یہودیت میں تصوّراتِ امن – (قسط 1)

تمدن کے ارتقاء کے لیے امن و امان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ یہود میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعائے امن اس بات کی دلیل ہے کہ کرۂ ارضی کی فلاح اور اس کی معاشی و تمدنی ترقی کا انحصار امن پر ہے۔جہاں امن ہو گا وہیں اقتصادی خوش حالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ عہد نامۂ قدیم میں امن کی اہمیت اس کی درج ذیل تعلیمات سے عیاں ہے:
’’جو امن و امان کے لیے کام کرتے ہیں، خوشی پائیں گے‘‘۔ (امثال: 12:20)
’’پاک اور فرماں بردار رہو۔ لوگ جو امن سے محبت کرتے ہیں ان کی نسل ایک اچھا مستقبل پا ئے گی‘‘۔ (زبور،37:37)
’’ امن کے لیے کام کرو، امن کی کوششوں میں لگے رہو جب تک ا سے پا نہ لو‘‘۔ (زبور،34:14)
’’اے خداوند! برے لوگوں کو سزا دے….. اِسرائیل میں امن قائم رہے‘‘۔(زبور، 125:5)
’’خدا حکم راں ہے ….. وہ اپنی سلطنت میں امن و امان قائم کر تا ہے‘‘۔
(ایوب، 25:2)
یہودی تعلیمات کے مطابق بھلائی اور نیکی کے فروغ کے لیے امن کا قیام ناگزیر ہے۔ ان میں امن کو اہم قرار دیا گیا ہے اوراس کے قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے:
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو اسے صلح کا پیغام دینا‘‘۔ (استثناء،20:10)
یہودی جب کسی شہر کا محاصرہ کرتے تو کبھی اسے چاروں طرف سے نہ گھیرتے، بلکہ ہمیشہ ایک طرف کا حصہ بھاگنے اور فرار ہونے والوں کے لیے کھلا چھوڑ دیتے تھے۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ کسی ملک سے جنگ شروع کرنا یہودیوں کے لیے قومی اور ذاتی طور پر ایک آزمائش ہوتی تھی اور یہ ان کی امن پسند فطرت کی بدولت ہوتا تھا۔1؂
لفظِ امن اور یہودی لٹریچر
عہد نامہ قدیم میں جابجا امن وسلامتی کا تذکرہ ہے۔ اس کے لیے اس میں ’شالوم‘ کا لفظ مستعمل ہے۔ اس لفظ کے بارے میں ’قاموس الکتاب‘ کا مؤلف لکھتا ہے :
’’اس بیش قیمت لفظ میں مفہوم کا ایک خزانہ پنہاں ہے۔ اردو کا کوئی لفظ بھی اس کے پورے مفہوم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے مترجمین نے مختلف الفاظ استعمال کر کے اس کے معنوں کو ادا کیا ہے۔ ….. اس لفظ میں کاملیت ، صحت، خیر، خوش حالی، صلح، سلامتی، امن اور چین کے مفہوم موجود ہیں۔یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ کیتھولک مترجمین نے سلامتی اور صلح کے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ پروٹسٹنٹ مترجمین نے اردو محاورے کا زیادہ لحاظ رکھا ہے۔۔۔۔قاموس الکتاب میں عہد نامۂ قدیم و جدید کے مختلف ابواب میں اس عظیم لفظ کے مفہوم میں دنیاوی اقبال مندی کا تصوراور جسمانی صحت کے معنی درج ہیں، لیکن اس سے روحانی بہبودی بھی مراد ہو سکتی ہے۔ ایسی سلامتی صداقت اور راست بازی کی ہم جولی ہے، لیکن بدی کی نہیں‘ اس کا شریروں سے کوئی واسطہ نہیں۔ چوں کہ انسان کے گناہ کی وجہ سے دنیا میں ابتری پھیل گئی تھی اور صلح اور امن صرف خدا کی بخشش ہیں، اس لیے موعودہ مسیح کے عہد کے منتظر لوگ امن کے زمانے کے امید میں بیٹھے تھے، یعنی وہ سلامتی کے شہزادہ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘2؂
