کہاں سے چھیڑوں فسانہ ،کہاں تما م کروں

سیف ازہر

سچ ہے کہ دنیا کبھی مسائل سے خالی نہیں رہی ہے لیکن مسائل اگر پیداکیے جائیں تو یہ ایک تشویش کن مرحلہ ضرور ہے ۔سواارب آبادی پر محیط وطن عزیز بھی اس وقت اتنے مسائل میں گھر اہواہے کہ ایک عام آدمی ان مسئلوں کو سمجھ تک نہیں پاتا ہے ۔کلیلہ ودمنہ میں ایک کہانی بہت دلچسپ ہے ۔ایک آدمی جنگل سے گزر رہا ہوتا ہے ۔اچانک شیر اس کاپیچھا کرتا ہے، آدمی بھاگتا ہے ،مسلسل بھاگتا ہے ۔اچانک سامنے ندی آجاتی ہے ۔آدمی بے چارے کو کہاں سوچنے سمجھنے کی فرصت وہ ندی میں کود جاتا ہے ا ورڈوبنے لگتا ہے کیونکہ اسے تیرنا بالکل بھی نہیں آتا ۔ندی میں کودنے کے بعدجب ڈوبنے لگتا ہے تو زور زور سے شور مچاتا ہے اتفاق سے ندی کے اس پار کھیتوں میں کام کر رہے کچھ لوگوں کی نظر اس ڈوبتے آدمی پر پڑتی ہے وہ دوڑ کر اس ڈوبتے شخص کوکسی طرح بچاتے ہیں ۔وہ آدمی زندگی اور سانس کوسمیٹ کردہشت زدہ حالت میں ایک طرف بھری دوپہر میں تیز تیزچلنے لگتا ہے ۔تھوڑی دور پر اسے ویرانے میں ایک چھوٹا سامکان نظر آتا ہے وہ دھوپ اور تھکن دور کرنے کے لیے اس مکان کے اند ر داخل ہوتا ہے مگر جیسے ہی وہ قدم رکھتا ہے دیکھتا ہے کہ اندر کچھ چور چوری کے مال کابٹورا کررہے ہیں وہ وہاں سے سر پٹ بھاگتا ہے ،بدحواسی کے عالم میں بھاگتے بھاگتے ایک گاؤں کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔گاؤں کے پاس ایک دیوار کا اسے تھوڑا سا سایہ نظر آتا ہے وہ آدمی سایہ حاصل کرنے کے لیے جیسے ہی دیوار سے پشت ٹیکتا ہے دیوار یکایک گر جاتی ہے اور اس آدمی کا کام تما م ہوجاتا ہے ۔میں نے اتنی لمبی کہانی اس لیے سنائی کیونکہ آج ہندستان کا ہر عام آدمی اسی صورتحال سے گزر رہا ہے ۔لو گ ابھی کشمیر کے معاملہ سے نکلے نہیں تھے کہ بھوپال فرضی انکاؤنٹر نے لوگوں کواپنے چپیٹ میں لے لیا۔مسلم پرسنل لا،یکساں سول کوڈ کامسئلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ جے این یو نجیب کا مسئلہ پیدا ہوگیا ۔نجیب کی گمشدگی اپنی جگہ پر سوالیہ نشان تھی کہ اسی دوران اچانک مودی کے ایک فیصلہ نے ملک کے اسی فیصدلوگوں کی نیند حرام کردی۔مودی نے 8؍نومبر کی شام کونوٹ بندی فیصلہ لیا ۔فیصلہ کیسا بھی ہو لیکن اگر وہ ملکی مفاد میں ہے اور اس سے کالا دھن رک سکتا ہے تو واقعی قابل ستائش ہے ۔مودی نے دعویٰ کیا کہ کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ گئے کہ دس مہینوں سے اس کی تیار ی چل رہی تھی ۔سوال یہ ہے کہ جب کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا تو تیاری کس نے کی اور کس چیز کی تیار ی کی گئی ۔صرف دوباتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ اس فیصلہ کے لیے کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ دوسرے یہ کہ مودی جی جھوٹ بول رہے ہیں ۔ہمیں یہ تسلیم ہے کہ یہ فیصلہ ملکی مفاد میں ہے ۔اس سے جعلی نوٹوں پر لگام لگانے میں مدد ملے گی مگر پھر سوال اٹھتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دوہزار کی جعلی نوٹ تیار نہیں کی جائے گی ۔