معاملہ نوٹ بندی کا

پوراملک رورہاہے اورکشمیرچین سے سورہاہے
 الطاف حسین جنجوعہ

کرنسی نوٹوں پرپابندی کاکشمیرپرکوئی اثرنہیں،بنکوں میں بھیڑ نہ اے ٹی ایم مشینوں کے باہر لمبی قطاریں

ہر کوئی چھُٹے کیلئے رورہاہے،کوئی 2ہزارکے نوٹ کیلئے تڑپ رہاہے،کسی کودوائی کیلئے پیسہ نہیں،کسی کے پاس دووقت کی روٹی جٹانے کیلئے پھوٹی کوڑی نہیں،ہندوستان بھرمیں نوٹ بندی کے بعدصورتحال انتہائی سنگین ہے،اب تک56لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے،کوئی نوٹ نہ ہونے کے باعث بروقت علاج ومعالجے سے محروم ہوکردم توڑ بےٹھا،کسی نے دلبرداشتہ ہوکرخودکشی کرلی توکسی کے دِل کی دھڑکنیں ساتھ چھوڑگئیں،ایک دوشیزہ نے دن برقطار میں کھڑ ے رہنے کے باوجودنقدی نہ ملنے پرآپاکھودیااوراپنے کپڑے اُتاردئےے!ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی فکرمندی ظاہرکرتے ہوئے کہہ دیاکہ یہ لمبی قطاریں سنگین معاملہ ہے،دنگے ہوسکتے ہیں،کولکتہ ہائی کورٹ نے حکومت پربغےرہوم ورک کے یعنی بغےرسوچے سمجھے نوٹ بندی کافیصلہ لینے پرطنزکسا،لیکن کشمیرجوپچھلے4ماہ سے تشددکی لپےٹ میں رہا،90سے زائیدعام شہریوں کوگولیوں،پیلٹ گنوں کانشانہ بناکرموت کے گھاٹ اُتاردیاگیا،یہاں تصویرکارُخ ہی الگ ہے،نوٹ بندی کے معاملے میں جہاں پوراہندوستان رورہاہے وہیں کشمیراس معاملے میں چین وسکون کی نیندسورہاہے،کیونکہ 8نومبر 2016کو وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی طرف سے500اور1000روپے کے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے فیصلہ کے بعد ایک طرف جہاں پورے ملک میں افرا تفری، بے چینی اور مالی بحران جیسی صورتحال پید ا ہوئی وہیں دوسری اور وادی کشمیر میں اس کا کوئی واضح اثر دکھائی نہ دیا۔مرکزی وزیردفاع نے دعویٰ کیاتھاکہ500اور1000کے نوٹ پرپابندی عائدکرنے سے کشمیرمیں پتھربازی رُک گئی ہے،جس پرانہیں شدیدتنقیدکاسامناکرناپڑاتھااوران پرواضح کیاگےاتھاکہ پتھربازی سپانسرڈنہیں ہوتی! وادی جہاں گذشتہ چار ماہ کے زائد عرصہ سے طویل المدتی ایجی ٹیشن ، ہڑتال رہی ، کے باوجود بنکوں میں لوگوں کی بھیڑ کم دکھائی دی اور اے ٹی ایم مشینوں کے باہر بھی قطاریں نہ دیکھی گئیں بلکہ حسب معمول اکا دکا لوگ آتے رہے اور پیسے لیکر جاتے دیکھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشمیر میں مودی کے’نوٹ بندی ‘فیصلہ پر عوامی حلقوں میں زیادہ بحث وتمحیص ہوئی اور نہ ذرائع ابلاغ میں اس کو اتنی زیادہ اہمیت ملی جیسی صورتحال ملک کے دیگر حصوں یا خطہ جموں میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وادی کے بیشتر علاقوں میں بنکوں کے باہر نہ ہی قطاریں دکھائیں دیں اور ہی بنک شاخوں کے بعد امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے پولیس اہلکار نظر آئے۔ بنک حکام کے مطابق نوٹ بندی کی وجہ سے پید ا ہوئے مشکلات حالات کے باوجود کشمیر میں لوگوں نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔ جے کے بنک کے ایک سنیئر افسر کا کہنا ہے کہ ”ہندوستان کے دیگر حصوں کی طرح کشمیر میں لوگ ’ہینڈ ٹو ماو ¿تھ‘نہیں رہتے، یہاں پر اشیاءخوردو نوش ودیگر روزمرہ استعمال کی چیزوں کو کئی ماہ کے لئے سٹور کر کے رکھنے کا کلچر ہے تاکہ سردی ترین موسم اور کرفیو کے دوران انہیں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے“۔ کشمیر میں ایک طرف جہاں چھ ماہ شدت کی سردی ہوتی ہے وہیں گرمائی ایام کے دوران بھی زیادہ تر ہڑتالیں، کرفیو، ایجی ٹیشن وپابندیاں رہتی ہیں، اس وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں کئی کئی ماہ کے لئے راشن ودیگر ضروریات زندگی سٹور کر کے رکھتے ہیں،بلکہ بیشتر گھروں میں تو ایسا ہے کہ وہاں تک سال سے زائد کا سٹور ہے۔اقتصادیات کے نامور تجزیہ نگار اور جموں وکشمیر بنک میں کارپوریٹ کیمونی کیشن ڈپارٹمنٹ اور سی ایس آر انچارج سجاد بزاز نے اس حوالہ سے اڑان سے کہاکہ اس کی تین اہم وجوہات ہیں۔ نوٹ بندی فیصلہ کے اعلان کے بعد ریزرو بنک آف انڈیا کی طرف سے جوگائیڈ لائنز آئیں، ان کے مطابق فوری طور جموں وکشمیر بنک نے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ انگریزی، اردو، ہندی ، کشمیر ی زبانوں میں اس بارے پورا طریقہ کار بتایا، اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی جس کو لوگوں نے پڑھا تو وہ مطمئن ہوگئے کہ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سجاد بزاز کے مطابق وادی کشمیر میںلوگوں کو جموں وکشمیر بنک پر بہت زیادہ اعتماد اور بھروسہ ہے، RBIکی طرف سے جاری ہدایات پر عمل کرنے سے قبل وہ کم سے کم دو تین مرتبہ سوچتے ، شاہد پریشان بھی ہوتے لیکن جب جموں وکشمیر بنک نے اشتہارات کے ذریعہ ’نوٹ بندی‘سے متعلق پوری تفصیل بتائی تو لوگوں کو حوصلہ ہوا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اقتصادی امور کے تجزیہ نگار سجاد بزازکا مزید کہنا تھاکہ کشمیر میں بنکوں میں بھیڑ اور اے ٹی ایم مشینوں کے باہر قطاریں نہ لگنے کی دوسری بڑی وجہ یہ رہی کہ وادی کشمیر میں لوگ صاف وشفاف طریقہ سے کاروبار کرتے ہیں، ہندوستان بھر میں جموں وکشمیر بالخصوص وادی کشمیر کے اندر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی زیادہ مانیٹرنگ رہتی ہے، لہٰذا لوگ گھروں کے اندر زیادہ قیمتی اثاثے (زیورات اور نقدی)رکھنے کا خطرہ مول نہیں لیتے کیونکہ کسی بھی وقت تلاشی ہوسکتی ہے یاپھر فائرنگ یاآفات سماویہ کی وجہ سے مکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ستمبر2014میں وادی کے اندر آیاسیلاب اس کی ایک بڑی مثال ہے، اگر لوگوں نے اپنے قیمتی اثاثے گھروں کے اندرہی رکھے ہوتے تو پھر تو سیلاب کے بعد تو ان کے پاس کچھ نہ بچتا، اگر اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی سیلابی تباہی کے باوجود لوگ از سرنو آشیانے تعمیر کرنے یا زندگی کو پٹری پر لانے میں کامیاب رہے تو اس میں سرکاری امداد کے علاوہ لوگوں کا بنکوں میں بچہ کھچا پیسہ بھی اہم وجہ رہا۔ کشمیر میں رھیڑی فروش سے لیکر بڑا تاجر سبھی بنکوں کے ذریعہ ہی اپنا کاروبار کرتا ہے۔ سجاد بزاز کے مطابق ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم طبقہ کے لوگ بنکوں میں اپنا پیسہ جمع نہیں کرتے جبکہ وادی کے اندر یہ رحجان زیادہ ہے کیونکہ ان کے لئے اس کے بغیرکوئی چارہ بھی نہیں۔سجاد بزاز کے مطابق تیسری وجہ کشمیر میں آئے روز ہونے والی ہڑتالیں ، کرفیو اور سرد موسم ہے۔ جموں وکشمیر ماہر اقتصادیات پروفیسر نصار علی کا کہنا ہے ”130دنوں تک وادی میں پوری اقتصادی سرگرمیاں ٹھپ رہیں، گذشتہ چار ماہ کے دوران کوئی تجارت اور لین دین نہ ہوا، جوکہ معمول کی اقتصادی سرگرمی کے لئے ضروری ہے، لوگوں کے پاس جوکچھ تھا وہ کرفیو کے دوران خرچ کردیا، اب ان کے پاس اتنا پیسہ تھانہیں کہ وہ ایکسچینج کے لئے بنکوں میں جاتے“۔ پروفیسر نثار علی کا ماننا ہے کہ کشمیر کے اندر بنکوں میں بھیڑ نہ ہونے کی ایک وجہ مئی تا وسط اکتوبر تک رہا ’شادی سیزن ‘بھی ہے، موجودہ صورتحال کی وجہ سے کشمیر میں 4ہزار سے زائد شادیاں ملتوی کر دی گئیں، لیکن اس کے باوجود بنک حکام بھیڑ سے نپٹنے کے لئے کوئی چانس لینا نہیں چاہتے۔ جموں وکشمیر بنک جس کے 70فیصد اقتصادی سرگرمیاں کشمیرمیں ہیں، نے بزنس اوقات 2-3گھنٹے بڑا رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ماہ کے لئے سبکدوش ملازمین کی عارضی خدمات حاصل کرنے کے لئے بھی اشتہار دیاگیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر ملک کی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں پر 2ہزار روپے کے نئے نوٹ آخر میں پہنچے ہیں۔ وادی کے عام شہریوں کے مطابق کشمیر کے اندر ’باہمی سماجی اعتماد اور افہام وتفہیم‘سے بھی لوگوں کو اس مشکل وقت میں جینے کی کافی مددد ملی۔ سرفراز احمد جوکہ سیمنٹ اور ہارڈ ویئر کا کاروبار کرتے ہیں ، نے بتایاکہ ” ان کے گھر کے سامنے روزمرہ استعمال کی ایک دکان ہے، جہاں سے انہوں نے ضروری ادھار چیزیں خریدیں اور دکاندار سے کہاکہ وہ اس کو رواں ماہ کے آخر میں پیسیں دے گے، دکاندار نے مان لیا کیونکہ اس کے کوئی متبادل نہ ہے“۔ گریٹر کشمیر اخبار میں بزنس اور اقتصادیات کے مدیر انعام الحق کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی فیصلہ کا یقینی طور پر کشمیر میں اثر پڑے گا اگر چہ یہ فوری طور دکھائی نہ دے رہا ہے۔ گذشتہ27برسوں کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے کشمیر کی اقتصادیات نے بہت کھٹکن وقت دیکھا ہے، ہرسال جب ناسازگار موسم کی وجہ سے قومی شاہراہ بند ہوجاتی ہے تو باہری دنیا سے مکمل طور رابطہ منقطع ہوجانے کے باوجود لوگ اپنے بل بوتے پر زندہ رہتے ہیں۔ کرفیو، ہڑتالوں، ایجی ٹیشن، سرد موسم اور دیگر تلخ تجربات نے کشمیریوں کو ہرطرح کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا ہنر سکھا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ایکطرف جہاں بحران جیسی صورتحال بنی ہوئی تو وہیں کشمیر کے لوگ اس حوالہ سے پرسکون ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