رمضان المبارک اور معمولاتِ صحابہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

رمضان المبارک کی قرآن وحدیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔اس ماہِ مبارک میں دن میں روزہ اور رات میں قیام لیل کا حکم دیا گیا ہے۔قرآن کریم کی تلاوت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ ماہِ رمضان میں خود رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کے کیا معمولات رہتے تھے؟وہ اس ماہ میں کن عبادتوں کا اہتمام کرتے تھے؟اس مضمون میں کتب ِاحادیث کی روشنی میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

رویت ہلال

رمضان المبارک کا آغازرویت ِ ہلال سے ہوتا ہے۔چاند دیکھ کر ہم روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ۔صحابہ کے درمیان بھی چاند دیکھنے کے معاملے میں بہت زیادہ ذوق و شوق پایا جاتا تھا اور وہ بہت اہتمام سے چاند دیکھا کرتے تھے۔۲۹؍ تاریخ کوچاند دیکھنے کے لیے وہ آبادی سے باہر نکل جاتے تھے اوراکٹھا ہوکر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جہاں کسی ایک آدمی نے چاند دیکھا وہ شور کردیتا تھا: ’’چاند دیکھا، چاند دیکھا‘‘۔ اس طرح تمام لوگوں میں اس کا اعلان ہوجاتا تھا۔ روزہ شروع ہونے کے بعد جو قافلے دور دراز سے آیا کرتے تھے، صحابۂ کرام ان سے بھی پوچھا کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے چاند کس تاریخ کو دیکھا تھا؟ اورکب سے روزہ رکھنا شروع کیا ہے؟ بسا اوقات ان کی بتائی ہوئی تاریخ مدینہ کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کو ہدایت دیتے تھے کہ آپ لوگوں کا فلاں دن کاروزہ چھوٹ گیا ہے، بعد میں اس کی قضا کیجیے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رمضان کے چاند کودیکھنے کا از حد اہتمام کرتے تھے۔

یوم الشک کا روزہ 

 رمضان شروع ہونے سے ٹھیک ایک دوروز پہلے روزہ رکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو اس سے روکا تھا۔ اس کو یوم الشک کہتے ہیں ، یعنی یقینی طور سے اگر چاند کی خبر نہ ملے تو محض اس وجہ سے روزہ رکھ لینا کہ چاند ہوگیا تو ٹھیک ہے،ورنہ اس کو نفلی روزہ مان لیں گے۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے یوم الشک کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

روزہ کے لیے صحابۂ کرام کا شوق

صحابۂ کرام رمضان کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے تھے اور بہت شوق سے روزہ رکھتے تھے۔عہد صحابہ کی پوری تاریخ میں ایک صحابی کے بارے میں بھی یہ نہیں ملتا کہ س کو کوئی عذر نہ رہا ہو، اس کے باوجود اس نے روزہ نہ رکھا ہو۔ ایک حدیث ہے، اگرچہ وہ کچھ کم زور ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے رمضان کا روزہ بغیر کسی عذر کے چھوڑ دیا، وہ اگر پوری زندگی روزہ رکھے تب بھی اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ترمذی:۳۲۷)صحابۂ کرام روزہ کا غیر معمولی اہتمام کرتے تھے۔کبھی سحری نہ کھا سکے تو بھی روزہ ترک نہیں کرتے تھے۔ یہود کے یہاں ایک رواج پیدا ہوگیا تھا کہ اگروہ رات میں سو جاتے تھے تو پھر سحری نہیں کھاتے تھے۔ ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے۔ رات میں وہ گھر آئے، پتہ چلا کہ گھر میں کچھ بھی کھانے کو نہیں ہے۔انہوں نے بیوی سے کہا کہ جاکر پڑوس سے کچھ کھانے کولے آؤ۔ بیوی گئیں ، لیکن وہ تھکے ہوئے تھے، ان کی آنکھ لگ گئی۔ چنانچہ انہوں نے رواج کے مطابق کھانا نہیں کھایا اور بغیر سحری کے روزہ رکھ لیا۔ اگلے دن پھر وہ صبح مزدوری کرنے چلے گئے۔ بھوکے تھے، تھکن بھی تھی، وہ بے ہوش ہوکر گرگئے۔اس پر سورۂ بقرہ کی آیت کلوا واشربوا۔۔۔(البقرۃ:۱۸۷) نازل ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ صبح صادق کے آخری لمحے تک آدمی کو کھانے پینے کی اجازت ہے۔جب یہ اجازت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام کواس رخصت سے غیر معمولی خوشی ہوئی۔ اصلاً یہ ایک سختی تھی، جو یہودکے اثر سے آگئی تھی۔ ان پر بہت سے احکام ان کی درشت مزاجی کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے دیے گئے تھے۔ اس آیت کے نزول سے صحابۂ کرام نے بہت راحت محسوس کی۔

