رویتِ ہلال ۔ ایک تحقیقی جائزہ  (قسط -1)

مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی 
رمضان اور عیدین کے مواقع پر رؤیت ہلال کے سلسلے میں علماء امت کے درمیان جو اختلاف چلا آرہا ہے وہ امتِ مسلمہ کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں جہاں رمضان کے روزوں میں تقدیم وتاخیر ہورہی ہے، وہیں یہ افسوسناک صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ عیدین کے موقع پر ایک ہی شہر کے مسلمان دو دو، بلکہ تین تین دن عید مناتے ہیں ۔ اس صورت حال سے عوام ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں کس کی رائے شرعاً درست ہے؟ اس مسئلہ میں سوال یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا لحاظ کیے بغیر پورے عالم اسلام میں ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید منائی جائے، یا اختلاف مطالع کے پیش نظر تبدیلئ مطلع کی صورت میں مختلف دنوں میں روزہ رکھا جائے اور عید منائی جائے۔جمہور علماء کی رائے میں اختلافِ مطالع کا پاس ولحاظ رکھنا شرعاً ضروری ہے۔اس سلسلے کے دلائل درجِ ذیل ہیں:
(الف) ۔ کتاب اللہ سے استدلال :
1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ
(البقرۃ: 185)
سو جو شخص اس مہینہ (رمضان) کو پائے اسے ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ رقم طراز ہیں: ’’جب کوئی خبر دینے والا کسی مقام پر رؤیت ہلال کی خبر دے تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ یا تو وہ شہرقریب ہوگایا دور۔ اگر مقامِ رؤیت قریب ہو توحکم ایک ہی ہوگا اور اگر مسافت بعید ہوتو ایک جماعت نے کہا ہے کہ ہر شہر والے کے لیے اپنی ہی رؤیت قابلِ قبول ہوگی، حدیثِ کریب اس پر شاہد ہے‘‘۔
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘2؂
2۔ دوسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (البقرۃ: 189)
لوگ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے اوقات کی تعیین اور حج کے وقت کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
ہلال کی لغوی تحقیق : 
ابوالعباس قرطبی نے لفظ ہلال کی لغوی تحقیق میں لکھا ہے:
اَصْلٌ اِسْتَھَلَّ مِنَ الْاِھْلَالِ اَلَّذِی ہُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ، ثُمَّ غَلَبَ عُرْفَ الْاِسْتِعْمَالِ فَصَارَ یُفْھَمُ مِنْہُ رُؤْیَۃُ الْہِلَالِ، وَمِنْہُ سُمِّیَ الْہِلاَلُ لِمَا کَانَ یُھَلُّ عِنْدَہُ‘‘
استھل، الاہلال سے مشتق ہے جس کے معنی چاندد یکھنے کے وقت آواز بلند کرنے کے ہیں، پھر اس کا استعمال عرف میں صرف رؤیت ہلال کے لیے خاص ہو گیا۔
صاحب ’’المنجد‘‘ فرماتے ہیں : اَہَلَّ الْہِلَالُچاند ظاہر ہوا۔اَہَلَّ الشَھْرُ قمری مہینہ شروع ہوا۔اَہَلَّ القَوْمُ الْہِلَالَ چاندد یکھنے کے وقت لوگوں نے آواز بلند کی۔ اہلالصبیبچے نے رونے میں آواز بلند کی۔
مندرجہ بالا لغوی تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ ہلال کے معنی میں ظاہر ہونے اور واضح ہونے کا مفہوم مسلّم ہے۔ اور ہلال عربی میں چاند کی اس ابتدائی شکل کو کہتے ہیں جو آسمان پر دکھائی دیتی ہے، فلکی چاند جو دکھائی نہیں دیتا، اس کو ہلال نہیں کہتے، اس کا اصطلاحی نام نیو مون New Moonہے، لہذا قرآن کریم نے تاریخ کی تعیین کا ذریعہ جس چیز کو قرار دیا ہے وہ دکھائی دینے والا ہلال ہے، نہ کہ فلکی یا حسابی چاند۔ 5؂
ہلال دنیا میں پہلی بار نظر آنے کے عموما 24 گھنٹوں بعد قطبین کے علاوہ پوری دنیا میں نظر آجاتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ وقفہ دو کی بجائے تین مختلف دنوں تک بھی بڑھ جاتا ہے6؂
سبب نزول: 