کیا 2000؍ہزا رکی نوٹ سے دہشت گردوں کی مد دنہیں کی جائے گی۔اگر اس سے جعلی نوٹوں پر پابندی لگ سکتی ہے تو آئے دن اتنے نئے جعلی نوٹوں کی برآمدگی کی واردات کیسے پیش آتی ہے ۔صرف 18؍نومبر کوآسام میں2؍ہزار کے نئے نوٹ کے 64؍ہزار جعلی نو ٹ پکڑے گئے ۔مودی جی نے گوا میں خم ٹھونک کر کہا کہ اس فیصلہ سے غریب چین کی نیند سورہا ہے اور کالا دھن والوں کونیند کی گولی نہیں مل رہی ہے ۔مودی جی یہ جملہ کہنے سے پہلے ذراکسی ایک اے ٹی ایم کے سامنے جاکر دیکھ لیا ہوتا کہ اے ٹی ایم اور بینکوں کے سامنے کتنی لمبی قطاریں ہیں ۔ذرا جاکر دیکھتے تو اندازہ ہوجاتا کہ کون غریب ہے اور کون امیر ۔وہاں جاتے تو پتہ چلتا کہ لائن میں لگنے والے کتنے لوگ تمہارے اس فیصلہ سے بھوکے کھڑے ہیں اور کتنے لوگوں نے جاکر گرودواروں میں پیٹ بھرا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ آپ کو بھی پتہ ہے کہ عام حالات میں بھی امیر لائن نہیں لگاتا ،ان حالات میں کیوں لگائے گا ۔لیکن تمہارا اور تمہاری پارٹی کا تویہ رویہ رہاہے کہ جوتمہارے فیصلہ کے خلاف جائے اس کوگالی دو،اس کامذاق اڑاؤ اور اس کودیش دروہ کہہ دو۔ مودی جی چلو مان لیا آپ جاپان سے آئے تھے آپ کو پتہ نہیں تھا کہ ملک میں کیا حالات ہیں ۔لیکن دو دن بعدجو آپ نے حرکت کی وہ کسی بھی طرح ہضم ہونے والی نہیں ہے ۔آپ نے کہا کہ کڑا فیصلہ لینے کی میری عادت کڑک چائے بناتے وقت سے ہے ۔ایک طرف لائن میں لگنے والے مریض اور بیمار لوگ مررہے ہیں ،علاج کے لیے ترس رہے ہیں ،لوگوں کی شادیاں ٹوٹ رہی ہیں اور آپ ہیں کی اپنی کڑ ک چائے پر اپنی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں ۔مودی ہونے کے ناطے نہیں کم از کم وزیر اعظم ہونے کے ناطے شرم کرلیا ہوتا۔کم ازکم جن لوگوں کے پیسوں کو بلا کسی قانون کے ہائی جیک کر لیا ہے ان کاتومذاق مت اڑاتے ۔کم ازکم ان ماؤں پر ترس کھاتے جو آدھی رات کو جاکرلائن میں کھڑی ہوجاتی ہیں تاکہ صبح نہ سہی شام تک کم ازکم بچوں کے دوددھ کاانتظام کرلیں۔کم از کم ان 71؍جانوں پر کچھ شرم کر لیاہوتا جو اپنی جانیں لائن میں گنوا چکی ہیں ۔مودی جی اگر اس ملک کے لوگ خاموش ہیں تو آپ کی وجہ سے نہیں وہ صرف اس لیے خاموش ہیں کہ ہوسکتا ہے آپ کے اس فیصلہ سے کچھ ملک کافائدہ ہوجائے ۔اپنی تمام پریشانیوں کے باوجود تمہارے خلاف نہیں کھڑے ہورہے ہیں ،یہ ان کی کمزوری نہیں حب الوطنی ہے ۔آپ سے زیادہ حب الوطن ہیں آپ نے فیصلہ سنایا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں ۔آپ نے پولیس لگائی ہے مگر لاٹھیا ں وہ کھارہے ہیں ۔پیسہ ان کا ہے مگر ان پر ان کانہیں اب آپ کاقبضہ ہے ،اتنی قربانی کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حب الوطنی کاامتحان ہے تواس کوڈوب مر جانا چاہئے ۔لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں بی جے پی میں کوئی شرم سے ڈوب کر نہیں مر سکتا ۔آپ عوام کو صرف ڈھائی لاکھ میں شادی پر مجبور کرتے ہومگر تمہارالیڈر جناردھن ریڈی اپنی بیٹی کی شادی 500؍کروڑ میں کرتا ہے ۔