روزہ اور جنسی ضرورت 

 روزہ نام ہے صبح ِ صادق سے غروب ِ آفتاب تک کھانے،پینے اور جنسی تعلقات سے رکنے کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کے بعد اس طرح کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے یہاں بسا اوقات غلو پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ آدمی پورے مہینے جنسی تعلق سے احتراز کرے۔ یہ چیز دین داری کے خلاف ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہمادونوں صاف الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ رمضان میں طلوع ِ فجر کے وقت جنبی ہوتے تھے۔یہ ہماری مائیں صراحت سے کہتی ہیں کہ آپ خواب کی وجہ سے جنبی نہیں ہوتے تھے،بلکہ جنسی تعلق کے نتیجے میں جنبی ہوتے تھے۔ اس کے بعد آپؐ اٹھ کر غسل کرتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺکی تعلیم وتلقین کے نتیجے میں صحابۂ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔متعدد صحابہ مثلا ًحضرت علیؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابن عمرؓ وغیرہ کے اقوال ہیں اور ان کا عمل بھی کہ وہ ماہ رمضان میں رات میں جنبی ہوتے تھے، صبح اٹھ کر غسل کرتے تھے اور سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے۔ اللہ کے رسولؐ اور صحابہ کے عمل سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ یہ پارسائی اور پاکیزگی جھوٹی اور غیر اسلامی ہے۔ جن اوقات میں پابند کیا گیا ہے ان میں آدمی پابند رہے اور جن اوقات میں اجازت دی گئی ہے ان میں وہ اجازت کا فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ یہی صحیح دین داری ہے۔ صحابۂ کرام اسی پر عمل کیا کرتے تھے۔

اجتماعی سحر وافطار

روزہ میں دو چیزوں کا اہتمام کیا جاتاہے: سحری اور افطار۔ کس وقت سحری کھانی ہے؟ اور کب افطار کرنا ہے؟ اصلاً روزہ اسی چیز کا نام ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے۔ جس وقت اور جس لمحے اس کو کھانے سے روک دیا جائے وہ رک جائے اور جس لمحے اجازت دے دی جائے وہ کھانے لگے۔ سحری و افطار کے بارے میں بھی ہمیں صحابہ کرام ؓکے معمولات ملتے ہیں ۔

اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

تسحرّوا، فإنّ في السحور برکۃ(بخاری: ۳۲۹۱، مسلم: ۵۹۰۱)

یعنی ’’سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ ـ‘‘

ہم سب جانتے ہیں کہ بعض صحابہ غربت کی حالت میں زندگی گزارتے تھے۔بسا اوقات ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، لیکن چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سحری کھانے کی فضیلت بیان کی ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔ اس لیے وہ اس پر اس طرح عمل کرتے تھے کہ اگرسحری میں کھانے کو کچھ نہیں ہے تو وہ کم از کم پانی ہی پی لیا کرتے تھے، تا کہ اس حدیث پر عمل ہوجائے۔

سحری کے تعلق سے صحابہ کے معمولات میں ایک چیز ملتی ہے،جو عجیب و غریب ہے۔سحری میں ان کے درمیان دعوتیں ہوتی تھیں ۔ متعدد صحابہ کے بارے میں آتا ہے اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں متعدد صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے آپؐ کے ساتھ سحری میں شرکت کی۔ جو کچھ آپ کے گھر میں ہوتاتھا آپؐ نے لا کر ہم کو کھلایا۔اسی طرح حضرت ابوبکر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے بارے میں آتا ہے۔متعدد صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ان حضرات کے یہاں ہم نے رات گزاری اور ان کے ساتھ سحری میں شریک ہوئے۔ ایسا غالباً اس لیے ہوتا تھا کہ صحابہ کے بارے میں روایتوں میں آتا ہے کہ ماہ رمضان میں رات کا بیش تر حصہ وہ جاگ کر گزارتے تھے۔ اس میں انفرادی طور پربھی عبادت کرتے تھے اور اجتماعی طور پر بھی۔وہ تلاوت ِقرآن نمازوں میں بھی کرتے تھے اور نمازوں کے باہر بھی۔ گویا رمضان کی راتوں کا بیش ترحصہ صحابۂ کرام جاگ کر گزارتے تھے، تو ظاہر ہے، جو شخص رات بھر جاگ رہا ہو، اس کے لیے یہ مسئلہ ہی نہیں ہوگا کہ وہ آخری وقت میں اٹھے، ختم سحر میں وقت کم ہو اور سحری تیار نہ ہوپائے۔