مذکورہ بالا آیت (البقرۃ: 189) حضرت معاذبن جبلؓ اور ثعلبہ بن غنمؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا راز ہے کہ چاند دھاگہ کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بدرِ کامل بن جاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے، یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔7؂
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ نے بیان فرمایا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے اوقات مقرر کرتے ہیں، روزہ افطار،حج، ماہواری کے ایام ، عدت، قرض اور اجرتیں وغیرہ بہت سی شرطوں کی مدت کے سارے مواعید چاند ہی کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں۔
New Moon کی حقیقت: 
ایک مرتبہ ایک سعودی شہزادہ نے خلائی طیارہ Rocket کے ذریعہ خلا کی بلندیوں میں جاکر نئے چاند کو دیکھنا چاہا، مگر واپس آکر اس نے اس امر ہی کی تائید کی کہ نو مولود چاند قابلِ دید نہ تھا، کیوں کہ اس وقت اس کا روشن حصہ سورج کی سمت میں ہوتا ہے۔ اس وقت نہایت پیچیدہ SOPHISTICATED اور طاقتور دوربینوں کی مدد سے بھی اسے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ 8؂
3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّشَمْسَ ضِیاَءً والْقَمَرَ نُوْرًا وَقَدَّرَہُ مَناَزِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالحِسَاب.( یونس:5)
وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس کی (چال کے لیے ) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں: ’’چاند کی ان منازل سے اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں جس سے تمہیں ہر چیز کے حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے، علاوہ ازیں دنیوی منافع اور کاروباربھی ان منازل قمر سے وابستہ ہیں۔ دینی منافع بھی اس سے حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح ہلال سے حیض و نفاس، صیام رمضان، اشھرحرم اور دیگر عبادات کی تعیین ہوتی ہے ، جن کا اہتمام ایک مومن کرتاہے‘‘۔9؂
4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم۔ (یس: 39)
اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ ایسارہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی۔
یعنی چاند کی 28 منزلیں ہیں۔ روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر دو راتیں غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے۔ جب یہ چاند آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے ، چاند کی انہیں گردشوں سے سکان ارض اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں ۔10؂
(ب)۔ احادیث نبوی سے استدلال : 
1۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔11؂
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ 12؂ یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔13؂
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
3۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘14؂ و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔ (بخاری ومسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ: اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔
4۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔15؂
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
5۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔16؂
(ج) صحابہ کرام اور تابعین عظامؓ کا تعامل:
صحابۂ کرام میں حضرت عمربن الخطاب و ابن عباس و ابن عمر رضی اللہ عنھم نے رؤیت ہلال کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر ابن عابدین نے ’احکام ہلال رمضان‘ ابن السبکی نے العلم المنشور فی اثبات الشہور اور دوسرے مسلم ماہرین فلکیات نے رسالے لکھے ہیں۔ شیخ بخیت نے ارشاد اہل الملۃ الی اثبات الأھلۃ، شیخ طنطاوی جوہری نے ’الہلال‘ نامی کتاب تصنیف کی ہے۔
