تحصیل مال سے زیادہ حصول علم پر توجہ دینا، وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

آج مسلم معاشرے میں حصول علم سے زیادہ تحصیل مال و دولت پر زیادہ توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم مال سے زیادہ علم کی جانب توجہ کریں۔ مسلمان جس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور جس کتابِ ہدایت کو سرکار دو عالمﷺ کا عظیم اور زندہ جاوید معجزہ مانتے ہیں اس کو قرآن کہا جاتا ہے چونکہ اس کتابِ انقلاب کی پہلی وحی ’اقرا‘ ہے  جس کے معنی پڑھنا کے ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی وحی کا تعلق مال و دولت سے نہیں بلکہ علم و دانشمندی سے ہے۔ گویا رب کائنات نے اس وحی کے ذریعہ اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا کہ معاشرے میں صالح انقلاب لانے کے لیے مال و دولت سے کہیں زیادہ علم و عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

 حدیث شریف میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا کہ ایک لمحہ کا غور و فکر ہزار سالوں کی عبادتوں سے بہتر ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں مومنانہ کردارکا بنیادی تقاضہ تو یہ تھا کہ مسلمان مال و دولت کو بٹورنے سے زیادہ حصول علم پر زیادہ توجہات مرکوز کرتے۔ چونکہ ہمیں یہ تعلیم بھی دی گئی کہ مال و دولت سے شدید لگائو وہ لوگ رکھتے ہیں جو شیطانی آرائش و زیبائش اور وساوس کا شکار ہوتے ہیں، حلال و حرام کی امتیازات مٹاکرمال و دولت کماتے ہیں اور اس کو خودپسندی و خود غرضی کی راہ میں استعمال کرتے ہیں۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلم مال و دولت سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرلے چونکہ قرآن مجید نے جہاں مسلمانوں کو علم کی اہمیت و فضیلت سے واقف کروایا وہیں اس نے مال و دولت کی افادیت و ضرورت سے امت مرحومہ کو روشناس بھی کروایا ہے۔ سورۃ الجمعہ میں نہ صرف کسب و تجارت اور روزی طلب کرنے کی ترغیب دلائی گئی بلکہ اسے فضل الٰہی سے تعبیر کیا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حصول مال کوئی مذموم چیز نہیں ورنہ قرآن حکیم مال کو  خیر سے تعبیر نہ کرتا۔ قرآن مجید کا مال کو خیر سے تعبیر کرنا خود اس بات کی بین دلیل ہے کہ مال بذات خود کوئی بری چیز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مال مختلف انواع و اقسام کی نیکیوں کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ مثلاً اگر انسان کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ خیرات، صدقات واجبہ و نافلہ، زکوٰۃ، اور حج کرنے کی سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ان حقائق کے باوجود اگر ہم آیات قرآنیہ اور تعلیمات اسلامیہ کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ میں مال پر علم کو فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔ مال و دولت کے حصول حسنات میں ممد و معاون ثابت ہونے کے باوجود قرآن مجید نے کسی مقام پر یہ نہیں کہا جس کو ہم نے مال و دولت سے سرفراز کیا ہے اس کے درجات ہم نے بلند کردیے البتہ علم کے بارے میں یہ بات ضروری کہی گئی ہے۔

یعنی اللہ تعالی کے پاس بلندیٔ مراتب اور رفع درجات کا سبب ایمان و علم ہے مال و دولت نہیں۔ یہ ہماری کتنی بدقسمتی ہے کہ آج ہم اسلام کو ماننے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس کی ترجیحات کو ماننے سے عملی طور پر اعراض کررہے ہیں۔ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود مسلم معاشرے میں علماء و دانشوروں کی اہمیت دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے تو دوسری طرف جس مال و دولت کو قرآن مجید نے فتنہ وآزمائش قرار دیا اسی صاحب مال و دولت کی مسلم معاشرے میں عزت و توقیر کی جارہی ہے جبکہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو باطل مقاصد گناہ و تعدی کے امور میں تعاون اور ہم کاری سے منع فرمایا ہے لیکن ہم اسی روش یعنی گناہوں میں مدد کو اختیار کیے ہوئے ہیں جو زمانہ جاہلیت کی خصوصیت تھی جس کا منفی اثر نوجوان نسل پر یہ پڑ رہا ہے کہ وہ تحصیل علم سے زیادہ حصول مال دولت ہی کو کامیابی و کامرانی کی اصل کلید سمجھ رہے ہیں۔ اسی کا ہی خمیازہ ہے کہ آج مسلم گھرانوں میں اسلامی تہذیب کا فقدان ہے، دواخانوں سے انسانی ہمدردیاں رخصت ہورہی ہیں، عدالتوں میں ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور مظلوموں کو انصاف دلانے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے، علمی دانشگاہیں تجارتی مراکز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں اور وہاں سے علم، ادب، تربیت اور تحقیق کے عناصر ناپید ہوتے جارہے ہیں، سیاست انسانی خدمات کے جذبات سے عاری ہوتی جارہی ہے الغرض ہر میدان میں انسانیت شرمسار ہورہی ہے۔