تلاوت ِ قرآن کے آداب 

صحابہ کرامؓ نے تلاوت میں آسانی کے لیے قرآن کو مختلف احزاب، یعنی حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔حضرت اوسؒ کہتے ہیں کہ میں نے متعدد صحابہ کرام ؓسے دریافت کیاکہ آپ قرآن کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ اور آپ نے قرآن کو کتنے حصوں میں تقسیم کررکھا تھا؟کسی نے جواب دیا:تین، کسی نے جواب دیا: پانچ، کسی نے جواب دیا: سات، کسی نے جواب دیا: نَو اور کسی نے جواب دیا: گیارہ۔یعنی صحابہ نے قرآن مجید کوجتنے احزاب میں تقسیم کر رکھا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قرآن کو اتنے دنوں میں ختم کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓنے اللہ کے رسول ﷺ سے ایک مرتبہ سوال کیا: میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں ؟ آپ نے فرمایا: تیس دن میں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس سے کم دنوں میں قرآن پڑھنے کی سکت رکھتا ہوں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اچھا تو بیس دنوں میں ختم کر لیا کرو۔انہوں نے پھر عرض کیا: میں اس سے بھی کم دنوں میں ختم کر سکتا ہوں ۔ان کے اصرار پر آپ نے پندرہ، پھر دس،پھر سات دنو ں میں ختم کرنے کی اجازت دی اورفرمایا: سات دن سے کم میں قرآن نہ ختم کیا کرو۔ دوسری روایت میں ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ میں سات دن سے بھی کم میں ختم کر سکتا ہوں تو آپؐ نے انہیں تین دنوں میں ختم کرنے کی اجازت دی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تم تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کے کوشش ہرگز نہ کرو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :

’’لا یفقہ من قرأ في أقلّ من ثلاث‘‘۔

(جو آدمی تین دن سے کم میں قرآن ختم کرے گا اس کا مطلب ہے کہ وہ قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہے)۔ (ابودائود: ۴۹۳۱۔ احمد: ۷۶ ۵۷)

امام نووی ؒنے اپنی کتاب ’آداب حملۃ القرآن ‘ میں قرآن کی تلاوت کے آداب بیان کیے ہیں ۔ انہوں نے اس میں یہ حدیث نقل کر کے بیان کیا ہے کہ     ’’ بعض بزرگوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ تین دن سے کم میں بھی قرآن ختم کیا کرتے تھے ”۔ انہوں نے بعض لوگوں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ ایک دن میں ایک بار قرآن ختم کیا کرتے تھے اور بعض حضرات ایک دن میں دو قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺکے اس ارشاد کی رُوسے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا پسندیدہ نہیں ہے،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر مسنون عمل ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا بزرگ ہو، اگر وہ اللہ کے رسول ﷺ کی ہدایت کے خلاف کرتا ہے تو اس کا یہ عمل قابل ِاتباع نہیں ہے۔

آج کل رمضان المبارک میں بعض مساجد میں تین دن کی شبینہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض مساجد میں ایک دن کی بھی شبینہ ہوتی ہے۔ آٹھ گھنٹے، نو گھنٹے میں پورا قرآن ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے،اس میں قرآن سمجھ کر پڑھنے کی بات تو بہت دور کی ہے، صحیح طریقے سے قرآن سنا بھی نہیں جاسکتا۔ اس طرح قرآن پڑھنے اور سننے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓکہتے ہیں کہ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں کوئی ایک سورت ترتیل کے ساتھ پڑھوں ، یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں پورا قرآن بغیر ترتیل کے ختم کر لوں ۔ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سوال کیا کہ میں ’سور مفصل‘ ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں ۔ (سورۂ حجرات، جو چھبیسویں پارے میں ہے، وہاں سے آخر ِقرآن تک کی سورتوں کو’ سور مفصل ‘کہا جاتا ہے)  اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے فرمایا:’’یعنی تم اسی طرح قرآن کو جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو جس طرح شعر پڑھا جاتا ہے۔‘‘ گویا کہ انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔

قرآن کو ترنم اور قرأت کے ساتھ پڑھنے کی تاکید آئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

