کرناٹک میں حزب مخالف کی عید

حفیظ نعمانی

اسے کانگریس کی کامیابی ہی کہا جائے گا کہ کرناٹک کی حکومت میں اس کے 22  وزیر ہیں اور جے ڈی ایس نے اپنے کو 12  وزیروں تک محدود کرلیا کانگریس کے لئے جتنا حکومت بنانا ضروری تھا اتنا ہی بی جے پی کو حکومت بنانے سے روکنا ضروری تھا۔ حیرت ہے کہ بزرگ صحافی اور ہمیشہ کے سیکولر محاذ کی حمایت کرنے والے کلدیپ نیرؔ کو بھی کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت نہ بننے سے تکلیف ہوئی وہ لکھتے ہیں کہ ’افسوس کہ اپنی جھولی میں 104  سیٹیں رکھنے کے باوجود بی جے پی حکومت نہیں بنا سکے گی۔‘ یہ بات نتائج کے بعد کہنا اس لئے مناسب نہیں ہے کہ کرناٹک میں ووٹروں نے پھوہڑپن نہیں کیا کہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں خیرات بانٹ دیتے۔ صرف تین پارٹیوں میں الیکشن ہو اور صرف دو ممبر ایسے تھے جن کو خریدا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ 104  جھولی میں ہوتے ہوئے وہ حکومت نہیں بنا سکی، سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اسے جائز سمجھ رہے تھے کہ جس قیمت پر بھی ممبر ملیں خرید لیا جائے۔

ہمیں تو وزیر اعظم سے شکایت ہے اور ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ عرض کریں کہ انہوں نے نتیجہ معلوم ہونے کے بعد کیسے بنگلور آنے کو صحیح سمجھا اور وجے کا جشن اور شکریہ جیسے الفاظ اپنی تقریر میں کہے۔ جس نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے لئے صرف بھرشٹاچار اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا تھا وہ چار سال سے طرح طرح کے بھرشٹاچار اس طرح کررہے تھے کہ دوسروں کو آلۂ کار بناتے تھے جیسے گوا اور منی پور میں انہوں نے کرایا لیکن کرناٹک میں تو وہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسنا چاہتے تھے اور کھل کر کانگریس یا جنتا دل کے 8 ممبر خرید کر حکومت بنانے کا اعلان کررہے تھے جبکہ ہندوستان جیسے ملک کے وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ اگر امت شاہ یا صوبائی صدر یا یدی یورپا جنہیں وزیراعلیٰ بننے کا شوق سوار تھا وہ ایسی بات کہتے تو ان کو بھی روک دیتے کہ عوام کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم حکومت نہ بنائیں ۔

1967 ء میں اُترپردیش میں کانگریس کے لیڈر سی بی گپتا کو 198  سیٹیں ملیں لیکن جن سنگھ، سوتنتر پارٹی اور آزاد ممبروں کو ملاکر انہوں نے اکثریت بنالی۔ وزارت کی تشکیل میں چودھری چرن سنگھ گپتا جی سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے اجلاس کے دوران تعلق رکھنے والے 13  ممبروں کو ساتھ لیا اور اپوزیشن کے پاس جا بیٹھے۔ گپتا جی نے ایک منٹ دیر نہیں کی اور جاکر گورنر کو استعفیٰ دے دیا۔ چودھری چرن سنگھ کی کوئی پارٹی نہیں تھی۔ مقابلہ کملاپتی ترپاٹھی سے تھا چودھری صاحب کا ان سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں تھا وہ اندرا گاندھی کے صوبہ دار تھے اس وقت وہ دوسری پارٹیوں کے ممبر خریدنے کا فیصلہ کرتے تو کوئی مقابلہ پر نہیں تھا کملاپتی ترپاٹھی کے پاس شاید 70  ممبر تھے یا کچھ زیادہ چودھری چرن سنگھ نے کبھی پیسے کی سیاست نہیں کی وہ صوبہ کے سب سے زیادہ ایماندار وزیر تھے لیکن گپتا جی نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اور چودھری چرن سنگھ نے سب کو ملاکر حکومت بنالی۔

کرناٹک میں گورنر نے 15  دن کا وقت دیا اور کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ گورنر جس کے پاس الیکشن کمیشن کا بھیجا ہوا نتیجہ کا چارٹ رکھا ہوا ہے۔ وہ یہ کہنے کے بجائے کہ جھولے بھربھرکر نوٹ کے بدلے میں ممبر خریدنے کا وقت کیسے دوں ۔ اگر تم کہتے ہوئے آئے ہو کہ اکثریت تمہارے پاس ہے تو سب کے نام لکھ کر دو اس کے بجائے وہ پندرہ دن کا وقت دے رہاہے۔ کیا وزیراعظم نے یہ طے کرلیا ہے کہ 2019 ء میں بھرشٹاچار کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور کانگریس یا دوسری مخالف پارٹیاں ان کے بھونڈے اور پھوہڑپن والے بھرشٹاچار کو معاف کردیں گے؟

کلدیپ نیئر صاحب کو کیا ہوگیا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کے اس بھرشٹاچار کو جس کا مظاہرہ انہوں نے گوا، منی پور اور میگھالیہ میں کیا اس کے بارے میں کہا ہے کہ ’گوا، منی پور اور میگھالیہ میں بی جے پی نے اپنی پھرتیلی منصوبہ بندی سے حکومتوں کی تشکیل کا کام آرام سے کرلیا۔ ہماری عمر کلدیپ نیر سے تو زیادہ نہیں لیکن نریندر مودی سے زیادہ ہے اور اسی ہندوستان میں ہم نے اور کلدیپ صاحب دونوں نے دیکھا ہے کہ کسی صوبہ میں اگر کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تو ہفتوں گورنر راج رہا اور باہر منصوبہ بندی ہوتی رہی۔ گوا اور منی پور میں بی جے پی نے جو کیا وہ چیل اور گدھ کرتے ہیں کہ مرے ہوئے جانور پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ انہیں کوئی اس لئے کچھ نہیں کہے گا کہ وہ جانور ہیں لیکن جس طرح مرکزی وزیروں نے نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس بانٹے ہیں اس کا مقابلہ راہل کیا نوٹ بندی کے بعد کوئی نہیں کرسکتا تھا۔

کمار سوامی کی حلف برداری میں اپوزیشن کے اتحاد کا جیسا مظاہرہ ہوا ہے وہ ایسا کارنامہ ہے کہ اگر سدارمیہ دوسری بار حلف لیتے تو شاید نہ ہوتا۔ وزیراعظم نے اپنے مقام سے نیچے اترکر حزب مخالف کو ایک دوسرے سے اس لئے قریب کردیا ہے کہ مقابلہ حکمراں پارٹی بی جے پی سے نہیں پوری حکومت سے ہے جس میں کوئی گورنر گورنر نہیں ہے اور صدر صدر نہیں ہے سب وزیراعظم کے اشاروں پر حرکت کرنے والے میرے ہیں۔ اور وزیراعظم نے اپنے فیصلوں اور چھوٹے چھوٹے الیکشن میں اپنی کارکردگی سے ہر مخالف لیڈر کو یہ سمجھا دیا ہے کہ اگر مقابلہ کرنا ہے تو سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر زنجیر بنالو اور ملک کو ان کی مٹھی سے نکال لو۔ کیا یہ آخری بات نہیں ہے کہ مرلی منوہر جوشی جیسے بزرگ یہ کہیں کہ سادی کاپی پر کیا نمبر دوں اس سے سب سمجھ لیں کہ اندر بھی آگ لگی ہوئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