عصرِ حاضر میں فقہ النوازل کی ضرورت و اہمیت

ابو عفاف عبدالوحید عبد القادر سلفیؔ ریاضیؔ

دنیا جس برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، اقبال و ترقی کے جو مدارج طے کررہی ہے، صنعت و تجارت اورسیاست و معاملات کے میدان میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان سے زندگی کے مسائل بھی خوب بڑھ گئے ہیں بلکہ ہر آن ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ان مسائل کو سمجھنے اور زندگی کی رفتار کے ساتھ انہیں جوڑنے کے لئے لوگ قانون سازی کا سہارا لے رہے ہیں، ان کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے اسپشلائزڈ مراکز اور ریسرچ سنٹروں سے رائے مشورے کرتے ہیں اور حسبِ قدرت و طاقت ان کے حلول ڈھونڈھ کر اپنی زندگیوں میں برت رہے ہیں۔ واضح ہو کہ ان مسائل اور تبدیلیوں کا تعلق اس روئے زمین پر بسنے والے تمام اقوام و افرادِ عالم سے ہے جن میں ہم بھی شامل ہیں اور ان معاشرتی، صنعتی، سیاسی، تجارتی، معاملتی اور تعلیمی الٹ پھیر کے ہم بھی شکار ہیں لیکن کیا ان مسائل کے حلول ہمیں دیگر اقوامِ عالم ہی کی طرح ڈھونڈنا ہے یا ہمیں انہیں شرعی اصولوں پر پرکھنے کی ضرورت ہے؟

ظاہر سی بات ہے کہ ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرے اور اپنے تمام مسائل کا حل وہیں سے تلاش کرے تاکہ جدید مسائل و نوازل کو سمجھنے اور علی وجہ البصیرۃ زندگی گزارنے میں اسے اطمینان و سکون حاصل ہو او ر اسلام پر ثبات قدمی کے ساتھ وہ آگے بڑھ سکے اس پختہ ایمان و یقین کے ساتھ کہ شریعتِ مطہرہ پر عمل آوری میں اس کے قدم کبھی متزلزل نہ ہوں۔ تو آئیے اس موضوع کی وضاحت سے پہلے ہم فقہ اور نوازل کے معنی ومفہوم سمجھتے ہیں پھر اس کی اہمیت و افادیت پر غور کرتے ہیں۔

الفقہ لغۃ: یہ لفظ فَقِہَ یا فَقَہَ یا فَقُہَ کا مصدر ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کا ادراک کرنا اور اس کا علم رکھنا، اور کسی بھی چیز کے بارے میں جو علم ہو وہ فقہ ہے۔ لفظ فقہ قرآن میں علم کے معنی میں وارد ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول میں (فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ)(سورۃالتوبۃ: ۱۲۲) لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ کا مطلب: تاکہ وہ دین کے عالم بن جائیں (لسان العرب: ۱۰؍۳۰۵) اور فقہ فہم کے معنی میں بھی آتا ہے (معجم مقاییس اللغۃ:۲؍۴۷۹)اور بعض اصولیین کے نزدیک فقہ مطلقا فہم کے معنی میں آتا ہے (الاحکام فی أصول الأحکام : ۱؍۲۲) فقہ فہم کے معنی میں قرآن میں بھی وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (فَمَا لِہَؤُلٓاءِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیْثاً)(سورۃ النساء: ۷۸)اور حدیث رسول اللہ ﷺ’’ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًایُفَقِّھْہُ فِي الدِّیْنِ‘‘(بخاری: کتاب العلم: ۷۱) ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’یفقھہ‘‘کا مطلب ’’یفھمہ‘‘ یعنی اسکو سمجھے۔(فتح الباری: ۱؍۱۶۴)

الفقہ اصطلاحا:

اور فقہ کا اطلاق اصطلاح میں چند معانی پر ہوتا ہے جوباہم ایک دوسرے سے مرتبط ہیں۔ پہلا معنی: شرعی نصوص میں غور و فکر اور اجتھاد کی صلاحیت اور اس سے احکام کے استنباط کی مہارت اور قدرت۔ اسے فقہی مہارت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ (حاشیۃ للعطار علی جمع الجوامع: ۲؍۴۲۰) دوسرا معنی: شریعت کے عملی احکام کی معرفت ان کے دلائل کی روشنی میں۔ (المدخل الفقھی العام: ۱؍۶۵)

النوازل کا لغوی معنی:

یہ نازلہ کی جمع ہے۔ اس کا معنی کسی چیز کا نیچے اترنا اور واقع ہوناہے۔ (معجم مقاییس اللغۃ :۵؍۴۱۷) اور نازلہ کا دوسرا معنی ہے مصیبت اور زمانے کی سختیاں و پریشانیاں جن سے لوگ دوچار ہوتے ہیں۔ (المصباح المنیر: ۲؍۶۰۱)

النوازل اصطلاحا:

(۱) دکتور حسن الفیلالی نوازل کی اصطلاحی تعریفکرتے ہوئے کہتے ہیں : ایسا واقعہ اور حادثہ جو کسی شخص کو درپیش ہو خواہ عبادات کے سلسلے میں یا معاملات، سلوکیات اور اخلاقیات کے سلسلے میں ہو تو یہ شخص اس انسان کی طرف رجوع کرتا ہے جو اس نازلہ کے سلسلے میں اسے شرعی حکم سے آگاہ کرے۔ (فقہ النوازل وقیمتہ التشریعۃ والفکریۃ: ۲۳۰)(۲)ایسا مسئلہ جو شرعی حکم کا محتاج ہو۔(معجم لغۃ الفقھاء: ۴۷۱)