’’زیّنوا القرآن بأصواتکم‘‘ (ابو دائود:۱۴۶۸)

’’قرآن کو اپنی آواز سے زینت دیا کرو، یعنی اس کوترتیل سے پڑھا کرو‘‘۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

’’ لیس منا من لم یتغنّ بالقرآن‘‘ (بخاری: ۷۵۲۷)

’’جو شخص قرآن کو گاکر یعنی ترتیل کے ساتھ نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘

متعدد صحابہ کو اس معاملے میں شہرت حاصل تھی کہ وہ قرأت کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔مثال کے طور پر حضرت ابو بکر صدیق ؓکے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے باہری حصہ میں جائے نماز (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا رکھی تھی۔ وہاں وہ نماز بھی پڑھا کرتے تھے اور زور سے قرآت بھی کرتے تھے۔ مکہ کی عورتیں اور بچے، جو ایمان نہیں لائے تھے، ان کی آواز سن کر رک جاتے تھے اور بہت شوق سے ان کی قرأت سنا کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی آواز میں بہت سوز تھا۔ وہ جب قرآن پڑھا کرتے تھے تو سننے والے بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔خود اللہ کے رسول ﷺنے کئی مرتبہ ان کی قرآت سنی اور تعریف کی۔آپؐنے فرمایا:

’’ لقد أوتیت مزماراً من مزامیر اٰل داؤد‘‘ (بخاری: ۵۰۴۸)

’’تمہیں دائود علیہ السلام کی ایک موسیقی عطا کی گئی ہے۔‘‘

حضرت دائود علیہ السلام اپنے اوپر نازل کردہ کتابِ الٰہی زبور کی تلاوت بہت سوز سے کیا کرتے تھے۔حضرت ابو موسی اشعریؓکی تلاوت میں بھی سوز تھا۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ ان کی پر سوز قرآت کو بہت پسند کرتے تھے۔یہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کا معاملہ ہی نہیں تھا،بلکہ پورے قبیلۂ اشعر کی یہی خصوصیت تھی۔ ان کے یہاں قرآن کو بہت سوز کے ساتھ پڑھنے کا معمول تھا۔اس معاملے میں تمام قبائل میں ان کی تعریف کی جاتی تھی۔ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ صحابہ کرام ؓایک غزوہ میں تھے، انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ صبح جب تمام صحابہ اللہ کے رسول ﷺکی مجلس میں اکٹھا ہوئے تو آپؐ نے فرمایا:’’ مجھے نہیں معلوم کہ کس قبیلہ نے رات میں کس جگہ پڑاو ڈالا تھا؟لیکن میں نے قرآن کی آواز سن کر یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ فلاں جگہ پر اشعر قبیلہ کے لوگ ٹھہرے ہوئے ہیں ۔

قرآن خود پڑھنے کا جو اثر ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح کا اثر کسی دوسرے سے قرآن سننے کا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ دوسرے صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کرتے تھے اور ان سے قرآن سننے کی کوشش کرتے تھے۔حضرت عمر بن الخطاب ؓکے بارے میں آتا ہے کہ وہ اکثر حضرت ابو موسی اشعریؓ کو بلا لیا کرتے تھے اور ان سے کہتے تھے: ’’ہم کو راحت پہنچاؤ۔‘‘ابو موسیٰ اشعری ؓان کا مقصد سمجھ جاتے تھے اور فوراً قرآن کی تلاوت شروع کر دیا کرتے تھے۔

ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ نے خواہش کی کہ اے عبداللہ بن مسعود! میں تم سے قرآن سننا چاہتا ہوں ۔انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!آپ ہی پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ ہی سننا چاہتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں ، آج میری خواہش ہے کہ تم سے قرآن سنوں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے سورئہ نساء پڑھنی شروع کی۔ پڑھتے پڑھتے جب وہ آیت نمبر۴۱ پر پہنچے۔ وہ آیت یہ ہے:’’فکیف اذاجئنا من کل أمۃ بشھید، وجئنا  بک علیٰ ھٰولاء شھیداً ‘‘ (اے پیغمبر! آپ کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ہم تم کو ان کے خلاف گواہ بنا کر کھڑا کریں گے)۔ حضرت ا بن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے عجیب و غریب آواز سنی۔میں نے اپنی آنکھ کھول کردیکھاتو اللہ کے رسولﷺ زاروقطار رو رہے تھے۔ (بخاری :۴۵۸۲، مسلم:۸۰۰) ظاہر ہے کہ اس آیت میں جو تنبیہ کی گئی ہے، میدان حشر کا منظر کھینچا گیا ہے،اس میں پیغمبر کی بھی ذمہ داری یاد دلائی گئی ہے اور امت مسلمہ کی بھی،اس کی ہیبت سے اللہ کے رسول ﷺ پر گریہ کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔

فہم قرآن 

قرآن مجید کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھنا بھی باعث ثواب ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے قرآن پڑھا اس کے ہر حرف پر اسے نیکی ملے گی۔ ساتھ ہی آپؐ نے فرمایا:’’ الٓمٓ ایک حرف نہیں ، بلکہ تین حروف ہیں ۔ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ جو شخص قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھے گا وہ بھی اجر پائے گا، لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ اسے سمجھ کر پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا، اس میں غور و فکر کرنا اور اس کے معانی کی گہرائی میں جانا بہت زیادہ باعث ِ اجر ہے۔ اس کی وجہ سے اگر کوئی شخص قرآن کی تلاوت کم کرپاتا ہے تو اس کواس آدمی کے مقابلے میں زیادہ اجر ملے گا جس نے بغیرسمجھے بوجھے قرآن ختم کر لیا ہو۔ اصحاب ِ رسول جتنا قرآن پڑھتے تھے اس کو سمجھتے بھی تھے، اس بنا پر اس کا غیر معمولی اثر ہوتا تھا۔ قرآن میں ہے:

’’وَیَخِِرُّونَ لِلْا َذْقَانِ یَبکُونَ ویَزِیدُھُمْ خُشُوعًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۰۹)

’’جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو ان پر گریہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور ان پر بہت زیادہ خشوع اور خضوع کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔‘‘

صحابہ کرامؓ کا یہی معاملہ تھا کہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ دوران ِ تلاوت جنت کی آیات آتیں تو وہ تلاوت روک کر دعا کرنے لگتے تھے اور اگر جہنم کی آیات سے گزرتے تھے تو تلاوت روک کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے  تھے۔

قیام ِلیل

دوران ِ رمضان صحابۂ کرام کے درمیان قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کا معمول تھا۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’من قام رمضان ایماناً وّ احتساباً غُفر لہ ما تقدّم من ذنبہ‘‘(بخاری:۳۷، مسلم:۷۵۹)

’’جو شخص رمضان کی راتوں میں کھڑارہا، اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘

رمضان میں کھڑے ہونے سے مراد یہی ہے کہ اس میں نفل نمازیں پڑھیں اوران میں قرآن کی تلاوت کی۔ قرآن کی تلاوت باعث ِ ثواب ہے۔ آدمی غیر نماز میں تلاوت کرے گا تو بھی ثواب ملے گا، لیکن نماز میں قرآن پڑھنے کی غیر معمولی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھنے اورخاص طور پر نمازوں میں قرآن پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے۔

تمام صحابہ کو قرآن یکساں نہیں یاد تھا۔ کسی کو کم یاد تھا، کسی کو زیادہ یاد تھا۔چنانچہ ان کا معمول یہ تھا کہ وہ مسجد نبوی میں اکٹھا ہوتے تھے اور ان کی الگ الگ جماعتیں بن جاتی تھیں ۔ہر جماعت میں جس کو زیادہ قرآن یاد ہوتا تھا وہ امام بن جاتا تھااور جن لوگوں کو کم یاد ہوتا تھا وہ مقتدی بن جاتے تھے۔ یہ پورے رمضان میں صحابۂ کرام کا معمول رہتا تھا۔ احادیث میں ہے کہ ایک رات رسول اللہﷺ اپنے حجرے سے باہر آئے تو دیکھا کہ صحابہ مختلف جماعتوں میں نمازیں پڑھ رہے ہیں ۔ آپؐ کو دیکھ کر سارے صحابہ اکٹھا ہوگئے اور آپؐ نے ان کی امامت فرمائی۔ دوسرے دن جب صحابۂ کرام کو معلوم ہوا کہ رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امامت کی ہے تو جو لوگ پہلی رات میں جماعت میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ بھی آ گئے۔ اسی طرح تیسری رات میں بھی ہوا۔ لیکن چوتھی رات میں ،جب مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، حضر ت بلالؓ آپؐ کو اطلاع دینے گئے کہ صحابہ آپ کا انتظار کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:’’ نہیں ، آج میں نہیں نکلوں گا،کیوں کہ تمہارے اس درجہ ذوق و شوق کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھر تم کو بوجھ محسوس ہونے لگے۔‘‘ اس کے بعد صحابہ کرامؓ اپنے پچھلے معمول پر لوٹ گئے کہ مختلف جماعتوں میں شامل ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ یہی معمول حضرت ابو بکرؓکے دور میں بھی رہا۔

