مصارف زکات – (قسط 4)

فی سبیل اللہ

لغت کے اعتبار سے’’فی سبیل اللہ‘‘ کا مفہوم بڑا وسیع ہے اور ہر طرح کی نیکی کے کاموں کو شامل ہے، لیکن اس آیت میں ایک محدود مفہوم اللہ کی راہ میں جہاد وقتال مراد ہے، اس کے علاوہ کوئی اور کام اس میں داخل نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں۔

’’سبیل‘‘ دراصل راستہ کو کہا جاتاہے اور ’’سبیل اللہ‘‘ عام ہے اور ہر ایسے خالص عمل کے لئے استعمال ہوتاہے جو اللہ سے نزدیکی کا ذریعہ ہو،جیسے فرائض ونوافل اور مختلف قسم کے نیک کام، لیکن جب مطلق بولا جائے تو اس سے مراد جہاد ہوا کرتاہے، یہانتک کہ اس مفہوم میں بکثرت استعمال ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے اسی مفہوم کے لئے خاص ہوگیاہے ۔(63)
اور ماہر لغت علامہ ابن منظور افریقی کہتے ہیں۔
اللہ نے جن اچھے کاموں کا حکم دیا ہے وہ تمام ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل ہیں، لیکن’’سبیل اللہ‘‘ زیادہ تر جہاد کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ جہاد ہی وہ راستہ ہے جس میں اقامت دین کے لئے جنگ لڑی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قول’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو جہاد کا ارادہ رکھتا ہے لیکن میدان جنگ تک پہونچنے کے لئے وسائل نہیں پاتا ہے، لہٰذا ایسے شخص کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے حصہ سے دیا جائے گا۔(64)
حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوسعیدخدری سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لا تحل الصدقۃ لغنی الا لخمسۃ لعامل علیہا او رجل اشتراہا بما لہ او غارم او غاز فی سبیل اللہ او مسکین تصدق علیہ منہا فاہدی لغنی منہا۔
صدقہ کسی مالدار کے لئے حلال نہیں سوائے پانچ مالداروں کے وصولی زکات کے لئے کام کرنے والا،وہ آدمی جس نے صدقہ کے مال کو کو خرید لیا ہو،مقروض، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا،اور ایسا شخص ہے جسے کسی مسکین نے زکات کا مال بطور ہدیہ دیا ہو۔ (65)
اس روایت میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی وضاحت’’غازی‘‘ کے لفظ سے ہورہی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا اضافہ کرکے فی سبیل اللہ کا مصداق متعین کردیا ہے، یہ حدیث آیت کی بہترین تفسیر ہے چنانچہ علامہ قرطبی کہتے ہیں:
فکان ہذا الحدیث مفسرا لمعنی الایۃ۔
یہ حدیث آیت کے مفہوم کی تفسیر کررہی ہے (66)یہی بات امام ابوعبید قاسم بن سلام (وفات 432ھ)(67) اور علامہ خطابی نے بھی لکھی ہے(68)، علامہ ابن حزم نے مذکورہ حدیث کی روشنی میں اسی کی تائید کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
اگر کہا جائے کہ حج فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس کافتویٰ ہے کہ زکات کا مال حج کے لئے دیا جائے تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہاں ہر نیک کام ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل ہے لیکن اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ زکات کے معاملہ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد تمام نیکی کے کام نہیں ہیں، لہٰذا یہ درست نہیں ہے کہ حدیث نے بہ صراحت جس مفہوم کو بیان کردیاہے یہاں اس کے سوا کوئی اور معنیٰ لیاجائے ۔(69)