نئے عہد نامہ میں شالوم کے لیے یونانی لفظ eireneہے۔ یونانی کلاسیکی ادب میں اس لفظ کے مفہوم کا زور منفی تھا، جیسے جنگ کا نہ ہونا ، جھگڑے سے فراغت، لیکن ہفتادی مترجمین کی بدولت اس یونانی لفظ میں پرانے عہد نامہ کے شالوم کا پورا مفہوم سمو دیا گیا ہے اور یہ اکثر ایک روحانی پہلو کا حامل ہے۔ اس لفظ کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اسے بائبل کے بعض کلیدی الفاظ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے ، مثلا فضل، (فضل اور اطمینان۔ کیتھولک سلامتی)(زندگی ‘راست بازی اور میل ملاپ ، ریفرنس بائبل کے حاشیہ میں اطمینان۔ کیتھولک ترجمہ میں صداقت اور سلامتی)۔ اس لفظ کا برکت کے کلمات میں استعمال اس کی اہمیت کو اور نمایاں کرتا ہے۔ گناہ آلودہ انسان کے لیے پہلا ضروری قدم خدا سے صلح اور میل ہے۔3؂
عالم گیر امن کا دور
عہد نامہ قدیم میں بنی اسرائیل کے دو جلیل القدر انبیاء سیدنا یرمیاہ اور سیدنا یسعیاہ کی نبوتیں عالمی امن کی نوید ہیں۔ ان کا دور نبوت چالیس برسوں پر محیط ہے۔ اس دور میں یہوداہ کے پانچ بادشاہوں (یوسیا ہ، یہوآخز، یہو یقیم، یہو یاکین اور صدقیاہ) نے حکومتیں کیں۔بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے یہ چشم دید انبیاء ہیں۔ سیدنا یسعیاہ انبیاء بنی اسرائیل میں ممتاز ترین مقام رکھتے ہیں۔ انہیں طائرانِ نبوت کا شاہین اور عہد قدیم کا مبشر جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔سیدنا یسعیاہ اور سیدنا یرمیاہ کی یہ رویا عالمی امن کی تمہیدہیں۔ امن عالم کی یہ نوید یں اور ان کی تعبیریں مذاہب ثلاثہ کے لیے رہ نما ہیں۔ کتاب یسعیاہ میں ہے:
’’وہ بات جویسعیاہ بن آموص نے یہوداہ اور یروشلم کے حق میں رو یا میں دیکھی۔ آخری دنوں میں یوں ہوگا کہ خداوند کے گھر کا پہاڑ، پہاڑوں کی چوٹی پر قائم ہو گا اورسارے پہاڑو ں سے بلند ہو گا۔ سبھی ملکوں کے لوگ وہاں جا یا کر یں گے اور کہیں گے کہ ہمیں خداوند کے پہاڑ پر جانا چا ہئے، ہم کو یعقوب کے خدا کے گھر میں جانا چا ہئے اور خدا ہمیں اپنیرا ہیں بتا ئے گا اور ہم اس کے راستو ں پر چلیں گے، کیوں کہ یروشلم میں کو ہ صیون پر خدا کے کلام کا آغاز ہو گا اور وہاں سے شریعت رو ئے زمین پر پھیلے گی۔وہ کئی قوموں کے درمیان انصاف کر ے گا اور بہت سی دوسری قوموں کے لیے فیصلہ کرے گا۔ وہ اپنی تلوارو ں کو توڑ کر بھالے بنا ئیں گے اور لوگ اپنے بھا لوں کا استعما ل درانتی بنانے میں کریں گے۔ ایک دوسرے سے جنگ نہ چھیڑ یں گے اور وہ لوگ کبھی جنگ کا فن نہیں سیکھیں گے۔اے خاندانِ یعقوب !آؤ، ہم لوگ خدا کی روشنی میں چلیں۔‘‘(یسعیاہ،2:1۔5)4؂
انسانی زندگی کا تقدس
یہودی مذہب میں انسانی زندگی کو بہت تقدس حاصل ہے۔ تخلیق انسانی دوسری تمام مخلوقات کی نسبت حکمت وقدرتِ الہٰی کا ممتاز عمل ہے۔ انسان اپنے مزاج ،اپنے مقام ،اپنی سرشت یعنی اپنی فطرت میں اعلیٰ وارفع صلاحیتوں اور طاقت وفعالیت جیسی صفات کی وجہ سے دنیا میں نیابتِ الہی سے متصف ہوا۔ گویا جہاں وہ خدا کی شبیہ ’احسن التقویم‘ بن کر آیا وہیں اس کا نمائندہ بھی بنا۔ گو بدن مٹی سے تشکیل پایا، لیکن اس میں روح امر الہٰی ہے اور اسے اپنی صورت سے تمثیل دینا عجز و شرفِ انسانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان گناہ یا گم راہی میں گرتا ہے تو دراصل اس حسنِ ازل کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے۔ عہدنامۂ قدیم میں ہے :