حضرت عمرؓ ؓنے اپنے دور میں تمام صحابہ کو ایک جماعت پر جمع کردیا۔ انہوں نے حضرت ابی بن کعبؓکو، جنہیں پورا قرآن یاد کیا تھا، امامت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابی بن کعبؓ ان چار صحابہ میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ تم ان سے قرآن سیکھو(بخاری:۳۸۰۸)۔ اسی طرح حضرت عمر ؓنے یہ بھی حکم دیا کہ بیس(۲۰) رکعت پڑھائی جائے۔ اس وقت سے بیس(۲۰) رکعات تراویح کی شکل میں پڑھی جارہی ہیں ۔ امت مسلمہ میں ابتدا سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ تراویح آٹھ پڑھنی چاہیے یا بیس؟ حالاں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ تراویح کی نماز نفل ہے اور نفل جتنی زیادہ سے زیادہ پڑھی جائے،اچھی بات ہے۔ اگر کوئی بیس(۲۰) سے زیادہ پڑھتا ہے تو بھی کوئی غلط کام نہیں کرتا ہے، بلکہ صحابۂ کرام کے ذوق و شوق کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بیس(۲۰) کی تعداد کے پابند نہیں تھے۔ جو شخص پوری رات نماز پڑھے گا، ظاہر ہے اس کی نمازیں آٹھ(۸) سے بھی بڑھ جائیں گی اور بیس(۲۰) سے بھی۔

اعتکاف   

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔ کتب احادیث و سیر ت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے یہاں بڑھ چڑھ کر اعتکاف کرنے کا معمول نہیں تھا۔ حتّیٰ کہ اکابر ِ صحابہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓکے بارے میں بھی کسی روایت میں یہ نہیں ملتا ہے کہ وہ اعتکاف کیا کرتے تھے۔ البتہ رسول اللہ ﷺ پابندی سے اعتکاف کرتے تھے۔ عام طور پر دس دن اور بعض مواقع پر آپؐ نے بیس دن کا بھی اعتکاف کیا ہے۔ امہات المؤ منین کے بارے میں بھی آتا ہے کہ حضور ؐ کی اقتدا میں وہ بھی اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے،لیکن زیادہ تر صحابہ کے بارے میں اعتکاف کی روایتیں نہیں ملتی ہیں۔

اعتکاف کا حکم یہ ہے کہ اگر آبادی میں کچھ لوگ اعتکاف کرلیں تو وہ سب لوگوں کی طرف سے کفایت کرجاتا ہے، لیکن اگر پوری آبادی میں سے کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو تمام لوگ اس سنت کو چھوڑنے کے قصور وار ہوں گے۔ اعتکاف کے لفظی معنیٰ ہیں جھک جانا،کسی چیز پر اس طرح اوندھے ہوجانا کہ اس کے علاوہ آدمی کو کسی اور چیز کی خبر ہی نہ رہے۔ مسنون اعتکاف رمضان کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے۔

اعتکاف اسی شخص کو کرنا چاہیے جو اپنے آپ کو دس دن وقف کرسکے اور اس عرصہ میں وہ ہر چیز سے لاتعلق ہوجائے۔

 لیلۃ القدر 

لیلۃ القدر کے بارے میں بھی صحابہ کرام ؓکے اہتمام کا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے یہاں مان لیا گیا ہے کہ رمضان کی ۲۷؍ ویں شب ہی شب قدر ہے۔چنانچہ صرف یہی ایک رات پوری طرح جاگ کر اس میں عبادتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، حالاں کہ احادیث سے اس کی تائید نہیں ملتی۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ  نے فرمایا کہ شب قدر آخر کی دس (۱۰)راتوں میں تلاش کرو۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آخری سات (۷)راتوں میں تلاش کرو، لیکن اکثر احادیث میں رمضان کی آخری دس (۱۰)راتوں میں سے طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس تعلق سے صحابۂ کرام کے یہ معمولات ملتے ہیں کہ وہ خود رات بھر جاگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ شب قدر میں اپنے گھر والوں کو اٹھاتے تھے۔اگر وہ نہیں اٹھتے تھے تو ان پر پانی چھڑک دیتے تھے۔

