگر ندوہ جاکر جب بھی میں نے مہتمم صاحب کو خط لکھا، انہیں امی جان لکھا۔ آج سوچتا ہوں تو دل کڑھتا ہے۔ اس میں شبہہ نہیں کہ وہ میرے لیے ماں سے کم نہ تھیں۔ امی کے بجائے میں انہیں ’’اے بی‘‘ سے خطاب کرتا تھا جو شاید میں نے اپنے نانیہال سے سیکھا تھا۔ پرانی دلّی میں کسی رشتے دار معمر خاتون کو اگر قدرے بے تکلفی سے مخاطب کرنا ہو تو ’’اے بی‘‘ کہہ دیتے ہیں۔

 ندوہ جانے کے بعد میراپھلت آنا جانا کم ہوتا چلا گیا۔ اب میں بڑا ہوگیا تھا۔ چھوٹی بہن ماریہ اب مجھ سے پردہ کرتی تھی اور امی جان بھی اب مولانا کی موجودگی میں مجھ سے ملتی تھیں اور وہ بھی پورے پردے کے ساتھ۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ انہوں نے مجھ سے چہرے کا پردہ کبھی نہیں کیا۔ ندوہ کے بعد میں بہ غرضِ تعلیم ادھر ادھر پڑھتا رہا، پھر مدینہ منورہ چلا گیا۔ اس دوران نادانستہ اور غیر ارادی طور پر میں اُن سے اور مادرِ علمی جامعۃ الامام پھلت سے کشاں کشاں دور ہوتا چلا گیا۔ اس کے پیچھے محسنوں کی کرم فرمائیاں بھی تھیں جن کے ذکر کا یہ محل نہیں۔

صلۂ درد تو مقصود ہے لیکن انجم

مجھ سے پہلے مرے دشمن کو خدا شاد کرے

  موبائل فون کا زمانہ آیا تو گاہے گاہے بات بھی ہوجانے لگی۔ اپنی شادی کے بعد صرف ایک بار ان سے ملنے جاسکا۔ وہ کافی کمزور ہوگئی تھیں، پہلے جیسی زندہ دلی اور شگفتگی چہرے پر باقی نہیں تھی۔ تھکن اور اضمحلال کے آثار ظاہر ہوچلے تھے۔ مگر پھر بھی مہتمم صاحب سے اچھی صحت تھی۔ عرصے سے علیل رہنے لگی تھیں۔ مسلسل مصائب، بالخصوص بیماری کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ بعض انسانی کمزوریوں کو ابھار دیتی ہے۔ آدمی زود رنج اور تنک مزاج ہوجاتا ہے۔ صحت وعافیت میں جن لوگوں کی طبیعت متوازن ہوتی ہے، مرض ومصیبت میں بالعموم یہ توازن قائم نہیں رہتا۔ ان کی وفات کے بعد لوگوں نے احوال بتائے کہ کسی پر کبھی برہم نہ ہوئیں یا زبان سے کوئی غیر ثقہ کلمہ نہ نکلنے دیا۔ بچوں پر، چھوٹوں پر، بعض نامعقول ملنے والوں پر آدمی کبھی نہ کبھی غصہ کرتا ہی ہے، لیکن یہ عجیب بات تھی کہ وہ کسی حال میں آپے سے باہر نہ ہوتی تھیں۔ کم سے کم میں نے ان کو کبھی اس حال میں نہ دیکھا۔ ہمیشہ شگفتہ، سنجیدہ اور متوازن پایا۔ میری بیٹی صدف کو بہت پیار کیا۔ اس کی ماں کے سامنے کہا کہ یہ تجھ پر گئی ہے، اِس پر نہیں گئی۔ پھلت کے ایک مقامی دوست سے ملنے چلا گیا اور ذرا دیر ہوگئی تو خفگی کا اظہار کیا۔ اس وقت بڑے لڑکے رافع ندوی سلمہ کی شادی ہو چکی تھی، بیٹی ماریہ کی فکر دامن گیر تھی۔ الحمد للہ یہ مرحلہ بھی جلد ہی بہ خیروخوبی طے ہوگیا۔ منجھلے بیٹے اسامہ بحرین میں بہ سلسلۂ ملازمت قیام پذیر ہوگئے ہیں۔ ان کی بھی شادی ہوچکی ہے۔ آخری صاحب زادے یحییٰ سلمہ کی شادی ہونا باقی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ سبھی بچے صاحبِ اولاد ہیں۔