’’ اِس لیے خدا نے انسان کو اپنی ہی صورت پر پیدا کیا اور خدا نے اپنی ہی مشابہت پر انسان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو مرد اور عورت کی شکل و صورت بخشی۔‘‘(پیدائش، 1:27)
یہودیت کے مطابق اگر ایک انسان کا خون بہایا جائے تو اس کا بدلہ خون ہے۔ عہد نامہ قدیم کے مطابق کسی انسان کو زندگی بخشنا خدا کو باقی رکھنے کے مترادف ہے۔کتاب پیدائش میں ہے:
’’اِس لیے کہ خدا نے انسان کو اپنی مشابہت پر پیدا کیا ہے۔ اس لیے جو کو ئی بھی کسی شخص کا خون بہاتا ہے تو دوسرا شخص اس کا خون بہا ئے گا۔‘‘ (پیدائش،9:6)
عدل و انصاف کے بغیر عبادت مقبول نہیں
یہودیت میں امن و امان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ قربانی، ہدیہ، عید جیسی عبادات اور عدل و انصاف کی اہمیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب معاشرے میں عدل و انصاف ہو گا تو لازمی طور پر امن و امان بھی قائم ہو جائے گا۔ یعنی یہودیت میں اس وقت تک عبادت مقبول نہیں جب تک امن و امان قائم نہ کیا جائے:
’’خداوند فرماتا ہے!تمہاری کثیر التعداد قربانیاں میرے کس کام کی ہیں؟ بچھڑوں کی سوختنی قربانیوں سے اور فربہ جانوروں کی چربی سے میرا جی بھر چکا ہے ، بیلوں ، برّوں اور بکروں کا خون میری خوشی کا باعث نہیں۔ کون کہتا ہے کہ میری بارگاہ میں چلے آؤاور میرے آنگنوں کو پاؤں سے روندو؟ باطل ہدیے لانے سے باز آؤ۔ تمہارے بخور سے مجھے سخت نفرت ہے۔ نئے چاند ، سبت اور عید کے اجتماع … اور تمہاری ناشائستہ محفلیں میں برداشت نہیں کر سکتا۔ تمہارے نئے چاند کے تہواروں اور تمہاری مقررہ عیدوں سے میری جان کو نفرت ہے۔ وہ میرے لیے ایک بوجھ بن گئی ہیں۔ میں انہیں برداشت کرتے کرتے عاجز آچکا ہوں۔ جب تم دعا میں اپنے ہاتھ اٹھاؤ گے تو میں تم سے منہ موڑ لوں گا۔ تم چاہے کتنی دعائیں کرو، میں نہ سنوں گا۔ تمہارے ہاتھ خون آلودہ ہیں۔ اپنے آپ کو دھو کر پاک کر لو۔ اپنے برے اعمال کو میری نگاہوں سے دور لے جاؤ۔ بد فعلی سے باز آؤ ، بھلائی کرنا سیکھو۔ انصاف طلب بنو۔ مظلوموں کی حوصلہ افزائی کرو ، یتیموں کے حقوق کا تحفظ کرو اور بیواؤں کے حامی ہو۔‘‘(یسعیاہ، 1:11۔17)
عہدنامۂ قدیم میں ایک اور جگہ عدل و انصاف اور امن وامان کو خدا کی نجات کا نام دیا گیا ہے:
’’یقیناًاس کی نجات ان کے قریب ہے جو اس سے ڈرتے ہیں، تاکہ اس کا جلال ہمارے ملک میں بسے۔ شفقت اور راستی باہم ملتے ہیں۔ راست بازی اور امن ایک دوسرے کا بوسہ لیتے ہیں۔ زمین سے صداقت پھوٹتی ہے اور راست بازی آسمان پر سے جھانکتی ہے۔ بے شک خداوند اچھی چیز ہی عنایت کرے گا اور ہماری زمین اپنی پیداوار دے گی۔ راست بازی اس کے آگے آگے چلے گی اور اس کے قدموں کے لیے راہ تیار کرے گی۔‘‘ (زبور، 85:9۔13)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت میں سماجی نا انصافی انسانی خون کرنے کے مترادف ہے۔ غریبوں کے لیے ان کی روٹی ان کی زندگی ہے اور جو کوئی اس کو ان سے روکے وہ گویا غریبوں کا قاتل ہے۔ جو کوئی ہم سائے کی روزمرہ کی خوراک چھینتا ہے یا اس سے محروم رکھتا ہے ، وہ اسے گویا قتل کرتا ہے۔ جو مزدور کی مزدوری میں ہیرا پھیری سے کام لیتا ہے ، وہ اس کا خون بہاتا ہے۔ ایسے شخص کی کوئی عبادت خدا کو منظور نہیں جو اس کی عبادت کرنے کا خواہش مند تو ہو، لیکن اس کے عدل کو مانے، نہ اس پر عمل کرے۔ایک اور مقام پر عدل و انصاف کے ذریعے امن وامان کے قیام کو عبادت سے افضل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’میں تمہاری عیدوں کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ مجھے ان سے نفرت ہے۔ مجھے تمہارا اجتماع بالکل پسند نہیں۔ ہاں تم میرے لیے سو ختنی قربانیاں اور نذر کی قربانیاں گذرانتے ہو، لیکن میں ان کو قبول نہیں کروں گا۔ تم بہترین قربانیاں لاتے ہو ، لیکن میں ان کا کوئی لحاظ نہیں کروں گا۔ اپنے نغموں کی آواز مجھ سے دور کرو۔ میں تمہارے رباب کی آواز نہ سنوں گا، بلکہ انصاف کو پانی کی مانند اور صداقت کو کبھی نہ سوکھنے والے چشمے کی طرح جاری رکھو۔‘‘ (عاموس، 5:21۔24)
امن کی سلطنت
عہدنامہ قدیم سلطنتِ امن کے قیام کے سلسلے میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس سلسلے میں وہ ایک مثال بیان کرتا ہے۔ یہ مثال سلیمان علیہ السلام کے شاہی خاندان کی ہے، جن کے ذریعے امن کی ایک سلطنت قائم ہوئی:
’’یسّی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اس کی جڑوں سے ایک بارآور شاخ پیدا ہو گی۔ خداوند کی روح اس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور فہم کی روح ، مصلحت اور قدرت کی روح ، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح۔ اور خداوند کے خوف میں اس کی خوشنودی ہوگی۔ وہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق انصاف نہ کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے مطابق فیصلہ کرے گا، بلکہ وہ مسکینوں کا انصاف راستی سے کرے گا اور دنیا کے غریبوں کا فیصلہ عدل سے کرے گا۔وہ اپنی زبان کے عصا سے زمین کو مارے گا اور اپنے لبوں کے دم سے شریروں کو ہلاک کرے گا۔ راست بازی اس کا کمربند ہوگی اور وفاداری اس کا پٹکا ہوگی۔ تب بھیڑیا برّہ کے ساتھ رہے گا اور چیتا بکری کے ساتھ بیٹھے گا۔ بچھڑا ، شیر اور ایک سالہ بچھیرا اکٹھے رہیں گے اور ایک چھوٹا بچہ ان کا پیش رَو ہو گا۔گائے اور ریچھنی مل کر چریں گے۔ اور ان کے بچے اکٹھے بیٹھیں گے اور شیر بیل کی طرح بھوسا کھایا کرے گا۔ ۔۔۔‘‘(یسعیاہ،11:1۔11)
تہذیبی و تمدنی امن
غم گین اور شکستہ دل لوگوں کی دل جوئی کرنا عہدنامہ قدیم کی رو سے بہت بڑا عمل ہے۔ اس حوالے سے ایک عبارت ملاحظہ ہو:
’’خداوند کی روح مجھ پر ہے، کیونکہ خداوند نے مجھے مسح کیا ہے، تاکہ میں حلیموں کو خوش خبری سناؤں۔ اس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں شکستہ دلوں کو تسلی دوں ، قیدیوں کے لیے رہائی کا اعلان کروں اور اسیروں کو تاریکی سے رہا کروں اور خداوند کے فضل کے سال کا اور خدا کے انتقام کے دن کا اشتہار دوں اور تمام ماتم کرنے والوں کو دلاسا دوں اور صیون کے غم گین لوگوں کے لیے ایسا اہتمام کروں کہ انہیں راکھ کے بجائے میری طرف سے سہرا، ماتم کی بجائے خوشی کا روغن اور اداسی کی بجائے ستایش کا خلعت بخشا جائے۔ وہ راست بازی کے بلوط اور خداوند کے لگائے ہوئے پودے کہلائیں گے، تاکہ اس کا جلا ل ظاہر ہو۔ تب وہ قدیم کھنڈروں کو پھر سے تعمیر کریں گے اور بہت عرصہ سے ویران پڑے ہوئے مقامات کو بحال کریں گے اور ان اجڑے ہوئے شہروں کو ازسر نو بسائیں گے جو پشت در پشت تباہ ہوتے آئے ہیں۔ بیگانے تمہارے گلّوں کی نگہبانی کریں گے اور پردیسی تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں میں کام کریں گے۔۔۔‘‘ ۔ (یسعیاہ، 61:1۔5)
