ملک و ملت کے گل صدرنگ قاضی عدیل عباسی! (قسط اول)
حفیظ نعمانی
20 ویں صدی میں مسلمانوں میں جو تاریخ ساز ہستیاں چھائی رہیں ان میں ایک نام قاضی محمد عدیل عباسی کا بھی ہے جن کے بارے میں حیات اللہ انصاری جیسے کسی کو خاطر میں نہ لانیو الے صحافی نے بھی لکھا ہے-
’’عدیل عباسی مجھے اکثر یاد آتے ہیں اور جب بھی یاد آتے ہیں نئے انداز میں یاد آتے ہیں ۔ کبھی جرنلسٹ بن کر آتے ہیں تو کبھی مصنف بن کر کبھی سیاسی مفکر اور لیڈر بن کر آتے ہیں تو کبھی اُردو کے خادم بن کر کبھی دینی تعلیم کے رہبر ہوتے ہیں تو کبھی میرے دوست۔ جب وہ زندہ تھے تو اس بات کی طرف کبھی دھیان نہیں گیا کہ ان کی ذات ایسا رنگ برنگی گلدستہ ہے جس میں چمن چمن کے پھول ہیں ۔‘‘
قاضی صاحب کیا تھے؟ یہ اس کی پوری تفصیل اب بھی نہیں ہے وہ حقیقت میں کیا تھے یہ معلوم کرنے کے لئے آپ کو ایک کتاب ’’تحریر بے عدیل‘‘ پڑھ کر معلوم ہوگا جو بڑے سائز میں 1600 صفحات کی کتاب ہے جسے میں اگر ہاتھوں میں لے کر پڑھنا چاہوں تو ممکن ہی نہیں ہے۔ کتاب کا جو وزن ہے اس سے کہیں زیادہ ان معلومات کا وزن ہے جو کتاب کے اندر ہیں ۔ یعنی ہندوستان اور دنیا میں 20 ویں صدی میں جو کچھ ہوا ہے وہ سب سمیٹ کر ایک کتاب میں بند کردیا گیا ہے اور یہ کارنامہ قاضی صاحب کے بھانجے اور جانشین مسعود الحسن عثمانی نے انجام دیا ہے۔
قاضی صاحب کی پیدائش ایک زمیندار خاندان میں ہوئی وہ خود لکھتے ہیں کہ فارغ البالی کا زمانہ تھا جب مرحوم قاضی محمد عبداللہ مسند لگائے چار پائی پر بیٹھے رہتے تھے اردو گرد مصاحبوں کا مجمع مونڈھوں پر بیٹھا ہوا۔ یا تو تاش کا کھیل ہو رہا ہے جس میں بچے بھی شریک ہوتے تھے۔ میں نے مسلسل اس میں شرکت کی ہے یا کوئی کتاب پڑھی جارہی ہے۔ طاق میں کتابیں رکھی رہتی تھیں ۔ الف لیلہ داستان امیر ہمزہ، قصۂ چہار درویش، فسانۂ عجائب۔ محلہ میں ایک سید صاحب آباد تھے۔ آباد کیا تھے ان کی شرافت کا خیال کرکے بزرگوں نے ان کو وہیں قیام کرنے کی درخواست کی اور وہ بس گئے۔ حتی المقدور ان کی خدمت کی جاتی تھی۔ میں نے جن کو دیکھا وہ سید سجاد علی تھے وہ بلائے جاتے تھے اور ان کو طاق سے اتارکر کوئی کتاب دے دی جاتی تھی وہ مونڈھے پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کرتے تھے اردگرد لوگ بڑے اشتیاق سے جمع ہوجاتے تھے اور انہماک سے سنتے تھے۔
یہ تھا وہ ماحول جس میں اس گوہر نایاب نے آنکھ کھولی اور بچپن اس طرح گذرا کہ- وہ فرماتے ہیں کہ جب میرا داخلہ 1909 ء میں ہلور کے مڈل اسکول میں ہوا جو اس زمانہ میں پرائمری کے درجہ چار کے بعد درجہ پانچ کہلاتا تھا اور درجہ چھ پاس کرکے مڈل کی سند ملتی تھی جس سند پر لوگ وکیل ڈپٹی کلکٹر ہوجایا کرتے تھے۔ اس وقت مجھے ملیریا بخار ہوگیا اور ایک ماہ تک صرف یہ دوا ہوئی کہ قصۂ چہار درویش پڑھ کر سنایا گیا۔ اسی کے ضمن کا ایک واقعہ ہے کہ جب ایک ماہ بعد حکیم محمد عمران صاحب ساکن واسہ درگاہ مرحوم کی خدمت میں اتفاقاً آگئے تو انہوں نے مجھے دیکھا بخار اتر چکا تھا لیکن انہوں نے کہا تلّی بڑھ گئی ہے۔ دوا کے لئے دریافت کیا گیا تو فرمایا دوا کی ضرورت نہیں ہے گھی میں تر پلائو اور گوشت دونوں وقت کھلایا جائے۔