 ۲۰۱۴ء میں جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد میں جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ میں پڑھانے لگا۔ پچھلے سال کسی نے واٹس اپ پر میسیج کیا کہ امی جان کی طبیعت سخت خراب ہے۔ فوراً اپنے دیرینہ دوست مفتی عاشق پھلتی صاحب کو فون کیا۔ سن کر راحت ملی کہ یہ خبر غلط ہے، صرف ہلکی بیماری ہے۔ مگر عاشق بھائی نے وقت پر چیتادیا تھا کہ اب عمر کا پت چھڑ شروع ہو چکا ہے، ایک بار آکر ضرور مل جائو۔ میں نے بھی پکا ارادہ کر لیا تھا کہ ضرور جائوں گا، مگر حرماں نصیبی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ چھٹّی آئی، گزر گئی اور میں نہ جا سکا۔ اس بار عزمِ مصمم کیے بیٹھا تھا اور گھروالوں سے کہہ بھی دیا تھاکہ سردی کی چھٹیوں میں ضرور پھلت جائوں گا اور خدمت میں حاضری دوں گا۔ مگر اب اچانک وفات کی خبر ملی۔ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہاتفِ غیبی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا:’’انسان، تم اپنے منصوبے بناتے اور بگاڑتے ہو، عمل کرنے سے پہلے سو بار سوچتے اور ہچکچاتے ہو، مگر ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ ہم وقتِ موعود سے سرِ مو تاخیر نہیں کرتے۔ ارے نادان، تم سب مسافر ہو، پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے۔ سامان بُک ہوچکا ہے۔ ٹرین کا انتظار ہے۔ جس کی گاڑی پہلے آگئی وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہوجاتا ہے۔ کچھ کی ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی، تو وہ بھی اس میں سوار ہوجائیں گے۔ مگر یہ سامان جو اتنا سارا تم نے جمع کر رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ یہ کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اسے وصول کرنے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔ تم بس اپنی ماں سے ملنے کی سوچتے رہے، آگے بھی سوچتے رہو گے۔ اب ہم ہمیشہ کے لیے اللہ کی اس نیک بندی کو دنیائے وہم وگماں سے عالمِ یقین وعرفاں لیے جاتے ہیں۔ تمہاری ماں خوش نصیب تھی کہ تمہارے سامنے مری، تم ان کے سامنے نہ مرے۔ انہیں یاد رکھو، ہمیشہ یاد رکھو، ماں کو کون بھولتا ہے؟ جب تک نہ بھولو گے لڑکپن کی خوش دلی اور حوصلہ باقی رہے گا۔ ‘‘

