راستے پر آ کے سیدھی راہ چل

مسئلے کرنے تھے جن کو سب کے حل
بن گئے وہ مسئلہ خود آج کل

صبح ہوتی جائے ہے بے نور سی
کوئی تو لائے اندھیروں کا بدل

سچ سمجھنا ہے تو دیکھو آئینہ
آئینہ ہے صدق میں ضرب المثل

خواب غفلت میں رہے اہل جہاں
اور جہاں میں ہو گیا ردو بدل

پہلے دینا کو کیا آراستہ
پھر بنایا ہے اسے دار العمل

چند سکوں میں دعا دیں گے بہت
دیکھ کر فقراء کو مت رستے بدل

ہم کہ مٹی سے بنے اور خوب تر
جیسے کیچڑ میں کھلا کوئی کنول

آؤ کاٹیں ساتھ راتیں ہجر کی
میں بھی تڑپوں تو بھی اے شمع پگھل

منزلیں آواز دیتی ہیں تجھے
راستے پر آ کے سیدھی راہ چل

میں مسافر ہوں مرا چلنا نصیب
چاند تُو کیوں تھک رہا ہے تُو تو ڈھل

وقت کا ہونا ہے محشر میں حساب
رائگاں گزرے نہ اپنا کوئی پل

سر جھکانے کے لیے کیا سوچنا
رب واحد سا ہے کیا کوئی محل

تیری الفت بس تجھی سے رسم و راہ
فیصلہ ابن چمنؔ کا ہے اٹل

تبصرے بند ہیں۔