یہ تھا وہ ماحول جس میں قاضی عدیل عباسی صاحب کا بچپن گذرا اور وہ تعلیم کے مدارج طے کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے بی اے پاس کرلیا۔ 1920 ء میں بی اے کرنے کے بعد فرائض تصادم کی دماغی کشمکش میں گرفتار ہوگیا۔ دل اور دماغ کی جنگ جیسی پریشان کن ہوتی ہے اسے وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہیں کبھی اس منزل سے گذرنا پڑا ہو یونیورسٹی آف الہ آباد سے بسلسلۂ ترک موالات نام کٹواکر گھر آیا تو اس مشکل کی حل کے لئے میں نے مولانا حسرتؔ موہانی سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا حسرتؔ اپنی آل انڈیا شان قائم رکھتے ہوئے سیاسی لیڈر تھے اور ان کی حریت قناعت و توکل عزم و حوصلہ اور بلند فکری فقر کے افسانے مشہور تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی شہرت نے ہی کالج کی چہار دیواری کے اندر ان کا معترف بنایا تھا۔ میں نے ان کو اپنا دردِ دل سنایا کہ ایک پھیلے ہوئے خاندان کی خدمت کے لئے روپیہ کمانا ضروری ہے اور جذبات دار و رسن کی دعوت دیتے ہیں ؟
مولانا حسرتؔ موہانی نے جواب میں لکھا کہ آپ فوراً کان پور چلے آئیں یہیں سب معاملے طے ہوجائیں گے خط میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ خط پاکر کان پور جانے کے لئے بیتاب ہوگیا لیکن سوال تھا وہاں پہونچنے کا۔ کالج سے چلے آنے کے بعد تمام خاندان اب مجھ سے بیزار تھا اور یوں کھلم کھلا اعلان کرکے میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ چپکے سے یا بہانہ بناکر بہت مشکل نہیں تھا لیکن ریل کا کرایہ و خرچ کہاں سے آئے؟
قاضی صاحب کی شادی ہوچکی تھی اور اس شادی میں بھی وہ اپنے محترم دادا اور پورے خاندان سے معرکہ کرچکے تھے۔ آگے کی کہانی سنانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے سب سے بزرگ دادا کیا تھے والد کیا تھے اور پورے خاندان کا ماحول کیا تھا؟ اس پر نظر ڈال لی جائے۔ بقول شکیل عباسی
’’دادا مرحوم تعزیوں کے سامنے فرش پر ہم سبھوں کو لے کر سوتے تھے اور والد مرحوم اپنے پلنگ پر آرام فرماتے تھے اور عاشورہ کو روزے رکھتے اور نمازیں پڑھنے میں گذارتے تھے۔‘‘
اس کے علاوہ دادا مرحوم ’’نوا‘‘ کا تہوار مناتے تھے مالا مال دسترخوان پر جڑھن کے نرم اور میٹھے دانوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ، دہی اور چاندی کے سکے رکھے رہتے تھے دادا کے حکم سے ہم لوگ روپیہ دہی اور مچھلی کا درشن کرکے جڑھن کی نرم بالیوں کے میٹھے میٹھے دانے چگتے تھے اس کے بعد کھانا کھاتے تھے۔ والد مرحوم اس دسترخوان پر نہیں ہوتے تھے اور دادا مرحوم کی طرف سے بیٹے کا مزاج دیکھ کر اس پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔ لیکن والد مرحوم کی اس داستانِ علیحدگی میں باطل سے جو اجتناب پایا جاتا تھا ہمارے شعور پر اس کا گہرا اثر لیتے تھے قاضی عدیل عباسی کے چھوٹے بھائی قاضی مولانا شکیل عباسی لکھتے ہیں کہ-
’’1918 ء میں جب بھائی صاحب کی شادی کا وقت آیا تو ایک جنگ چھڑگئی، گیٹ بند اور شادی کی رسمی دھوم دھام ختم ہوکر رہ گئیں اور دادا مرحوم کو اس سے بڑا صدمہ پہونچا۔ ان دنوں نوشہ کو ریشمی لباس میں سہرا لگاکر سسرال جانا ہوتا تھا بھائی صاحب نے عقد کے لئے یہ شرط لگادی کہ کالج کے ہی لباس میں بیٹھیں گے۔
تبصرے بند ہیں۔