1۔ دور خلافت عمرؓ :اختلافِ مطالع کا اعتبار حضرت عمرؓ کے دور میں بھی تھا ۔ بعض صحابہ کرامؓ اپنی رؤیت کے حساب سے نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات میں پہنچ گئے، مگر مکہ مکرمہ کی رؤیت کے حساب سے وہ دسواں دن تھا (یوم النحر) اور وقوفِ عرفہ ختم ہو چکا تھا ۔ حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ قربانی دے کر واپس لوٹ جائیں، اگلے سال پھر حج کے لیے آئیں۔17؂
2۔ خلفاء راشدین کے دور میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ دار الخلافہ میں چاندنظر آنے پر مملکت کے دور دراز علاقوں میں قاصدین کے ذریعہ اطلاع دی گئی ہو اور وہاں کے لوگوں کو رمضان کے آغاز یا اختتام کا حکم دیا گیا ہو۔ حالانکہ اس زمانہ میں تیز رفتار خبر رسانی کا ذریعہ ’برید‘ موجود تھا۔ اس کے باوجود اس کا نظم نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شرعاً مطلوب نہیں ہے۔
3۔ روی عن عکرمۃ انہ قال ’’لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ لِمَا رَوَی کُرَیْبٌ۔18؂ یعنی حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب کی روشنی میں کہا کہ ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی ۔
4۔ ایک شہر کی رؤیت کو دوسرے تما م شہر والوں کے لیے لازم قراردینا درست ہوتا تو حضر ت عمرؓ اور دیگر خلفائے اسلام اپنے یہاں چاند دیکھنے کے بعد تمام شہر والوں کو اس کی تعمیل کا حکم دیتے اور اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کرتے اور لوگوں کو لکھ کر اس سے آگاہ کرتے، اس لیے کہ دینی امور سے ان کا لگاؤاوران کی دلچسپی کسی سے مخفی نہیں۔19؂
5۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کے زمانے میں ہمیشہ بعض اسلامی شہروں میں چاندپہلے اوربعض شہروں میں اس کے بعد دکھائی دیتا تھا اور یہ روز مرہ کی ان باتوں میں سے ہے، جن میں کسی تبدیلی کا سوال نہیں۔اس پس منظر میں اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوسکتا کہ ان تک بعض دوسرے علاقوں کی خبرمہینہ کے اندرکسی وقت پہنچے اور اگر ان کے لیے قضا کرنی ضروری ہوتی تو وہ اس کا پتہ لگا نے میں حددرجہ اہتمام سے کام لیتے کہ تمام عالم اسلام میں چاند کی رؤیت کہاں کس وقت ہوئی؟ جیساکہ وہ اپنے اپنے شہروں میں اس کے دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اکثر رمضانوں میں انہیں اپنے چھوٹے ہوے روزوں کی قضا رکھنی پڑتی اور اگر ایسا ہوتا تو یہ چیز ہم تک نقل ہو کر ضرور پہنچتی، لیکن اس طرح کی کوئی بھی بات جب ہم تک نہیں پہنچی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور سرے سے اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، حضرت ابن عباسؓ کی مذکورہ بالا حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے20؂
شیخ الاسلام نے یہ بات اس ضمن میں تحریر فرمائی ہے کہ اگر کسی شہر میں رؤیت نہ ہوئی ہو اور رؤیت والے شہر سے خبر بھی نہ پہنچ سکی ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک روزہ چھوٹ گیا ہو تو ایسی صورت میں ان پر روزہ کی قضا واجب نہیں ہے۔ البتہ صحابہ و تابعین کے اس تعامل سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے لازم نہیں ہے۔
(د) محدثین عظام کا نقطۂ نظر :
محدثین عظام اختلافِ مطالع کی بنیاد پر ہر شہراور ہر علاقہ کے لئے اپنی رؤیت ہی کو تسلیم کرتے تھے ۔کبھی بھی ان لوگوں نے أم القری کی رؤیت کوسارے عالم کے لئے لازم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کی مساعئ جمیلہ یہی تھیں کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں رؤیت ہلال کی بنیاد پر روزہ رکھیں اور عید منائیں۔ ذیل میں محدثین کرام کے نقطہ نظر کی وضاحت پیش کی جارہی ہے۔