سفرمیں روزہ  

سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح اگرکوئی بیمار ہے تو اس کو بھی اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں قضاکر لے۔ ان دونوں معاملات میں ہمارے یہاں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ آدمی رمضان میں سفر کر رہا ہوتو اس کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔یہ معمول صحابۂ کرام کا بھی تھا۔اللہ کے رسولﷺ نے ان کو اجازت دے دی تھی کہ جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے روزہ نہ رکھے۔ اس سلسلہ میں متعدد واقعات ملتے ہیں۔

غزوات میں اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ صحابہ نکلتے تھے، دوسرے اسفار میں بھی نکلتے تھے۔ کچھ صحابہ روزہ رکھتے تھے،کچھ نہیں رکھتے تھے۔ جو لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے وہ سبکی محسوس نہیں کرتے تھے اور جو روزہ رکھتے تھے وہ بڑائی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ نہ کوئی ان کو ٹوکتا تھا نہ ان میں عیب نکالتا تھا۔ بلکہ بسااوقات جو لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے ان کی اللہ کے رسولﷺ تعریف کرتے تھے۔ایک مرتبہ آپؐ سفر میں نکلے۔آپ نے کہا کہ روزہ نہیں رکھنا ہے۔ اس کے باوجود بعض صحابہ نے روزہ رکھ لیا۔ آپؐ کچھ آگے بڑھے۔ آپؐ نے دودھ کا پیالہ منگوایا،اس کواوپر اٹھایا اور فرمایا:’’ لوگو!دیکھو،میں روزے سے نہیں ہو ں ۔ ‘‘یہ کہہ کر آپ نے دودھ پی لیا۔ آپؐ کودیکھ کر صحابہ کرام ؓنے روزے پر اصرار نہیں کیا۔

ایک مرتبہ آپ سفر پر گئے۔کچھ صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔ان میں سے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا۔ جن لوگوں نے روزہ رکھا وہ تھکے ہوئے تھے، وہ جا کر پڑگے۔جن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تھا ان میں طاقت تھی،انہوں نے خیمہ لگایا، لکڑیاں اکٹھا کیں، کھانا پکایا اور دوسرے لوگوں کے آرام کا خیال رکھا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ذھب المفطرون الیوم بالأجر‘‘ (مسلم:۱۱۹) ’’جن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا وہ آج اجر لے گئے۔‘‘

اس کے باوجود صحابۂ کرام کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں وہ روزہ رکھنے کو ترجیح دیتے تھے، بلکہ متعدد مواقع پر ملتا ہے کہ جب وہ جہاد کے لئے سفر کرتے تھے تو شروع میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے تھے، جب جنگ کا  موقع آتا تھا تو اس سے کچھ پہلے روزہ چھوڑ دیتے تھے،تاکہ جسم میں توانائی رہے۔ متعدد صحابہ کا عمل یہ رہا ہے کہ وہ عام حالات میں سفر میں بھی روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓسے ان کے شاگرد نے  پوچھا: بتائیے، سفر میں روزے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جو شخص روزہ نہ رکھے اس کو اللہ کی طرف سے رخصت ہے، لیکن جو روزہ رکھے اس کا عمل افضل ہے۔ اس لیے روزہ رکھنا بہتر ہے۔

حضرت عائشہ کے ایک شاگردکہتے ہیں :’’میں سفر میں حضرت عائشہ ؓکے ساتھ گیا۔ انہوں نے روزہ نہیں چھوڑا، برابر رکھتی رہیں ، یہاں تک کہ جب مکہ کے قریب پہنچ گئیں تب روزہ چھوڑا۔ حضرت انسؓ ایک دوسرے موقع کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دوسرے صحابی نے پوچھا کہ بتائیے، سفر میں روزہ رکھنا چاہے کہ نہیں ؟ انہوں نے کہا:’’ ہم حضرت ابو موسیٰ اشعریؓکے ساتھ تھے۔انہوں نے بھی روزہ رکھا۔ ہم نے بھی روزہ رکھا۔‘

ایک موقع پر بہت سخت ایام تھے۔کسی نے روزہ نہ رکھا۔صرف اللہ کے رسول ﷺ اورحضرت عبد اللہ بن رواحہؓنے روزہ رکھا۔ ایک صحابی اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں کاروباری آدمی ہوں ۔مجھ کو سفر کرنا پڑتا ہے۔ بعد میں روزے مجھ سے چھوٹ جاتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ سفر میں روزہ رکھ لوں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: کیا تم طاقت رکھتے ہو کہ روزہ رکھ سکو؟ کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں ، مجھ کو اس سے پریشانی ہوتی ہے کہ رمضان میں روزے چھوٹ جائیں اور بعد میں رکھو ں ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ٹھیک ہے، تم روزہ رکھ سکتے ہو۔‘‘