آپ کہتے ہو بے ایمانوں کی نینداڑ گئی ہے مگر 91؍ہزار پانچ سواور ایک ہزار کے نوٹ آپ کے لیڈر کے پاس سے برآمد ہوتے ہیں اور آپ کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی ۔ سپریم کورٹ باربار آپ کو آگاہ کر رہا ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت یہی رہی تو سڑکوں پر فساد ہوسکتے ہیں مگر آپ ہیں کہ اپنے 56؍انچ کے سینہ کی ظاقت دکھا رہے ہیں ۔سیاسی پارٹیاں جو مخالفت کرتی ہیں آپ ان کویہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا جوپیسہ بوریوں میں بند تھا وہ بے کار ہوگیا ہے اس لیے چلا رہے ہیں ۔آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مودی ہندستان کے پہلے سب سے ایماندار وزیر اعظم ہیں ۔آپ لوگ اگر اتنے ہی ایماندار ہوتو جو اروندکجریوال کاغذات دکھا رہے ہیں اس کی جانچ کیوں نہیں کراتے ۔بڑی بڑی کمپنیوں سے جو مودی پر رشوت خوری کاالزام لگ رہا ہے وہ کیوں نظر نہیں آتا۔مان لیامودی جی کا یہ فیصلہ ایمانداری کاتہوار ہے ۔اس فیصلہ سے کالادھن رکھنے والوں کو نیند کی گولی کھا کر بھی نیند نہیں آتی مگر مودی جی نے گو ا میں کہا کاغذات کے نوٹ کے بجائے پلاسٹک کا نوٹ استعمال کریں ۔ذرا سوچیں پلاسٹک کے نوٹ کامطلب کیا بنتا ہے ۔کریڈت کارڈ ،ڈیبٹ کارڈ وغیر ہ یہ سب پلاسٹک نوٹ کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ذرا سوچو کہ کریڈٹ اورڈیبٹ کا رڈ کتنے لوگوں کے پاس ہے ۔17000؍سے نیچے کی ماہانہ آمدنی پر کریڈٹ کارڈنہیں8 بنتا۔آپ ذرا سوچیں ملک کی کتنی آبادی کی ماہانہ اتنی آمدنی ہے ۔ڈیبٹ کارڈ تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ سب کے پاس ہے۔مگر ملک کے کتنے ہوٹلوں میں یاسبزی فروشوں کی دکان پر ڈیبٹ کا رڈ سویپ ہوتا ہے ۔بڑے بڑے ہوٹلوں یا سبزی کے بڑے بڑے شوروم کے علاوہ ان سب کارڈ سے دائیگی کی تو بات درکنار کسی کے پاس تصور ہی نہیں ہے ۔اب اس ناہیہ سے بھی سوچو کہ مان لیا جائے کہ ہر شخص کو ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا چاہئے توذرا سوچو کہ اس سے کس کافائدہ ہوگا ۔چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کا یا بڑے بڑے ہوٹلوں کا ،چھوٹے سبزی فروشوں کا یا بڑے سبزی فروشوں کا۔ظاہر ہے بڑے ہی لوگوں کا فائدہ ہوگا ۔پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہ فیصلہملک کے غریب ایمانداروں کے حق میں ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو نوٹ بندی کے بعد آپ نے مالیاسمیت ملک کے بڑے قرض داروں کا 7000؍کروڑ کیوں معاف کردیا۔مودی جی اتنے ہی غریب نواز ہیں تو کوئی بتائے کہ انھوں نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں کسی کسان اور غریب کاکوئی ایک پیسے کا قرض معاف کیا ہے ۔جواب آئے گا نہیں،باتیں بہت ہیں مگر صرف آپ کی جانکاری کے لیے اتنا بتا دیتاہوں کہ انھوں نے اس ڈھائی سال میں امیروں کا1؍لاکھ 14؍ہزار کروڑ روپیہ معاف کیا ہے ،اور میں کیا کہوں۔۔
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ ،کہاں تمام کروں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