1 ۔ امام نووی ؒ نے صحیح مسلم میں یہ باب باندھا ہے ۔ ’’بابُ بیانِ أنَّ لکلِ بلدٍ رؤیتُھم وأنھم اِذَا رأوا الھلالَ ببلدٍلایثبتُ حکمُہ لما بَعُدَ عَنْھُمْ ‘‘ یعنی اس چیز کا بیان کہ ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کسی علاقہ کے لوگ چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم دوٗر کے لوگوں کے لیے ثابت نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں:
’’لٰکِنَّ ظَاہِرُ حَدِیْثِہِ أَنَّہُ لَمْ یَرُدَّہُ لِھَذَا وَاِنَّمَا رَدَّہُ لِأَنَّ الرُّؤْیَۃَ لاَ یَثْبُتُ حُکْمُہَا فِی حَقِّ الْبَعِیْد ‘‘21؂
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے مسافت بعیدہ اور اختلاف مطالع کی وجہ سے کریب کی خبر کو رد کردیا نہ کہ ’’خبر واحد ‘‘ہونے کی وجہ سے۔
امام نوویؒ نے دوسری جگہ لکھا ہے: جب ایک شہر والوں نے چاند دیکھا ہے اور دوسرے شہر والوں نے نہیں دیکھا تو اس صورت میں اگر دونوں شہر قریب قریب ہوں تو ان دونوں کا حکم اختلاف کے بغیر ایک ہی ہوگا اور اگر دونوں شہر دور دور ہوں تو دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1)دوسرے شہروالوں پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوگا۔ (2)ضروری ہوگا کہ روزہ رکھیں۔ ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت ہی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ 21؂۔الف
2 ۔ امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں اس طرح باب باندھا ہے ’’ باب اذا رؤي الھلال فی بلدٍ قبلَ الآخرین بلیلۃٍ ‘‘ (باب اس بیان میں کہ جب چاند کسی شہر میں دوسروں سے ایک دن قبل نظر آجائے تو کیا کیا جائے؟) اس حدیث کی شرح میں صاحب عون المعبودؒ فرماتے ہیں :
’’ابن عباسؓ کے قول ھکذا امرنا رسول اللہ ا سے احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ افطار کے سلسلہ میں خبرواحد کو قبول نہ کریں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ہی رؤیت کا اعتبار کریں گے ۔ محدث کے باب سے دوسرے معنی کی طرف رجحان ظاہر ہوتا ہے۔‘‘22؂
3 ۔ امام ترمذی ؒ نے اپنی جامع میں یہ باب باندھا ہے ’’ باب لکل أھل بلد رؤیتھم‘‘۔ حدیث کریب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
العملُ عَلَی ھَذَا الْحَدِیْثِ عِنْدَ أَھْلِ الْعِلْمِ اَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ 23؂
یعنی اہل علم کے مابین اس حدیث کے مطابق عمل ہے کہ ہرعلاقے کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ 23؂
شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے لکھا ہے : جن شہروں کے مطالع میں اختلاف نہیں ہے ان میں سے ایک کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازما تسلیم کی جائے گی ۔ایک روایت میں یہی قول اہل عراق کا بتایا گیا ہے۔24؂
4 ۔ امام نسائی ؒ نے : ’باب اختلاف أھل الآفاق فی الرؤیۃ ‘(باب اس حکم کے بیان میں کہ جب مختلف ممالک کے باشند ے رؤیت ہلال کے سلسلے میں مختلف ہوں) کے تحت حدیث کریب (2113) نقل کی ہے۔ امام سندیؒ نے سنن نسائی کے حاشیہ میں لکھا ہے:
’’اِنَّ الْمُرَادَ بِہٖ أَن لاَّ تُقْبَلَ شَھَادَۃُ الْوَاحِدِ فِی حَقِّ الْاِفْطَارِ أَوْ أَمَرَنَا أںْ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ أَھْلِ بَلَدِنَا وَلاَ نَعْتَمِدَ عَلَی رُؤْیَۃِ غَیْرِھِمْ وَاِلَی الْمَعْنَی الثَّانِی تَمِیْلُ تَرْجَمَۃُ الْمُصَنِّفِ وَغَیْرُہُ لٰکِنَّ الْمَعْنَی الْأَوَّل مُحتَمَلٌ فَلاَ یَسْتَقِیْمُ الْاِسْتِدْلَالُ اِذِ الْاِحْتِمَالُ یُفْسِدُ الْاِسْتِدْلَالَ کَاَنَّھُمْ رأَوْا اَنَّ الْمُتَبَادِرَ ھُوَ الثَّانِیْ فَبَنَوْا عَلَیْہِ الْاِسْتِدْلاَلَ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘25؂