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے، لیکن روزہ رکھنا بہتر ہے۔ آج کل سفر آسان ہوگیا ہے اور رمضان میں روزہ رکھنے کا ماحول رہتا ہے، اس لیے اس میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

بچوں کاروزہ

آج کل تعلیم کا اتنا زور ہے کہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کو اگر روزہ رکھوائیں گے تو ان کی تعلیم متاثر ہوگی۔ بچہ روزہ رکھنا چاہتا ہے،لیکن ہم اسے روکتے ہیں ۔ صحابۂ کرام کا عمل اس کے خلاف تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھوانے کی تلقین کرتے تھے اور ان کی ہمت افزائی کیا کرتے تھے۔ نماز کے تعلق سے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:’’بچے جب سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو۔‘‘ (ابودائود:۴۹۵) کوئی بھی عبادت بالغ ہونے کے بعد فرض ہوتی ہے۔ بچوں پر نہ نماز فرض ہے نہ روزہ۔لیکن شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو عبادات کاعادی بنانا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنے سخت تھے۔انہوں نے رمضان میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کچھ کھا پی رہا ہے۔ انہوں نے اس کو درّہ لگایا اور فرمایا: ’’بدمعاش! ہم اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے ہیں اور توبڑا ہوکر بھی روزہ نہیں رکھتا۔‘‘ ایک صحابیہ حضرت رُبیع بنت معوذ ؓبیان کرتی ہیں کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچو ں کو بھی روزہ رکھواتے تھے، تاکہ وہ اس کے عادی بن جائیں ۔ یہاں تک کہ وہ جب بھوک کی وجہ سے رونے لگتے تھے تو ہم کھلونے دے کر ان کو بہلانے کی کو شش کرتے تھے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا تھا۔‘‘ اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ تمام عبادات کی طرح بچوں کوروزہ رکھنے کابھی شوق دلانا چاہیے اور ان میں شوق ہو تو انہیں روکنا نہیں چاہیے۔

صدقۂ فطر

 صدقۂ فطر کو اللہ کے رسولﷺ نے لازم قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓکہتے ہیں :’’ اللہ کے رسولﷺ نے صدقۂ فطر کو واجب قرارد یا ہے اور اس کے دو فائدے بیان کیے ہیں : ایک یہ کہ روزے میں جو کمی آجاتی ہے اس سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ دوسرے مساکین اور غریب لوگوں کے لیے عید کے دن کچھ کھانے کا انتظام ہوجاتا ہے۔‘‘ صدقۂ فطر کو رمضان ختم ہونے سے ایک دودن پہلے ضرورادا کردینا چاہیے۔ اگرصدقۂ فطر رمضان کے شروع میں دیدیا جائے تو غریب آدمی اس کو خرچ کرلے گا اور عید کے دن کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ صحابہ کرامؓعام طور پر۱۵؍رمضان کے بعد صدقۂ فطر نکالتے تھے، لیکن صدقۂ فطر کو عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کی حیثیت عام صدقہ کی ہوجائے گی۔

ادائیگی زکوۃ

ہمارے یہاں عام طور سے یہ معمول پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کا رواج صحابۂ کرام کے درمیان بھی تھا۔ اگرچہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کے پاس مال ہوجس کے اوپر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اس پر ایک سال پورا ہو جائے تو اس کو فوراً زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے،خواہ رمضان کا مہینہ ہویاکوئی اور مہینہ۔البتہ زکوۃ کی ادائیگی کو کچھ دنوں کے لیے ٹالا جاسکتا ہے۔ مثلاً کسی شخص پر رمضان سے تین چار مہینے پہلے زکوٰۃ فرض ہو گئی ہو تو اسے ٹال کر وہ رمضان میں ادا کرسکتا ہے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ، جو کہ بہت دولت مند صحابی تھے، یوں تو غیر رمضان میں کسی بھی وقت، جب اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان ہوتا تھا تو وہ صدقہ و خیرات دینے میں آگے آگے رہتے تھے، ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ خاص طور پر رمضان میں زکوٰۃ نکالنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

یہ چند باتیں خاص طور سے ماہ رمضان میں صحابۂ کرام کے معمولات کے بارے میں عرض کی گئیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

تبصرے بند ہیں۔