عام طور پرمفسرین نے بھی یہاں’’فی سبیل اللہ‘‘ سے غزوہ اور جہاد کو مراد لیا ہے چنانچہ مشہور تابعی عبدالرحمٰن بن زید مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’فی سبیل اللہ‘‘ قال الغازی فی سبیل اللہ (70) مشہور مفسر مقاتل بن سلیمان سے بھی یہی تفسیر منقول ہے، بلکہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی سے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے متعلق عمومی مفہوم منقول نہیں ہے، جمہور فقہاء بھی اسی کے قائل ہیں، چنانچہ امام مالک سے منقول ہے کہ سبیل اللہ کثیرۃ ولکنی لا اعلم خلافا فی ان المراد بسبیل اللہ ہہنا الغزو من جملۃ سبیل اللہ

اللہ کے راستے تو بہت ہیں، لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد یہاں غزوہ ہے ۔
امام ابوحنیفہ اور شافعی کا یہی مذہب ہے، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق منقول ہے،جسے ابن قدامہ حنبلی نے اصح قرار دیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
امام احمد سے دوسری روایت یہ ہے کہ زکات کو حج میں خرچ نہیں کیا جائے گا، امام مالک، لیث، ابوحنیفہ سفیان ثوری،شافعی، ابوثور اور ابن المنذر اسی کے قائل ہیں اور یہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ ’’سبیل اللہ‘‘ جب مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد جہاد ہوتاہے، اور قرآن میں جہاں بھی سبیل اللہ آیاہے وہاں اس سے مراد جہاد ہے سوا چند جگہوں کے،لہٰذا ضروری ہے کہ مصارف زکات کی آیت میں بھی اسے جہاد ہی پر محمول کیا جائے، کیونکہ بظاہر وہی مراد ہے، اور اس لئے بھی کہ مصارف زکات صرف دو طرح کے لوگوں کو دی جاتی ہے ایک وہ شخص جو خود محتاج ہو جیسے فقیر، مسکین،مکاتب، مقروض وغیرہ کہ انھیں اپنے قرض وغیرہ کی ادائیگی کے لئے زکات کی ضرورت ہے، دوسرے وہ شخص جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہو ،جیسے عامل، غازی۔ مولفۃ القلوب اور اصلاح ذات بین کے لئے قرض لینے والا، اور فقیر کے حج سے نہ تو مسلمانوں کا نفع ہے اور نہ خودفقیر کو اس کی ضرورت ہے کیونکہ اس پر حج فرض نہیں ہے(71)
گرچہ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، امام احمد،اسحاق بن راہویہ اور امام محمدکے نزدیک فی سبیل اللہ میں’’جہاد‘‘ کے علاوہ حج بھی داخل ہے،لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ عہد صحابہ سے لے کر تیسری صدی تک جمہور علماء، فقہاء محدثین اور مفسرین کا اتفاق رہا ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے صرف غزوہ مراد ہے،ہاں گنے چنے چند حضرات ایسے تھے جنھوں نے غزوہ کے ساتھ حج کو بھی اس مفہوم میں داخل سمجھا ، لیکن اس کو اختیار کرنے والے اس قدر کم تھے کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس قول پر عمل کرنے والے اب نہیں رہے چنانچہ ابوعبید قاسم بن سلام(وفات 422) لکھتے ہیں:
ہذا القول مہجور غیر معمول بہ
یہ قول متروک اور غیر معمول ہے۔ (72)
غرض یہ کہ عہد صحابہ سے لیکر تیسری صدی ہجری تک اس پر اتفاق اور اجماع رہا کہ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے ان دو مفہوم کے علاوہ کوئی اور مفہوم مراد نہیں ہے… البتہ امام رازی(وفات 606) کی تفسیر کے ذریعہ قفال کے حواسے بعض فقہاء کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے کہ:
وہ نیکی کے تمام کاموں میں زکات کی رقم کو لگانے کو جائز سمجھتے ہیں جیسے مردے کو کفن دینا، قلعہ تعمیر کرنا،مسجد بنانا،اس لئے اللہ تعالیٰ کا قول ’’فی سبیل اللہ‘‘ عام ہے۔(73)