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم افطار کے سلسلہ میں خبر واحد کو قبول نہ کریں یا ہم اپنے شہر کی رؤیت پر ہی اعتماد کریں اور دوسرے شہر کی رؤیت کو تسلیم نہ کریں۔ دوسرے معنی کی طرف ہی محدث اوردوسروں کا میلان ورجحان ظاہر ہوتا ہے۔لیکن پہلا مطلب بھی محتمل ہے، لہٰذا احتمال ہونے کی وجہ سے استدلال درست نہیں ہوگا ۔ گویا انہوں نے متبادرمفہوم کو دیکھا اور اسی پر استدلال قائم کرلیا۔ واللہ اعلم
5 ۔ امام ابن خزیمہؒ نے یہ باب قائم کیا ہے: ’’ اَلدَّلِیْلُ عَلیٰ اَنَّ الْوَاجِبَ عَلیٰ اَھْلِ کُلِّ بَلَدَۃٍ صِیَامُ رَمْضَانَ لِرُؤیَتِھَمْ لاَ رُؤیَۃِ غَیْرِھِمْ‘‘ یعنی اس بات پر دلیل کہ ہر علاقہ والے کے لیے اپنی ہی رؤیت پر رمضان کے روزے کا آغاز کرنا ضروری ہے اور اس کے تحت حدیث کریب کو نقل کیا ہے اور اپنے موقف کی دلیل کے لئے اسی سے استدلال بھی کیا ہے۔26؂
6 ۔ ابن ابی شیبہؒ نے اپنی کتاب مصنف میں اس طرح تبویب کی ہے:’’وَفِی الْقَوْمِ یَرُوْنَ الْھِلَالَ وَلاَ یَرَاہُ الآخَرُوْنَ ‘‘ یعنی قوم کے کچھ لوگ دیکھیں اور کچھ لوگ چاند نہ دیکھیں تو کیا حکم ہے ؟
ایک اور حدیث جس کی روایت ابن ادریس نے عبداللہ بن سعید سے کی ہے کہ مدینہ میں لوگوں نے رؤیت ہلال کا ذکر کیا اورکہا کہ ’اہل استارہ‘نے چاند دیکھا تو سالم اور قاسم نے کہا کہ ’’مَالَنَا وَلِأھْلِ اِسْتَارَۃ ‘‘یہ رؤیت اہل استارہ کے لئے ہے ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔27؂
7 ۔ امام بغوی ؒ نے فرمایا ہے: جب چاند کسی علاقہ میں دیکھا گیا ہو اور دوسریعلاقہ والوں نے ایک دن بعد دیکھا ہو تو اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک بڑی جماعت کاموقف یہ ہے : ’اِنَّ لِکُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ‘ یعنی ہر علاقہ کے لیے وہاں کے لوگوں کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ تابعین میں سے قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ بن عمر ، عکرمہ اورمحدثین میں سے اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے حدیث کریب سے ہی استدلال کیا ہے۔28؂
حدیث کریب کی روایت بیہقی نے اپنی السنن الکبری (باب الہلال یری فی بلد ولا یری فی آخر) اور دارقطنی نے اپنی سنن (باب الشہادۃ علی رؤیۃ الہلال) میں کی ہے۔
8 ۔ محدث العصر ناصر السنۃ علامہ محمد ناصرالدین البانی نے اس سلسلے میں یہ نصیحت کی ہے: ’’جب تک تمام ممالک اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رؤیت پر متفق نہ ہوجائیں اس وقت تک ہر ملک کے باشندوں کو میری رائے میں اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ روزہ رکھنا چاہئے۔اختلاف کرکے الگ الگ نہ بٹ جائیں کہ کوئی اپنے ملک کی رؤیت پر اور کوئی دوسرے ملک کی رؤیت پر عمل کرنے لگے ۔ اپنے ملک کی رؤیت پر روزہ رکھنا چاہیے، خواہ دو ایک دن آگے پیچھے ہی کیو ں نہ ہو ۔کیونکہ ایسا نہ کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے درمیان اختلاف وانتشار کے وسیع ہونے کا خطرہ ہے، جیساکہ بدقسمتی سے بعض عرب ممالک میں ہورہا ہے۔واللہ المستعان‘‘ 29؂
(ھ) فقہاء کرام کی آراء :
1۔ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ’مختارات النوازل‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے: ’’ایک شہر والوں نے رؤیت ہلال کے بعد 29 روزہ رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند کی رؤیت کی بنا پر تیس روزے رکھے تو اگر ان دونوں شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہوگی اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں‘‘۔
