سچی توبہ

اختر سلطان اصلاحی

نعیم آج دن بھر کلاس میں خاموش رہا، نہ تو اس نے اپنے کسی ساتھی کو چھیڑا اور نہ ہی کسی استاذ کی نقل اتاری ، وہ بہت ہی توجہ سے اساتذہ کے لیکچر کو سنتا رہا۔ دوپہر کے وقفے میں وہ خلاف معمول مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے چلا گیا اور کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
راحیل، یعقوب، شمیم اور اطہر سب کے لئے یہ ایک حیرت ناک صورتحال تھی ۔ آج آخر نعیم کو کیا ہوگیا ہے ؟ نعیم ہی توپورے کلاس کے شرراتی طلبہ کا سردار تھا۔ اسکول کے کسی کونے میں کوئی شرارت ہوتو تمام لوگ نعیم ہی کو اس کا ذمہ دار سمجھتے تھے، اور واقعتا ہر شرارت کا ڈانڈا نعیم سے ہی جاکر مل جاتا تھا۔ سب لوگوں کو چھٹی کا انتظار تھا آخر وہ کیا راز ہے کہ نعیم اچانک اس قدر بدل گیا۔
چھٹی کے بعد شمیم ہمت کرکے آگے بڑھا اور بولا مزاج کیسے ہیں؟ آج پورے دن بڑی خاموشی رہی۔ کیا طبیعت کچھ گڑ بڑ تو نہیں ہے؟
نہیں یار طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے ۔ بس ایسے ہی آج جی میں آئی کہ ذرا شرافت کے ساتھ ایک دن گزار ا جائے، ماشاء اللہ اچھا گزرا۔
یہ انوکھا اور عجیب و غریب خیال تمہارے دل میں کیسے آیا۔ کیا یہ کوئی تجربہ ہے یا آئندہ واقعی شریف بننے کا ارادہ ہے ؟
آج تو تجربہ ہی تھا مگر سبق یہ ملا کہ شرافت کے ساتھ رہنے میں زیادہ آرام ہے۔ ایک تو ٹینشن نہیں رہتا دوسرے لوگوں کی دعائیں بھی ملتی ہیں۔ کوئی نہ تو بدگمان ہوتا ہے اور نہ ہی برا بھلا کہتا ہے ۔
آخر یہ نرالا خیال تمہارے دل میں کیسے آیا؟
یہ خیال رات میں ابو ، امی کی بات سن کر میرے دل میں آیا، رات میں جب میں سوگیا تو ابو امی سے کہنے لگے ’’ہمارے نعیم میاں کی شرارتوں سے محلہ، شہر اور اسکول تنگ ہے، کل اس کے پرنسپل دیویکر صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے ’نعیم آپ کا لڑکا ہے ، ہم نے آپ کی شرافت کی وجہ سے اسے اسکول میں رکھا ہے، ورنہ اسکول کے تمام بچے اور ٹیچرس اس کی شرارتوں سے عاجز ہیں۔ سمجھ میں نہیںآتا کہ اتنے شریف باپ کا لڑکا کیسے اتنا شریر ہوگیاہے آپ اسے گھر پر سمجھائیے کیوں وہ آپ کا نام خراب کررہاہے ‘‘۔
’’دیویکر صاحب کی باتیں سن کر مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا ۔ کاش نعیم کے اخلاق و کردار ایسے ہوتے کہ ہر آدمی اس کی تعریف کرتا اور ہمیں اس طرح ذلیل اور شرمندہ نہ ہوناپڑتا۔
ابو کی بات سن کر امی نے بھی ایک سرد آہ بھری اور بولیں ’’سب خدا کی مرضی ہے ، ہم لوگوں نے نعیم کی تعلیم و تربیت میں تو کوئی کمی نہ چھوڑی مگر نعیم اچھا ہونے کے بجائے اور بگڑتا جارہاہے ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے امی رو پڑیں اور پھر ابو نے بھی دعا کے لے ہاتھ اٹھا دئیے ، دونوں رو رو کر میرے لئے دعا کرتے رہے اور میں ندامت اور شرمندگی سے گڑا جارہا تھا، بار بار ذہن میں ایک ہی بات آرہی تھی کہ میری حرکتوں کی وجہ سے میرے والدین کو کتنی تکلیف ہے۔ اور پھر میں نے تمام شرارتوں سے توبہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا اُدھر ان دونوں کی دعا ختم ہوئی ادھر میں بول پڑا’’ابو اور امی آج میں آپ دونوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہ دوں گا۔ اب ہر آدمی نعیم کی شکایت کے بجائے اس کی شرافت کے قصے بیان کرے گا۔ ابو ، امی میں آج تمام گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہوں‘‘۔ امی اٹھ کر سامنے آگئیں اور انہوں نے میری پیشانی چوم لی ۔

تبصرے بند ہیں۔