لیکن مشکل یہ ہے کہ خود قفال کی شخصیت کا اتا پتا نہیں ہے کہ کون ہیں، نیز جن فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے ان کا نام بھی مذکور نہیں ہے کہ ان کی اس رائے کو کوئی حیثیت دی جاسکے…. بعض علماء نے قیاس اورقرائن کے ذریعہ قفال کے نام کی تعیین کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ یوسف القرضاوی کہتے ہیں کہ شاید قفال صغیر عبداللہ بن احمد (وفات 714) مراد ہیں (74)، لیکن مولانا عتیق احمد بستوی اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امام رازی سے پہلے تین قفال گزرے ہیں۔
1۔ محمدبن علی القفال کبیر (وفات 563ھ)
2۔ عبداللہ بن احمد القفال الصغیر (وفات 714ھ)
3۔ محمدبن احمد بن حسین (وفات 705ھ)
ان میں سے دوسرے اور تیسرے کے حالات وتصنیفات میں کسی تفسیر کا ذکر نہیں آتاہے، البتہ قفال کبیر محمدبن علی کے حالات میں تفسیر قرآن کا ذکر آتاہے، اور داؤدی نے طبقات المفسرین میں لکھا ہے کہ امام رازی نے قفال کبیر کے حوالے سے اپنی تفسیر میں بہت سی باتیں لکھی ہیں، اس کے برخلاف قفال صغیر کا ذکر صرف علم فقہ میں آتا ہے لہٰذا قفال سے مراد یہاں قفال کبیر ہیں، وہ ہمیں یہ بھی بتلاتے ہیں کہ قفال کبیر ایک ممتاز شافعی عالم ہیں لیکن انہیں کے ہم مسلک ایک پرجوش شافعی فقیہ اور تذکرہ نگار علامہ تاج الدین سبکی نے لکھا ہے کہ قفال اپنے ابتدائی دور میں معتزلی تھے اور ان کی تفسیر اسی زمانہ اعتزال کی یادگار ہے ۔(75)
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ قفال کبیر کو بعض فقہاء کی بات سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہو جس طرح مشہور فقیہ ابن قدامہ حنبلی (وفات 026ھ) غلط فہمی کا شکار ہوئے، چنانچہ انھوں نے انس بن مالک اور حسن بصری کی طرف یہ رائے منسوب کی ہے کہ زکات کا مال پل اور راستہ کی تعمیر میں خرچ کرنا درست ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ کے مصداق میں تعمیم کے قائل ہیں، ابن قدامہ نے انس بن مالک اور حسن بصری کے مقولہ’’ما اعطیت فی الجسور والطرق فہی صدقۃما ضیۃ‘‘ کا یہی مطلب سمجھا ہے کہ پل اور سڑک بنانے میں زکات کا مال خرچ کرنا درست ہے لیکن مشہور مجتہد ابوعبید قاسم بن سلام نے اس کا دوسرا مفہوم بیان کیا ہے کہ سڑکوں اور پلوں پر حکومت کی طرف سے متعین کردہ عشر وزکات وصول کرنے والے کسی کے مال کی زکات وصول کرلیں تو زکات ادا ہوجائے گی، خود حسن بصری سے اس مفہوم کی صریحا روایت موجود ہے، اور ابراہیم نخعی، شعبی وغیرہم کا بھی یہی خیال ہے اس کے برخلاف میمون بن مہران کا مسلک ہے کہ اس سے زکات ادا نہیں ہوگی۔ ایسے ہی ابن ابی شیبہ نے حضرت انس بن مالک اور حسن بصری کا مسلک ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔
ما اخذ منک علی الجسور والقناطیرفتلک زکات قاضیۃ (76)
معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات کے نقطۂ نظر کے سمجھنے میں ابن قدامہ سے چوک ہوئی ہے،کیا بعید ہے کہ قفال کو بھی بعض فقہاء کی اسی طرح کی عبارتوں سے مغالطہ ہوا ہو اور اسی کو بنیاد بناکر انھوں نے تعمیم والا نظریہ پیش کردیا ہو، یہ شبہہ اس لیے ہوتاہے کہ کتب تفسیر وحدیث وفقہ کی طرف کافی مراجعت کے باوجود ہمیں نہیں ملا کہ قفال کبیر کے معاصر یا متقدم کسی فقیہ نے تمام امور خیر کو’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل کیا ہو ۔(77)
قفال کے بعد مکمل طور پر خاموشی چھاجاتی ہے، کہیں موافقت کی آواز نہیں آتی ہے، کوئی ہمنوا نظر نہیں آتا ہے، یہانتک کہ دوصدی گذر جاتی ہے مگر تعمیم کے سلسلہ میں کسی متعین فقیہ کا نام نہیں آتاہے، یہانتک کہ چھٹی صدی ہجری میں ملک العلماء کاسانی نے تعمیم کا نظریہ پیش کیا چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