2-قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔
3- علامہ عبدالحئی لکھنوی کا فیصلہ اس طرح ہے: ’’عقل و نقل ہر دو اعتبارسے سب سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر، جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطالع بدل جائیں، جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے، اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں ہونی چاہیے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو، ان میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لئے لازم و ضروری ہوگی‘‘۔30؂
4۔ علامہ ابن رشد ؒ نے لکھا ہے کہ ’’امام مالک ؒ کے مدنی شاگردوں نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر ایک شہر میں رؤیت ہوجائے تو دوسرے تمام شہر والوں پر یہ رؤیت لازم نہ ہوگی، الاّ یہ کہ حاکم وقت اس کو لازم قرار دے تو اس کی بات مانی جائیگی‘‘ اور یہی بات ابن ماجشون اور امام مالک کے اصحاب میں سے مغیرہ نے کہی ہے31؂
5۔ علامہ ابن قدامہؒ ( متوفی 620ھ) فرماتے ہیں : ’’جب ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو سارے شہر والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ یہ لیث بن سعد اور بعض شوافع کا قول ہے ‘‘اس میں سے بعض نے کہا کہ اگر دو شہروں کے مابین اتنی قریبی مسافت ہو جس کی وجہ سے مطالع کا اختلاف لازم نہ آتا ہو جیسے بغداد اور بصرہ۔ ان دونوں شہر والوں پر روزہ رکھنالازم ہے، کسی ایک جگہ کی رؤیت کی وجہ سے ۔ اگر دونوں شہروں کے مابین دوری ہے جیسے عراق و حجازاور شام ، تو ہر شہر والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہوگی‘‘۔
6۔ عکرمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حدیث کریب سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ہر شہر والوں کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہوگی یہی قاسم، سالم اور اسحاق بن راھویہ رحمھم اللہ کا مذہب ہے۔32؂
7۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے فرمایا: ’’امام شافعی ؒ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ جب کسی شہر والوں نے چاند دیکھا تو ان پر اور ان لوگوں پر جن کا مطلع ان کے ساتھ متحد ہے، روزہ رکھنا واجب ہے اور اگر مطلع کا اختلاف ہو تو وجوب کا حکم عام نہیں ہو گا‘‘33؂
(و) جمہور علماء کی رائے اور ان کی مساعی جمیلہ: 
1۔ علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں: ’’علماء امت کا اجماع ہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بہت زیادہ مسافت کی دوریاں رکھنے والے دو ملکوں کے مابین ایک دوسرے کی رؤیت کا اعتبار نہ ہوگا، جیسے اندلس جو خراسان سے دور ہے ان دونوں کی رؤیت کا باہمی اعتبار نہ ہوگا، الاّ یہ کہ ملک اگر بڑا ہو تو ایسے ملک جن کے علاقے کی سرحدیں مسلمانوں کے شہر سے قریب ہیں تو وہاں کی رؤیت باہم معتبر ہوگی۔34؂
2۔ ڈاکٹررواس قلعجی رقم طراز ہیں :حدیث کریب کی روشنی میں دو مسئلے ایسے ہیں جن میں عبداللہ بن عباسؓ کی رائے کا بیان کرنا ازحد ضروری ہے:
(1) ممالک کے مختلف ہونے سے مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا مختلف ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کی رائے یہ تھی کہ کسی ملک میں مہینہ کا آغاز دوسرے ملک کے آغاز سے مختلف ہو سکتا ہے، لہٰذا جس دن اہل شام رؤیت ہلال کی بنا پر روزہ رکھیں گے اس دن اہل حجاز روزہ رکھنے کے مجاز نہ ہوں گے اس لئے کہ ان کے یہاں چاند نظر نہیں آیا۔ (2) مہینہ کا آغاز رؤیت ہلال سے ہوگا، نہ کہ چاند کے بڑے اور چھوٹے ہونے سے۔ لہٰذا اگر چاند نظر نہ آئے تو نئے مہینہ کے آغاز کے لئے تیس دن پورے کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ ابوالبحتری سعید بن فیروز فرماتے ہیں کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے۔ جب ہم وادی نخلہ پہنچے تو ہمیں چاند نظر آیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری رات کا چاند ہے، بعض نے کہا کہ دوسری رات کا چاند ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہماری ملاقات ابن عباسؓ سے ہوئی میں نے کہا: ہم نے چاند دیکھا، بعض نے اسے تیسری رات کا بتایا تو بعض نے دوسری رات کا شمار کیا۔ حضرت ابن عباسؓ نے دریافت کیا: آپ لوگوں نے چاند کس رات دیکھا تھا، ہم نے کہا: فلاں رات کو۔ ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کو رؤیت کے لیے دراز کردیا۔ وہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے دیکھا ہے35؂
3۔ صاحب سبل السلام فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اِذَا رَأیْتُمُوْہُ فَصُوْمُوْا ‘‘ یہ مخصوص لوگوں سے خطاب ہے۔ اس مسئلہ میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں۔ ان اقوال میں زیادہ قریب یہی ہے کہ کسی شہر والوں کے لئے اور اس سے متصل علاقوں کے لیے اس جگہ کی رؤیت کو لازم قرار دیا جائے۔ ’’اِذَا رَأیْتُمُوْہُ‘‘خطاب لأناس مخصوصین بہ وفی المسئلۃ أقوال و الأقرب لزوم اھل بلد الرؤیۃوما یتصل بھا من الجھات التی علی سمتھا36؂۔مزید یہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل شام کی رؤیت اہل حجاز کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ حضرت کریب ؒ نے 31واں روزہ (شام کے حساب سے) رکھا۔ اس لیے کہ اہل مدینہ کے حساب سے وہ تیسواں روزہ تھا۔37؂
4۔ جناب شمس پیر زادہ رقم طراز ہیں: ’’ہندوستان کا مطلع ایک ہی ہے، لہٰذا ہندوستان میں عام طور پر تاریخیں یکساں رہتی ہیں، البتہ رمضان اور شوال کے چاند کے سلسلہ میں ایک حصہ اور دوسرے حصے کے درمیان اختلاف رہتا ہے لیکن چونکہ عام طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک کے لیے ایک مطلع کا حکم نہ لگایا جائے۔ مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنو نے واضح طور سے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ایک ملک کے جس گوشے میں بھی چاند دیکھا جائے وہ پورے ملک کے لئے معتبر ہوگا۔ ہندوپاک کے بیشتر حصوں اور بعض قریبی ملکوں مثلاً نیپال وغیرہ کا مطلع ایک ہی ہے۔ علمائے ہند و پاک کا عمل ہمیشہ اس پر رہا ہے۔ اور غالبا تجربہ سے بھی یہی بات ثابت ہے‘‘۔38؂
5 ۔ حافظ صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے ’’ ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقے کے لئے معتبر ہوگی یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے اور دونوں گروہوں کے استدلال کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہِ (بخاری ومسلم ) ایک تیسرا گروہ ہے جس کا موقف یہ ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں، یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان میں ایک علاقے کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی ہے۔ پاکستان میں تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے تقریبا یہی موقف اختیارکیا ہے، جس کا اظہار مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی صورت میں مسلسل کئی سالوں سے ہورہا ہے۔ پاکستان میں کسی ایک جگہ رؤیت ہلال کااگر شرعی شہادتوں کی روشنی میں اثبات ہوجاتا ہے تو یہ کمیٹی اسے پورے ملک کے لئے کافی سمجھتی ہے۔ بہرحال یہ ایک معتدل موقف ہے جس پر عمل کی گنجائش ہے۔39؂

تبصرے بند ہیں۔