انسان خدمتِ انسانیت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، بالخصو ص صلح پسندی یہودیت کے ہاں نہایت اجر کا باعث ہے۔ جیسا کہ زبور میں ہے:
’’ کامل آدمی پر نگاہ کر اور راست باز کو دیکھ، کیونکہ صلح دوست آدمی کے لیے اجر ہے‘‘۔ (زبور، 37:37)
اسرائیلی روایات میں امن ایک معاشرتی تصور تھا۔ اسے خاندان ‘معاشرہ اور اقوام کی درمیان سازگاری کی صورت میں دیکھا جا سکتا تھا۔
قتل انسانی معاشرے کا سب سے پہلا جرم ہے۔ اس کی تباہی و بربادی سے کون واقف نہیں۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، کیونکہ ایک قتل کی صورت میں پورے انسانی معاشرے کا امن داؤ پر لگ سکتا ہے۔ اس حوالے سے تمام انسانی مذاہب کی مشترکہ تعلیمات ہیں۔انسانی قتل اور اغوا پر مؤثر قانون سازی سے اس کی روک تھام اور امن و امان کا قیام ممکن ہے۔عہدنامہ قدیم میں بھی اس حوالے سے کافی تفصیلی احکام موجود ہیں۔
تحفظِ جان ومال
قتل کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص کو ارادتاً قتل کیا جائے، دوسرے یہ کہ ارادہ قتل کا نہ ہو، بلکہ مارنے والے نے صرف ضرب پہنچانے کی غرض سے مارا ہو۔ ظاہر ہے کہ انصاف کی رو سے دونوں صورتوں کا حکم مختلف ہونا چاہیے۔ اس بارے میں عہد نامۂ قدیم میں کہا گیا ہے :
’’اگر کوئی آدمی کسی آدمی کو ایسا مارے کہ وہ مر جائے تو وہ لازماً جان سے مارا جائے۔ تاہم اگر اس نے قصداً ایسا نہ کیا ہو، بلکہ خدا نے ایسا ہونے دیا ہو تو اس صورت میں وہ اس جگہ، جسے میں مقرر کروں گا، بھاگ جائے۔ لیکن اگر کوئی دیدہ دانستہ کسی دوسرے آدمی کو مار ڈالے تو اسے میری قربان گاہ سے دور لے جا کر مار دیا جائے۔‘‘ (خروج،21:12۔14)
قتل اگر کسی عام شخص کا کیا جائے تو بھی یہ بڑا سنگین جرم ہے، لیکن اگر کوئی بدبخت اپنے والدین کو قتل کر دے تو اس کا جرم مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ اس کو کسی رعایت کا حق دار ٹھہرانے کے بجائے فوری اور لازمی طور پر قتل کر دیا جائے۔ عہدنامۂ قدیم میں ہے:
’’اور جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں کو مارے ، وہ لازماً مار ڈالا جائے۔ ‘‘
(خروج، 21:51)
اغوا کسی بھی طرح قتل سے کم درجہ سنگین جرم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہدنامۂ قدیم میں اس کی سزا قتل والی ہی رکھی گئی ہے:
’’اور جو کوئی دوسرے شخص کو اغوا کرے، خواہ اسے بیچ دے، خواہ اپنے پاس رکھے اور پکڑا جائے تو اسے ضرور مار ڈالا جائے۔‘‘(خروج، 21:16)
اس معاملے میں آزاد اور غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے، بلکہ انسان ہونے کے ناطے غلاموں کے حقوق کا بھی لحاظ ضروری ہے۔ عہدنامۂ قدیم میں اس بارے میں واضح احکام موجود ہیں۔ ایک مقام پر ہے :
’’اگر کوئی آدمی اپنے غلام یا اپنی کنیز کو لاٹھی سے ایسا مارے کہ وہ فوراً مرجائے تو اسے لازماً سزا دی جائے۔ لیکن اگر وہ ایک دو دن زندہ رہے تو اسے سزا نہ دی جائے، کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہے۔‘‘(خروج،21:20)