وفی سبیل اللہ عبارۃ عن جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی فی طاعۃ اللہ وفی سبیل الخیرات۔

فی سبیل اللہ سے مراد تمام نیک کام نہیں، لہٰذا اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیکی کی راہوں کے لئے سعی اور کوشش کرے۔(78)
لیکن ایک طرف وسعت برتی تو تو دوسری طرف’’اذاکان محتاجا‘‘ کی قید لگاکر تنگی پیدا کردی، اس لئے اس سے تعمیم کے نظریہ کی تائید نہیں ہوسکتی ہے، کاسانی کے بعد دوسرے فقیہ ظہیرالدین ابوبکر بن محمد(وفات 915) نے اس کا مصداق طالب علموں کو قرار دیا لیکن عام طور پر فقہاء نے طالب علموں کو زکات کے لئے فقر واحتیاج کی شرط لگائی ہے اور مالدار طالب علم کو زکات دینے کے قول کو قبول نہیں کیا گیا (79)حاصل یہ ہے کہ صحابہ، تابعین،ائمہ اربعہ کے متبعین کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا مصداق غزوہ ہے، اور جمہور اسے صرف غزوہ تک محدود رکھتے ہیں اور بعض ائمہ مثلاً امام احمدبن حنبل وغیرہ غزوہ کے ساتھ حج کو بھی اس میں شامل مانتے ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور مراد نہ ہونے پر ایک طرح سے اجماع ہے، اور اس اجماع کی پشت پر یہ دلائل ہیں۔
1۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ شرعی اصطلاح ہے، اس لئے جب مطلق بولا جائے تو اس سے مراد جہاد اور غزوہ ہی ہوگا، چنانچہ امام ابویوسف کہتے ہیں۔
اس لئے کہ’’فی سبیل اللہ‘‘ شریعت کی زبان میں جب مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد جہاد ہوتاہے۔ (80)
اور علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں:
اذا اطلق ذکر فی سبیل اللہ فالمراد بہ الجہاد
’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تذکرہ مطلق ہو تو اس سے مراد جہاد ہوا کرتاہے۔ یہی بات علامہ ابن قدامہ حنبلی، ابن اثیر جزری، ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے بھی کہی ہے(81)، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تمام مکاتب فقیہ کے محققین کی یہی تحقیق ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کسی قرینہ کے بغیر مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد جہاد ہوتا ہے اور بعض جدید علماء نے مثلا شیخ یوسف قرضاوی وغیرہ نے قرآنی استعمالات کے ذریعہ اسی کو ثابت کیا ہے،اور ابواب الجہاد سے متعلق احادیث سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے، اور شرعی اصطلاح میں لغوی مفہوم کے پیش نظرعموم اختیار کرنا درست نہیں ہے،جیسے کہ لفظ’’صلاۃ‘‘ لغت کے اعتبار سے دعاء کے مفہوم میں آتاہے، خود قرآن نے’’صلاۃ‘‘ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے، ارشاد ربانی ہے۔
وصل علیہم ان صلوتک سکن لہم۔
آپ ان کے لئے دعاء کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعاء ان کے لئے باعث سکون ہے۔ (82)
لیکن اصطلاح شرع میں نماز ایک مخصوص کیفیت کے ساتھ مختلف امور انجام دینے کا نام ہے، اور جہاں بھی قرآن وحدیث میں مطلق استعمال ہوتا ہے اس سے یہی شرعی مفہوم مراد ہوتا ہے،لغوی مفہوم مراد لے کر عموم کرنا درست نہیں ، بعینہٖ یہی بات’’سبیل اللہ‘‘ میں بھی ہے کہ گرچہ وہ لغت کے اعتبار سے ایک عام مفہوم رکھتاہے، اور اس عام مفہوم میں کتاب وسنت میں کہیں کہیں استعمال بھی ہوا ہے مگر بعض جگہوں پر قرائن کی روشنی میں عمومی مفہوم مراد لیا گیاہے تو اس پر قیاس کرکے ہر جگہ عام معنیٰ مراد لینا درست نہ ہوگا۔