صبح خوش تھا شام آئی تو خفا ہوتا ہے کیا

آئینہ دونوں طرف سے آئینہ ہوتا ہے کیا

آدمی مرجائے تو رشتہ نہیں مرتا اثر

آپ لاٹھی ماریے پانی جدا ہوتا ہے کیا

  مجھے ان کے پاس جانا چاہیے تھا، یہ خیال اب ہر وقت احساسِ جرم کا تازیانہ بن کر میرے ضمیر پر بڑے بے رحم کوڑے مارتا ہے۔ یادوں کے پھلت کے صاف سادے ورق پر ایک نقش ابھر آتا ہے۔ بدیع وبلند عمارتوں کے نقشے پر دیوار ودر کہیں کہیں سے نمایاں ہوتے ہیں۔ تصور تصویر بن جاتا ہے۔ مستقبل کا افق دھیرے دھیرے ان تمام گہرائیوں اور پہنائیوں کے ساتھ بے نقاب ہوجاتا ہے جن میں مومن کا عزم پرورش پاتا ہے، بالیدہ ہوتا ہے اور آفاق پر چھا جاتا ہے۔ مدرسے سے کچھ فاصلے پر قبرستان میں ایک طرف امّی آسودۂ خاک ہیں اور مدفن کے بہشتی جھروکے سے اپنے حسنات کی فردوس تعمیر ہوتے دیکھ رہی ہیں۔ میں سٹ پٹا سا دیکھ رہا ہوں۔ اب میں کیا کروں ؟کس منھ سے جائوں ؟ کس سے ملنے جائوں ؟ ایک نامراد حقیر، عاصیِ پُر تقصیر، اسیرِ نفسِ شریر کر بھی کیا سکتا ہے؟

نہ اعتبارِ محبت نہ اعتبارِ ہوس

دلِ خراب بس اب یونہی ساری عمر ترس

   صوم وصلاۃ کی پابند ان کی باوقار شخصیت اور نورانی شکل وصورت آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتی پھرتی نظر آتی ہے۔ ان کی موت نے مجھ پر وہی اثر ڈالا ہے جو ایک بیٹے پر ماں کی موت سے پڑتا ہے۔ روح کی گہرائیوں سے ان کی لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ تصور میں ان کے جنازے میں شرکت کی۔ مہتمم صاحب کے دھندلائے ہوئے چہرے کو دیکھا، حالانکہ یہی چہرا کبھی تمکنت ووقار میں ضرب المثل تھا۔ ان بچوں کا تصور کیا جو بن ماں کے ہوگئے تھے۔ صلبی اولاد بھی، روحانی اولاد بھی۔ اللہ سب کو صبرِ جمیل دے۔

 وہ میری حقیقی ماں نہیں تھیں، مگر میں نے ہمیشہ ان کا حقیقی بیٹا بننے کی آرزو کی۔ وہ اس جہاں سے اٹھ گئیں اور اپنے ساتھ وہ تمام باتیں لے گئیں جو میرے لیے کسی اور میں نہیں ہیں۔ میرا ان کا خون کا رشتہ نہ تھا، مگر وہ میری ماں تھیں۔ کس سے کہوں اور کون سمجھے گا کہ اس رشتے میں کیا تھا اور کیا نہیں تھا۔ وہ میرے لیے عزیزوں سے زیادہ عزیز، بزرگوں سے زیادہ بزرگ اور دوستوں سے زیادہ بڑی دوست تھیں۔

 لکھنا پڑھنا میرا آذوقۂ حیات بن چکا ہے۔ دورانِ مطالعہ جب بھی کسی سیاق میں ماں کے تعلق سے کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے تو خوابوں اور خیالوں میں کہیں نہ کہیں اُن کا چہرا جگمگانے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ، تو جانتا ہے کہ تیری یہ بندی کتنی خوبیوں کی مالک تھی۔ ان کی نیکیوں کے صلے میں یا ہماری مخلصانہ دعائوں کی وجہ سے یا محض اپنے فضل وکرم سے انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما اور انہیں راضی رکھ، جیسا انہوں نے ایک دنیا کو راضی رکھا۔ العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یُرضی ربَّنا؛إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

سورج بُنتا ہے تارِ زر سے

دنیا کے لیے ردائے نوری

عالم ہے خموش ومست گویا

ہر شے کو نصیب ہے حضوری

دریا، کہسار، چاند، تارے

کیا جانیں فراق وناصبوری

شایاں ہے مجھے غمِ جدائی

یہ خاک ہے محرمِ خدائی

تبصرے بند ہیں۔