جنگ بدر میں دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے بڑا سبق پوشیدہ ہے!

ترتیب: عبدالعزیز

 جنگ بدررمضان المبارک کی 17 تاریخ کو ہوئی تھی۔ یہ اسلام کی پہلی جنگ تھی جسمیں مخالف حق کی فوج کی تعداد تین گنی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت 13 میں فرماتا ہے:

  ’’تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔ دیدۂ بینا رکھنے والوں کیلئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔

سابقہ آیت کریمہ میں مخالفین کو اسلام کے غلبہ اور ان کے مغلوب ہونے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک ایسے واقعہ سے اس پر دلیل پیش کی جارہی ہے جو تھوڑا ہی عرصہ پیشتر پیش آیا تھا۔ مراد اس سے جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائل جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جارہا ہے کہ واقعہ کو غور دے دیکھو تو تمھیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں ۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائل جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحۂ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی، رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ، دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں ۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیص نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لئے لاٹھیاں تیار کی تھیں ۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔ نہتے لوگوں نے مسلح لوگوں کی کمر توڑ دی۔ جنگ میں کامیابی کے تمام مسلمہ اصول دھرے کے دھرے رہ گئے۔

 اس واقعے میں سب سے بڑی نشانی یہ تھی کہ میدان جنگ میں فتح و شکست افراد قوت اور اسلحہ جنگ میں کمی بیشی سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ہوتی ہے اور یہ تائید و نصرت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کے راستے میں ، اللہ کا جھنڈا بلند کرنے کیلئے نکلتے ہیں ۔ فتح اس گروہ کو ہوتی ہے جو اخلاقی اقدار کا علمبردار ہوتا ہے، جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے، وہ اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

ان دونوں گروہوں میں اصل فرق یہی تھا۔ ایک طرف قریش مکہ کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب دادِ عیش دی جارہی تھی اور اپنی قوت اور برتری کے اظہار کے دعوے تھے، لیکن دوسری طرف مسلمانوں میں پرہیزگاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجے کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے، زبان پر اللہ کا نام تھا، اسی سے دعائیں مانگی جارہی تھیں ، اسی سے التجائیں ہورہی تھیں ، دل اسی کی امید سے لبریز تھے۔ ان دونوں لشکروں میں یہ فرق ایمان اور اخلاق کا تھا جس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلحہ جنگ اور افرادی قوت میں اگر کمی بھی ہو، لیکن اللہ سے تعلق اور تعمیل احکام میں کوئی کمی نہ ہو تو قلت تعداد اور بے سرو سامانی کی تلافی اللہ کی تائید و نصرت سے ہوجاتی ہے، لیکن اگر ایمان میں کمزوری اور کردار میں کجی ہو تو اس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہوتی۔

میدان جنگ میں وہی قومیں غالب آتی ہیں ، جو اپنے سیرت و کردار اور حوصلوں میں زندہ ہوتی ہیں اور اسلحہ جنگ کی تیاری میں بھی مقدور بھر کوتاہی نہیں کرتیں ، لیکن کوشش کے باوجود بھی اگر اللہ والے بے سرو سامانی کا شکار ہوجاتے ہیں تو اللہ کے فرشتے ان کی مدد کیلئے آجاتے ہیں ۔ اسی بات کو قرآن کریم نے دونوں جماعتوں کے تعارف کے طور پر نہایت اعجاز اور ایجاز کے ساتھ ذکر فرمایا ’’فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ اُخْرٰی کَافِرَۃٌ‘۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ دو مقابل باتوں میں سے ایک مقابل کو اختصار کیلئے بالعموم حذف کر دیاجاتا ہے کیونکہ مذکورہ لفظ محذوف کی طرف رہنمائی کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسی اسلوب کے تحت اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ اصل عبارت اس طرف ہے : فِئَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ اُخْرٰی کَافِرَۃٌ تُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ‘‘۔ پہلے جملے میں لفظ ’’مؤمنۃ‘‘ کو حذف کیا گیااور دوسرے جملے میں ’فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ‘ کو حذف کیا گیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر گروہ طاغوت کے راستے میں لڑ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ جو اللہ کے راستے میں لڑنے والا گروہ ہے اس کا تعلق یقینا اپنے اللہ سے ہوگا۔ وہ اللہ ہی کے کلمے کی سربلندی کیلئے لڑے گا۔ اس کا بھروسہ اسی کی ذات پر ہوگا اور وہ اپنے کسی عمل سے بھی اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرے گا اور دوسرا گروہ جو طاغوت اور لادینیت کے راستے میں لڑے گا وہ نہ جانے کس کس کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ چونکہ بنیادی طور پر بندۂ نفس ہوگا، اس لئے اس کا ایک ایک عمل تمرد، غرور اور سرکشی کی تصویر ہوگا اور یہ دونوں گروہ جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اللہ کی تائید و نصرت پہلے گروہ کے ساتھ ہوگی۔ اس کی نصرت اور تائید کے سو طریقے ہیں ، لیکن وہ سارے طریقے صرف مسلمانوں کے حوصلے توانا کرنے کیلئے ہیں ورنہ مدد تو صرف اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ فرشتوں کا اترنا بھی اسی کی طرف سے ہوتا ہے اور حالات کی سازگاری بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے، لیکن وہ تائید و نصرت جو جنگ کا نقشہ بدلتی ہے وہ بطور خاص اللہ کی جانب سے آتی ہے‘‘۔ (تفسیر روح القرآن)

 صاحب تفہیم القرآن سورہ آل عمران کی آیت 13 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دوگنا ہے۔

 جنگ بدر کا واقعہ اس وقت قریبی زمانے ہی میں پیش آچکا تھا، اس لئے اس کے مشاہدات و نتائج کی طرف اشارہ کرکے لوگوں کو عبرت دلائی گئی ہے۔ اس جنگ میں تین باتیں نہایت سبق آموز تھیں :

’’ایک یہ کہ مسلمان اور کفار جس شان سے ایک دوسرے کے بالمقابل آئے تھے، اس سے دونوں کا اخلاقی فرق صاف ظاہر ہورہا تھا۔ ایک طرف کافروں کے لشکر میں شرابوں کے دور چل رہے تھے، ناچنے اور گانے والی لونڈیاں ساتھ آئی تھیں اور خوب دادِ عیش دی جا رہی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کے لشکر میں پرہیزگاری تھی، خدا ترسی تھی، انتہا درجہ کا اخلاقی انضباط تھا، نمازیں تھیں اور روزے تھے، بات بات پر خدا کا نام تھا اور خدا ہی کے آگے دعائیں اور التجائیں کی جارہی تھیں ۔ دونوں لشکروں کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی معلوم کرسکتا تھا کہ دونوں میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑ رہا ہے۔

  دوسرے یہ کہ مسلمان اپنی قلتِ تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود کفار کی کثیر التعداد اور بہت اسلحہ رکھنے والی فوج کے مقابلے میں جس طرح کامیاب ہوئے، اس سے صاف معلوم ہوگیا تھا کہ ان کو اللہ کی تائید حاصل تھی۔

 تیسرے یہ کہ اللہ کی غالب طاقت سے غافل ہوکر جو لوگ اپنے سرو سامان اور اپنے حامیوں کی کثرت پر پھولے ہوئے تھے ان کیلئے یہ واقعہ ایک تازیانہ تھا کہ اللہ کس طرح چند مفلس و قلانچ غریب الوطن مہاجروں اور مدینے کے کاشتکاروں کی ایک مٹھی بھر جماعت کے ذریعے سے قریش جیسے قبیلے کو شکست دلواسکتا ہے، جو تمام عرب کا سرتاج تھا‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