2۔ حدیث میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ’’غازی‘‘ کی قید لگاکر اس کے مفہوم اور مصداق کو متعین کردیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے متعلق حدیث گذرچکی ہے۔
3۔ سورہ توبہ میں حصر کے ساتھ زکات کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے شریعت کی نگاہ میں اس کی ایک متعین حد ہے، اگر فی سبیل اللہ کو عام کردیا جائے تو پھر تحدید باقی نہیں رہ جاتی ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ
عن زیاد بن الحارث الصدائی قال اتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فبایعتہ فاتی رجل فقال اعطنی من الصدقۃ فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لم یرض بحکم نبی ولا غیرہ فی الصدقات حتی حکم ہو فیہا فجزاہا ثمانیۃ اجزاء فان کنت من تلک الاجزاء اعطیتک۔
زیاد بن حارث صدائی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیعت کی، اس کے بعد ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھے صدقہ میں سے کچھ دیدیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے صدقات کی تقسیم کسی نبی یا غیر نبی کے حوالے نہیں کی ہے بلکہ خود ہی اسے آٹھ مصارف مین تقسیم کردیاہے، اگر تم ان آٹھ میں داخل ہو تو میں تمہیں زکات دے سکتاہوں۔(83)
اس حدیث کو بعض لوگوں نے عبدالرحمٰن بن زیاد افریقی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ان کے ضعف پر اتفاق نہیں ہے بلکہ بعض محدثین اور ناقدین نے ان کی توثیق بھی کی ہے، چنانچہ امام بخاری انھیں قوی اور مقارب الحدیث قرار دیاہے، ابن صالح کہتے ہیں کہ ان کی احادیث لائق حجت اور صحیح ہیں، اور جو لوگ ان پر کلام کرتے ہیں غیر مقبول ہے، یعقوب بن شیبہ نے ثقہ اور صدوق کہا ہے،ابن سفیان کہتے ہیں کہ  ’’لاباس بہ‘‘ یحی القطان ایسے ناقد حدیث نے انھیں ثقہ گردانا ہے(84) لہٰذا یہ حدیث درجہ حسن سے کمتر نہیں ہے، اگر ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو عام کردیا جائے تو مصارف کی تحدید بے معنیٰ ہوکر رہ جائے گی، اور اس کی عمومیت پر بند لگانا دشوار ہوجائے گا اور اس کے دائرے میں انسان تو انسان، چرند وپرند، نباتات وجمادات وغیرہ بھی شامل ہوجائیں گے یہ صرف امکان ہی نہیں ہے، بعض لوگ اس کے قائل بھی ہیں، چنانچہ علامہ مرتضیٰ زبیدی کہتے ہیں:
بلکہ انسانی مصالح عامہ کے لئے اس مد سے خرچ کیا جاسکتا ہے، بلکہ حیوان کے لئے بھی، یہانتک کہ اگر کوئی درخت پانی نہ ملنے کی وجہ سے خشک ہورہاہو تو وہ زکات کے مال سے اسے سیراب کرنے کے لئے پانی لے سکتاہے، کیونکہ یہ بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ میں شامل ہے ۔(85)
نیز اگر عمومی مفہوم مراد لیا جائے کسی تکلف کے بغیر بقیہ سات مصارف بھی اس کے دائرے میں آجاتے ہیں، ایسی صورت میں ان مصارف کا علیٰحدہ سے تذکرہ ایک طرح سے تکرار اور زائد ازضرورت ہوگا۔
عموم سے متعلق بعض روایات کی توجیہ

بعض روایات سے مصرف زکات’’فی سبیل اللہ‘‘ میں عموم کا شبہ پیدا ہوتاہے، ان میں سے پہلی روایت یہ ہے۔