جس طرح کسی زندہ شخص کو قتل کرنا ایک سنگین جرم ہے ، اسی طرح حمل کی حالت میں کسی جان کو ختم کر دینا بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ اس بارے میں عہدنامۂ قدیم میں ہے:
’’ اگر وہ لوگ، جو باہم لڑ رہے ہوں، کسی حاملہ عورت کو اَیسی چوٹ پہنچائیں جس کے باعث اس کا حمل گرجائے، لیکن اسے کوئی اور ضرر نہ پہنچے تو جتنا جرمانہ اس کا شوہر مانگے اور قاضی منظور کریں ، اس سے لیا جائے۔ لیکن اگر اسے کوئی اور ضرر پہنچا ہو تو جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پاؤں کے بدلے پاؤں لے لینا۔ جلانے کے بدلے جلانا ، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ پہنچانا۔۔۔۔‘‘ (خروج، 21:22۔25)
عدل و انصاف کے بارے میں احکام
شریعتِ موسوی میں فیصلہ کرنے والے قاضیوں اور حاکموں کو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ، اقربا پروری اور جانب داری برتنے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے:
’’تمہیں لوگوں کو غریبوں کے ساتھ نا انصافی نہیں کر نے دینی چاہئے۔ ان کے ساتھ بھی دوسرے لوگوں کے جیسا انصاف ہونا چاہئے۔‘‘
(خروج، 23:6)
امن وامان کے لیے انصاف اور راست بازی کس قدر ضروری ہے ، اس سے کوئی بھی ذی شعور انسان لاعلم نہیں۔ جس معاشرے سے انصاف اور راست بازی کنارہ کر جائے ، اس میں دنگا وفساد ، قتل و غارت اور دہشت گردی جیسی لعنتیں اپنے جھنڈیگاڑ لیتی ہیں۔ تمام الہامی مذاہب انصاف اور راست بازی کا درس دیتے ہیں۔ عہدنامۂ قدیم میں بھی انصاف اور راست بازی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور ہر شخص کو خصوصاً قاضیوں اور حاکموں کو انصاف اور راست بازی سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے:
’’اے یہوداہ کے بادشاہ !تُو ، تیرے حکام اور تیرے لوگ، جو ان پھاٹکوں سے داخل ہوتے ہیں ، تم خداوند کا کلام سنو۔ خداوند فرماتا ہے کہ انصاف اور راست بازی سے کام کرو۔ ‘‘ (یرمیاہ، 22:2۔3)
’’خداوند یوں فرماتا ہے: اے اسرائیل کے امیرو !تم حد سے بڑھ گئے ہو، تم تشدّد اور ستم چھوڑ دو اور وہی کرو جو جائز اور روا ہے۔ میرے لوگوں سے ان کی جائیداد نہ چھینو۔‘‘(حزقی ایل، 45:9)
’’اور قاضیوں سے کہا کہ جو کچھ تم کرو، احتیاط اور سوچ سمجھ کر کرنا۔ تم آدمیوں کی طرف سے نہیں، بلکہ خدا کی طرف سے عدالت کرتے ہواور جب بھی تم کوئی فتویٰ سناتے ہو، خدا تمہارے پاس ہوتا ہے، لہٰذا تمہیں خدا کا خوف رہے۔ اس لیے احتیاط سے فیصلہ سنانا، کیوں کہ خداوند ہمارے خدا کے ہاں ناانصافی یا جانب داری یا رشوت خوری نہیں ہے۔ ‘‘ (تواریخ دوم، 19:6)
’’تم فیصلہ کرتے وقت بے انصافی مت کرنا اور نہ تو غریب کی طرف داری کرنا اور نہ بڑے آدمی کا لحاظ کرنا، بلکہ راستی سے اپنے ہم سایہ کا انصاف کرنا۔ ‘‘ (احبار، 19:15)
’’اور جب تو کسی مقدمہ میں گواہی دے تو محض عوام کا ساتھ دینے کی خاطر انصاف کا خون نہ کر دینا۔ اور کسی غریب کے مقدمہ میں بھی جانب داری سے کام نہ لینا۔۔۔تو اپنے غریب لوگوں کے مقدمات میں انصاف کا خون نہ ہونے دینا۔‘‘ (خروج، 23:2۔6)
’’تم انصاف کا خون نہ کرنا اور غیرجانب دار رہنا۔۔۔ہمیشہ انصافپرہی قائم رہنا، تاکہ تم جیتے جی اس ملک پر قابض ہو جاؤ جو خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے۔‘‘ (استثناء، 16:19،20)

تبصرے بند ہیں۔