یوپی الیکشن اور مسلم ووٹ کی اہمیت
سہیل انجم
آزادی کے بعد سے ہی انتخابات کے دوران مسلم ووٹوں کی اہمیت مسلّم رہی ہے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ان کے حصول کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ 2014 سے قبل بی جے پی بھی مسلم ووٹوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی تھی۔ بلکہ اب بھی دیکھتی ہے۔ طلاق ثلاثہ سمیت دیگر کئی فیصلوں سے یہی مترشح ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتی۔ مسلم ووٹوں کی حصولیابی کی کوشش میں سیاست داں ’بااثر‘ مسلمانوں کے درِ دولت پر حاضری بھی دیتے تھے۔ بہت سے ’سمجھدار‘مسلمان اس کا فائدہ بھی اٹھاتے۔ کچھ کی جھولی میں پارلیمنٹ یا اسمبلی کی رکنیت آتی تو کچھ کے سروں پر کارپوریشنوں اور دیگر اداروں کی سربراہی کا تاج سجتا۔ کچھ ایسے بھی ہوتے جو دِرہم و دینار سے اپنی جھولی بھر لیتے۔ تجارتی ذہن رکھنے والے ’سوداگر‘ اپنی اونچی بولی لگاتے تو کچھ ناسمجھ کم قیمت میں ہی اپنا سودا کر لیتے۔ اس سیاسی رجحان کی وجہ سے بہت سی مذہبی شخصیات بھی میدانِ سیاست میں قسمت آزمائی کرنے لگیں جن میں سے کچھ کامیاب ہوئیں تو کچھ ناکام۔ اصحاب جبہ و دستار کی جماعت کی جماعت انتخابی میدان میں نکلتی اور امیدواروں کے اسٹیج پر اپنے زور خطابت کے جوہر دکھاتی اور بدلے میں اپنا دامن بھر لیتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس رجحان کی وجہ سے متعدد مخلص مسلم قائدین بھی پیدا ہوئے جنھوں نے ملت اسلامیہ کی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنایا۔ لیکن 2014 سے جو سیاسی ہوا بدلی تو پھر ایسے تمام لوگ ہوا ہو گئے۔ نریندر مودی نے جو کہ وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار تھے، اُس پارلیمانی انتخاب میں وہ جادو جگایا کہ مسلم ووٹوں کی اہمیت صفر ہو کر رہ گئی۔ اترپردیش میں 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور پھر 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی ہندوتو اور نام نہاد قوم پرستی کا ایسا ماحول بنایا گیا کہ مسلم ووٹوں کی اہمیت تو ختم ہوئی ہی ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں مسلم نمائندوں کی تعداد بھی بے انتہا گھٹ گئی۔ 2002 میں جہاں یوپی اسمبلی میں سب سے زیادہ 64 مسلمان پہنچے تھے وہیں 2017 میں سب سے کم 23 مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوئے۔ لیکن مغربی بنگال میں 2021 کے اسمبلی انتخابات میں وہاں کے مسلمانوں نے جس سمجھداری اور دوراندیشی کا ثبوت دیا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ورنہ اس سے قبل پارلیمانی انتخابات ہوں یا اسمبلی انتخابات مسلم اکثریتی حلقوں میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بیشتر بی جے پی امیدوار کامیاب ہو جاتے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوپی کے مسلمانوں نے بھی مغربی بنگال والی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اترپردیش میں 143 اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان انتخابی نتیجے کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2007 میں مسلمانوں نے تقریباً اجتماعی طور پر بی ایس پی کے حق میں اپنا ووٹ پول کیا تھا۔ 2012 میں انھوں نے سماجوادی کو ووٹ دیا۔ لیکن 2017 میں مسلم ووٹ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس میں بٹ گیا اور بی جے پی ہندوتو کے رتھ پر سوار ہو کر انتہائی شاندار انداز میں ایوان حکومت میں داخل ہو گئی۔ ان 143 حلقوں میں سے 73 میں مسلم آبادی بیس سے تیس فیصد اور 40 حلقوں میں تیس فیصد سے زائد ہے۔ پہلے مرحلے میں دس فروری کو مغربی یوپی کے 58 حلقوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے ان میں سے 53 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یوپی میں مجموعی طور پر مسلم آبادی بیس فیصد ہے۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق مرادآباد اور سمبھل میں 47 فیصد سے زائد، بجنور میں 43 فیصد، سہارنپور میں تقریباً 42 فیصد اور مظفر نگر، شاملی اور امروہہ میں تقریباً 41 فیصد مسلم آبادی ہے۔ پہلے مرحلے میں کیرانہ، مظفر نگر، ہاپوڑ، علیگڑھ، بلند شہر اور غازی آباد میں، جہاں کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے، پولنگ ہوگی۔ اس بار مغربی یوپی کے تقریباً تمام حلقوں میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کسان تحریک، مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر کئی ایشوز ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو سخت حالات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ عوام اس بار اس کے ہندو مسلم ڈرامے میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔ 2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات میں مظفر نگر کے فساد نے بھی بی جے پی کے حق میں کھاد کا کام کیا تھا لیکن اس بار اس کی فصل کٹتی نظر نہیں آرہی۔ رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھ گئے ہیں کہ بی جے پی کے پاس ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کے علاوہ اور کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جذباتی ایشوز کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الحال وہ اس میں ناکام ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو یہ الیکشن ان کے لیے ایک سنہری موقع کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ انھیں اپنی دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہے اور سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دے کر انتخابی نتائج پر اثر ڈالنا ہے۔ اس وقت لوہا گرم ہے بس متحد ہو کر اس پر ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔ ویسے جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس بار وہ سیاسی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت نہیں دیں گے۔ حالانکہ میدان میں بہت سے دوسرے شکاری بھی موجود ہیں جو مسلم ووٹروں پر جال پھینک رہے ہیں۔ انھیں ان شکاریوں سے بچ کر رہنا ہے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پانچ سالہ دور حکومت مسلمانوں کے لیے بڑا اذیت ناک رہا ہے۔ حکومت کے فیصلوں سے مسلمانوں کے کاروبار تباہ ہو گئے۔ ان کی روزی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ ان کے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ دوسرے طبقات تو پریشان ہیں ہی مسلمانوں کی پریشانیاں ان سے زیادہ ہیں۔ مسلم ووٹوں کی اہمیت ختم ہونے کے کئی نقصانات ہیں۔ ایسی صورت میں فسطائی قوتیں آسانی سے کامیاب ہو جاتیں اور مسلم اور سیکولر امیدواروں کی شکست ہو جاتی ہے۔ ایوان حکومت میں مسلم اور سیکولر نمائندوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس صورت میں جو حکومت قائم ہوتی ہے اسے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ ان کے لیے نہ تو فلاحی اسکیمیں بناتی ہے اور نہ ہی ان کے مسائل کے حل کرانے میں کوئی دلچسپی لیتی ہے۔ ورنہ خواہ دکھانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو اقلیتوں اور کمزور طبقات کے لیے پروجکٹ بنائے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں جہاں حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہیں، مسلم ووٹوں کی اہمیت کی بحالی بے حد ضروری ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے وہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ فسطائیت، فرقہ واریت اور نام نہاد قوم پرستی و ہندوتو کے ابھار سے پریشان ہے اور اس صورت حال کو بدلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں اگر مسلمان بھی عوام کے اس طبقے کا ساتھ دیتے ہوئے دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں تو موجودہ صورت حال کو بدلا جا سکتا ہے۔ بعض سرکردہ مسلمانوں اور مبصروں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو کسی ایک جماعت کے حق میں اجتماعی طور پر ووٹ ڈالنے کے بجائے امیدواروں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہیے اور جو امیدوار فسطائی قوتوں کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہوں انھیں کامیاب بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کو ایسے کسی رویے سے بچنا چاہیے جس میں کوئی سیاسی پارٹی یہ خوش فہمی پال لے کہ مسلمان جائیں گے کہاں۔ ہمیں ووٹ دینے کے علاوہ ان کے سامنے کئی اور چارہ نہیں ہے۔ لیکن سیاسی ذہن رکھنے والے بعض مسلم مشاہدین کا خیال اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جسے بھی ووٹ دیں اس کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے اس کی حمایت کی ہے تاکہ وہ ان کے لیے فلاحی اسکیمیں بنائے۔ بہرحال مسلمانوں کو بہت ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اگر یہ کہا جائے کہ یوپی کا الیکشن وہاں کے مسلمانوں کے لیے ایک امتحان ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہندوتو کی آندھی میں مسلم ووٹوں کی اہمیت پوری طرح ختم ہو گئی تھی۔ اس اہمیت کی بحالی کا ایک موقع ہاتھ آیا ہے جسے اگر گنوا دیا گیا تو پھر لمحوں کی خطا صدیوں کو بھگتنی پڑے گی۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