1۔ ایک صحابی مقام خیبر میں مقتول پائے گئے، ان کے ورثاء نے یہودیوں پر قتل کا دعویٰ کیا لیکن اس دعویٰ کے ثبوت کے لئے ان کے پاس گواہ نہ تھے، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قسم کھانے کے لئے کہالیکن بن دیکھے وہ قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوئے، یہودیوں سے قسم کھانے کے کہا گیا تو وہ تیار ہوگئے مگر مقتول کے ورثاء نے ان کی کذب بیانی کی عام روش کو دیکھتے ہوئے ان کی قسم پر اعتبار نہیں کیا، اس لئے جھگڑے کو چکانے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی دیت اداکردی، اس کی تعبیر بعض راوی نے’’وداہ من عندہ یا من قبلہ‘‘ یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے کی ہے، اور بعض دوسرے راویوں نے’’وداہ من ابل الصدقۃ‘‘ نقل کیا ہے(86)، اور اسی لفظ سے عموم کا شبہ پیدا ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کار خیر میں زکات کی رقم خرچ کی جو دلیل ہے کہ نیکی کے کاموں کے لئے زکات کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔
لیکن اس روایت سے عمومیت پر استدلال کرنا محل نظر ہے کیونکہ  (الف) محدثین نے لکھا ہے کہ ’’من ابل الصدقۃ‘‘ کا لفظ صرف ایک راوی سعید بن عبید نقل کرتے ہیں، بقیہ تمام راوی’’من عندہ‘‘ یا اس جیسے الفاظ ذکر کرتے ہیں، لہٰذا’’من عندہ‘‘ والی روایت اس کے بالمقابل قوی اور محفوظ ہے، اس لئے اسی کو ترجیح حاصل ہوگی۔ (87)
(ب) بالفرض اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو دوسرے الفاظ سے موافقت پیدا کرنے کے لئے توجیہ ضروری ہوگی،کیونکہ ایک ہی واقعہ کے سلسلہ میں مختلف الفاظ ہیں، شارحین نے متعدد توجیہات نقل کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صدقات‘‘ کے مد سے قرض لیکر اپنی طرف سے دیت ادا کی، لہٰذا بعض لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ یہ صدقات کے اونٹ ہیں ’’من ابل الصدقۃ‘‘ نقل کردیا، اور جن کے پیش نظر حقیقت تھی انھوں نے’’من عندہ‘‘ کہا ۔(88)
2۔ عن ابی لاس قال حملنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ابل الصدقۃللحج۔
ابو لاس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حج کے لئے صدقات کے اونٹ مرحمت فرمائے ۔(89)
یہ روایت اسنادی حیثیت سے صحیح نہیں ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتاہے، نیز یہ احتمال بھی ہے کہ وہ محتاج اور ضرورت مند رہے ہوں اس بناپر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کے اونٹ میں سے دیا تھا ۔(90)
3۔ ام معقل نامی ایک صحابیہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ حج میں شریک کیوں نہ ہوئی، انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس ایک ہی اونٹ ہے جس پر ہم حج کیا کرتے تھے مگر ہمارے شوہر نے اسے ’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف کردیاہے، اس لئے میں حج نہ کرسکی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’فہلا خرجت علیہ فان الحج فی سبیل اللہ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں جانے دیجئے، انھوں نے کہا ہمارے پاس صرف ایک ہی اونٹ ہے اور وہ بھی’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف ہے، شوہر نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
’’اما انک لو احججتہا علیہ کان فی سبیل اللہ‘‘
مذکورہ دونوں احادیث کی امام داؤد نے روایت کی ہے، پہلی حدیث پر اسنادی اعتبار سے کلام ہے، لیکن دوسری حدیث سندی حیثیت سے صحیح ہے۔ (91)
4۔ ایک عورت نے حضرت عبداللہ بن عمر سے مسئلہ دریافت کیا کہ کسی نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ خرچ کرنے کی وصیت کی ہو تو اسے کہاں صرف کیا جائے،انھوں نے کہا