علم پر زر و سیم کو ترجیح دینا ایسا ہی ہے جیسے فرائض پر نوافل کو، دوست کو والدین پر ترجیح دینا۔ مال و دولت کے فتنہ سے بچنا اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ زینت و ثروت کی ریل پیل نہ صرف دولت مند فرعونیوں کی سرکشی و نافرمانی اور فسق و فجور میں اضافہ کی وجہ ہے بلکہ دوسروں بالخصوص غربت و فاقہ کشو ں کو راہ راست سے گمراہ کرنے کا سبب بھی ہے چونکہ دولت کی فراوانی کے آگے عموماً ان کی قوتِ مدافعت جواب دے دیتی ہے۔ اس طرح ساری انسانیت مصیبت زدہ اور فرسودہ معاشرے کا شکار ہوجاتی  ہے۔ اسی لیے حضرت سیدنا موسی کلیم اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کے جرائم کے خلاف دعاء ضرر فرمائی اور اس کی دولت کو بے اثر و بے وقعت کردینے کی رب کائنات سے درخواست کی جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں نقل فرمایا ترجمہ : ’’اور عرض کی موسیٰ نے اے ہمارے پروردگار! تو نے بخشا ہے فرعون اور اس کے سرداروں کو سامانِ آرائش اور مال و ولت دنیوی زندگی میں اے ہمارے مولا! کیا اس لیے کہ وہ گمراہ کرتے پھریں (لوگوں کو) تیری راہ سے اے ہمارے رب! برباد کردے ان کے مالوں کو ‘‘ (سورۃ یونس آیت 88ٌ)۔ سورۃ التوبہ کی آیت 55 کے مطابق مال و دولت کی فراوانی دنیا پرستوں کے حق میں عذاب کا ذریعہ چونکہ جو لوگ مال و دولت کو جمع کرنے کی خاطر حلال و حرام کے امتیازات کو مٹادیتے تو وہی مال ناپاک جہاں ایک طرف ان کے لیے رنج و الم اور عذاب الیم کا سبب بن جاتا ہے تو دوسری طرف آخرت پر نعمت اور وسیع دنیا کو فراموش کرنے کی وجہ۔ انسان کے حق میں یہ بھی بہت بڑا عذاب ہے کہ وہ دنیوی آسائش اور خوشیوں کی خاطر عقبی کی دائمی راحتوں کو فراموش کردے۔ علاوہ ازیں دولت سے بے انتہاء محبت کرنے والوں کے لیے موت کا مرحلہ بے انتہاء کربناک اور دردناک ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ سرکشی و نافرمانی کی حالت ہی میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

سورۃ الزمر کی آیت 9 میں ارشاد ربانی ہے ترجمہ:’’ آپ پوچھیے کیا کبھی برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جاہل‘‘۔ اس آیت پاک میں صاحبان علم و دانش اور ناآگاہ لوگوں کا جس طرح موازنہ کیا گیا ہے قرآن مجید نے اس طرح کا موازنہ امیر و غریب میں نہیں کیا۔ چونکہ بہت سارے غریب ایسے ہیں جو پیسہ والوں سے بہتر ہے جیسے غریب فرمانبردار بندے امیر نافرمان بندوں سے بہتر و افضل ہے۔ لیکن کوئی جاہل پوری کائنات میں ایسا نہیں ہے جو بارگاہ الٰہی میں اہل علم و دانش سے بہتر ہو۔ یہ کس قدر معیوب بات ہے کہ دین اسلام نے جس مال کو فتنہ اور گمراہی و ہلاکت کا سبب گردانہ ہے ہم اسی کے حصول میں تمام توانائیاں صرف کررہے ہیں جبکہ ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ مال وراثت میں سب کا حصہ متعین و مقرر ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کو جمع کرنے میں پوری زندگی وقف کردی تھی۔ اور جس علم کو رفع درجات و بلندی مراتب کی وجہ قرار دیا گیا ہے اس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو روزگار اور معاشرے میں بہتر رتبہ حاصل کرنے کے لیے۔ علم کو صرف اس لیے حاصل کیا جائے تاکہ خالق کو راضی اور مخلوق کو نفع پہنچایا جاسکے۔

 جب مسلمانوں کی ترجیحات میں علم کو مال پر فوقیت دی جانے لگے گی اس وقت اس قوم کی عظمت رفتہ از خود بحال ہوجائے گی، امامت و قیادت کا چھینا ہوا تاج اس کے سر پر دوبارہ سجادیا جائے گا۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان ہم کو چاہیے کہ مال و دولت سے زیادہ ایمان و علم کو ترجیح و فوقیت دیں تاکہ مسلم معاشرے میں پائی جانے والی تمام برائیوں کا جڑ سے خاتمہ ہوسکے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