’’فہوکما قال فی سبیل اللہ‘‘ اس مبہم جواب سے ان کا سوال حل نہیں ہوا اس لئے ایک صاحب نے ابن عمر کو اس کی طرف توجہ دلائی تو انھوں نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ میں اس سے کہوں کہ ان فوجیوں پر خرچ کرے جو زمین میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں، انھوں نے کہا پھر کس مصرف میں خرچ کرنے کا حکم دیتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا حج کرنے والوں پر خرچ کرے کہ وہ اللہ کے مہمان ہیں ۔(92)
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا فتویٰ ہے کہ زکات کے مال سے غلام آزاد کیا جائیگا، اور حج میں خرچ کیا جائے گا۔ (93)
ان احادیث اور صحابہ کے فتاویٰ کی روشنی میں کہا جاتاہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کسی ایک معنی کے لئے مخصوص نہیں ہے، لیکن غور کی نگاہ سے دیکھا جائے تو حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ مذکورہ روایات اور ابن عمر کے فتوے میں مصرف زکات’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ’’فی سبیل اللہ‘‘ وصیت اور وقف کا مسئلہ ہے، جس میں لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو بھی شامل کیا، اس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ’’مصارف زکات‘‘ میں بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے اندر عموم ہے، بلکہ انھیں روایتوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ صحابہ کے درمیان’’فی سبیل اللہ‘‘ کا ایک ہی مصداق غزوہ وجہاد متعین تھا، اس لئے وہ حج کے لئے’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف یا وصیت کردہ جانور کو استعمال کرنے میں جھجکتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث میں اضطراب ہے، اس لئے لائق استدلال نہیں۔ (94)
جہاد کی حقیقت
بعض حضرات نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد جہاد لیا ہے لیکن انھوں نے جہاد کے مفہوم میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ جہاد سے مراد صرف قتال نہیں بلکہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے جو کوششیں کی جائیں وہ سب اس میں شامل ہیں، خواہ وہ عسکری جہاد ہو،فکری، معاشی، اقتصادی اور سیاسی جہاد ہو، زبان کے ذریعہ ہو یا قلم کے ذریعہ، سب جہاد کے مفہوم میں شامل ہیں۔
اس نقطۂ نظر سے متعلق ہم صرف عرض کرنا چاہیں گے کہ جس طرح سے’’فی سبیل اللہ‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے، اسی طرح سے جہاد بھی ایک اصطلاح شرع ہے، چنانچہ زیادہ تر احادیث میں اسی شرعی مفہوم کے لئے استعمال ہوا ہے، اور حضرت ابوسعید خدری کی روایت میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی وضاحت غازی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور غزوہ قتال کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، اور عام طور پر مفسرین نے فی سبیل اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس شرعی مفہوم کو پیش نظر رکھا ہے، بعض احادیث میں غزوہ وقتال کے علاوہ چیزوں کو جہاد کہا گیا ہے تو وہ لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے ہے، اور اگر لغوی مفہوم کی رعایت کرتے ہوئے، لسانی وقلمی جہاد وغیرہ کو بھی داخل مانا جائے تو پھر اس میں بھی وہی عمومیت پیدا ہوجائے گی جو کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘کے لغوی مفہوم مراد لینے کی صورت میں پیدا ہوئی تھی اور کوئی بھی دیندار مسلمان اس دائرہ سے خارج نہ ہوگا، کیونکہ حدیث میں اسے بھی مجاہد کہا گیا ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے مجاہدہ کرتاہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے، آپ کی زندگی قرآنی آیات کی تفسیر ہے، اور اسلاف کی رائے ہمارے لئے سب سے بہتر اور محفوظ راستہ ہے اسی کو اختیار کرنا چاہئے، اسلام کی پوری تاریخ میں مسلمان عسکری، فکری، اقتصادی یلغار سے دوچار تھے،جہاد کے تمام محاذ کھلے ہوتے تھے لیکن کسی سے ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ یا جہاد سے مراد عسکری جہاد کے علاوہ دیگر قسموں کو مراد لیا ہو یا اس میں زکات کی رقم خرچ کی ہو۔
’’فی سبیل اللہ‘‘ میں تملیک کی شرط
علماء حنفیہ کے نزدیک زکات کے دیگر مصارف کی طرح ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں بھی تملیک شرط ہے، یعنی زکات کی رقم کا کسی مجاہد کو مالک بنادینا ضروری ہے، مصالح جہاد مثلاًجنگی ساز وسامان زکات کی رقم سے خرید کر رکھنا اور بوقت ضرورت مجاہدین کو محض استعمال کے لئے دینا صحیح نہیں ہے، بلکہ انھیں اس کا مالک بنادینا شرط ہے، حنفیہ کے علاوہ دیگر فقہاء کے نزدیک جنگی ساز وسامان خرید کر’’فی سبیل اللہ‘‘ وقف کیا جاسکتاہے اور بوقت ضرورت مجاہدین کو استعمال کے لئے دیا جائے گا اور استعمال کے بعد اسے واپس لے لیا جائے گا ۔(95)
استحقاق زکات کی شرط
امام ابوحنیفہ کے نزدیک مجاہد کو جہاد کے لئے بھی زکات اسی وقت دی جاسکتی ہے جبکہ وہ فقیر ومحتاج ہو، کسی مالدار کو جہاد کے لئے زکات کی رقم نہیں دی جائے گی، جمہور ائمہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے بلکہ مالدار غازی کو بھی جہاد کے لئے زکات دی جائے گی، البتہ امام شافعی اور احمد کے نزدیک یہ شرط ہے کہ حکومت کی طرف سے اس کی تنخواہ مقرر نہ ہو، بلکہ رضاکارانہ طور پر یہ کام انجام دے رہاہو (96)، گویا کہ ایک گونہ احتیاج کی شرط یہاں بھی موجود ہے۔

حواشی:
(63)النھایۃ فی غریب الحدیث 2/156 (64) لسان العرب 2/91
(65) لسان العرب 2/91(66)الجامع لاحکام القرآن 8/186(67)چنانچہ وہ کہتے ہیں : ونراھا تاویل ھذہ الآیۃ قولہ فی سبیل اللہ ، کتاب الاموال /610(68)فاما سھم السبیل فھو علی عمومہ وظاھرہ فی الکتاب وقد جاء فی ھذا الحدیث ما بینہ و وکد امرہ فلا وجہ للذھاب عنہ، معالم السنن 2/64(69)المحلی 6/151(70)احکام القرآن لابن العربی 2/969

(71)المغنی 9/328(72)کتاب الاموال /799(73) تفسیر کبیر16/113
(74)طبقات المفسرین 2/197(75) طبقات الشافعیہ الکبری 3/201بحوالہ مجلہ فقہ اسلامی 5/74
(76)مصنف ابن ابی شیبہ 3/166، نیز دیکھئے فقہ الزکات 2/645۔646(77)مجلہ فقہ اسلامی 5/73۔74
(78)البدائع 2/154(79)رد المحتار 2/59(80)البدائع 2/154
(81)فتح الباری 7/29، اور 48، النھایۃ 2/338(82)سورہ توبہ/203، نیز دیکھئے تفسیر قرطبی 8/250
(83)رواہ ابوداؤد، نیل الاوطار 4/171
(84)تہذیب التہذیب6/173۔175 (85)الاتحاف 4/235
(86)صحیح بخاری 2/1019، صحیح مسلم 2/54(87)فتح الباری 12/235(88) زاد المعاد 3/201
(89)رواہ البخاری تعلیقاً وایضاً اخرجہ احمدوابن خزیمہ والحاکم وغیرہ ورجالہ ثقات الا أن فیہ عنعنۃ ابن اسحاق ولھذا توقف ابن المنذر فی ثبوتہ ، عمدۃ القاری 9/46، فتح الباری 3/332(90) فتح الباری 3/332 (91)المجموع 6/158۔159
(92)تفسیر قرطبی 8/185(93)صحیح بخاری 2/128(94)فتح الباری 3/332
(95)الشرح الکبیر مع حاشیۃ الدسوقی 1/497، روضۃ الطالبین للنوی 2/326، مطالب اولی النھی 2/147۔148 (96)تحفۃ المنھاج 3/96، نہایۃ المحتاج 6/155، مطالب اولی النھی 2/147۔148

تبصرے بند ہیں۔