شیخ بکر ابوزید کہتے ہیں : نوازل سے مراد جدید مسائل، معاملات اور حادثات ہیں جسے عصرِ حاضر کی زبان میں ’’النظریات والظواھر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ (فقہ النوازل: ۱؍۹)دکتور وھبہ الزحیلی کہتے ہیں کہ : نوازل یا واقعات یا عملیات معاشرے کو درپیش وہ جدید مسائل و اجتھادات ہیں جو کثرتِ اعمال اور پیچیدہ معاملات کے سبب حاصل ہوتے ہیں جن کے بارے میں براہِ راست کوئی شرعی دلیل یا سابقہ فقھی اجتھاد نہ پایا جائے جسے ان مسائل پر فٹ کیا جاسکے۔ (سبل الاستفادۃ من النوازل والفتاویٰ والعمل الفقھی: ۹)۔ مذکورہ بالا وضاحت سے فقہ اور نوازل کا معنی و مفہوم پوری طرح سے واضح ہوجاتا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ فقہ النوازل کا مفہوم ہے کسی بھی زمانے میں جو جدید مسائل، واقعات اور احداث رونما ہوتے ہیں جن کے بارے میں شریعت میں صریح نصوص نہیں ہیں اس سلسلے میں شریعت کے ماہرین اور مجتہدین علماء کرام کی جانب رجوع کرنا تاکہ ان کا صحیح شرعی حل تلاش کیا جاسکے۔ اب آئیے ہم موجودہ زمانے میں فقہ النوازل کی ضرورت و اہمیت پر غور کرتے ہیں۔

امتِ مسلمہ موجودہ دور میں نفسیاتی ہزیمت کا شکار ہے۔ مسلم نوجوان منظم پیمانے پر کفر والحاد اور تشکیک کے راڈار پر ہیں جس سے انکی فکری اور ثقافتی بنیاد خطروں کے بھنور میں ہے۔ مزید برآں مادیت پرستی اور مغربی تہذیب و تمدن اور لادین لائف اسٹائل کا کلچر اس قدر عام ہوتا جارہا ہے کہ افرادِ امت مطلق العنانی کے ساتھ اس کی تبعیت و تقلید پر دل نچھاور کئے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ امتِ محمدیہ کی ایک بڑی تعداد اپنے اسلامی مظاہر کے اظہار اور دینی تعلیمات و احکام پر عمل آوری سے کتراتی ہے اور بعض دفعہ تو نفسیاتی طور پر ان کی انکاری بھی ہوجاتی ہے۔

عصرِ حاضر کی ترقیات اور بدلتے حالات کا جائزہ لینا، جدید ایجادات و مخترعات کے سلسلے میں شرعی موقف کا اظہار اور بدلتے دنیاوی منظر نامے کے بارے میں شرعی حلول کی کوشش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مشکوک لوگوں کے دلوں میں اسلامی تعلیمات کے تئیں اعتماد بحال ہوسکے اور ضعیف الایمان حضرات کے ایمانی پہلو کو تقویت بہم پہونچائی جاسکے اور اہلِ ایمان اپنے ایمان و یقین پر استقامت کے ڈگر پر قائم رہیں۔ اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے اسلامی جامعات، بحث و تحقیق کے مراکز، فقہ اکیڈمیاں، اور افتاء کمیٹیوں کے پاس اتنے امکانیات اور وسائل و افراد موجود ہیں جو عصرِ حاضر کے جدید مسائل و مستجدات کے سلسلے میں علمی بحث و تحقیق کو بروئے کار لاتے ہوئے کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ تمام علمی مؤسسات موجودہ زمانے میں نوازل و مستجدات کے تئیں شرعی حلول پیش کرنے کے سب سے اہم اور ذمہ دار ادارے ہیں جن کے ذریعہ بروقت مختلف فیہ، پیچیدہ اور دن بدن رونما ہونے والے مسائل و نوازل کے سلسلے میں رہنمائی کرنا اور شرعی موقف کی وضاحت اور بحوث و ریسرچ کے ذریعہ امت کی رہنمائی بحسن وخوبی انجام دی جاسکتی ہے۔ نئے نئے احداث و مسائل کے تئیں شرعی موقف کی وضاحت وقت کی بہت اہم ضرورت ہے اور آج انسانی نشاطات کا دائرۂ کار اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ ان کا اندازہ لگاناکافی مشکل ہے۔ یہ حرکات و نشاطات کسی خاص طبقے یا قوم کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ پوری انسانیت کو شامل ہیں جس میں مسلمان بھی شامل ہے۔ اسی لئے اسے ہر قدم پر نوازل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔

آپ کو اندازہ ہوگا کہ فقہ کا کوئی باب ایسا نہیں ہے جس میں ایسے مسائل نہ پائے جاتے ہوں جس میں اجتھاد اور تجدیدِ جھود کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔مثلا وراثت کے باب میں حمل کی وراثت کا حکم، اکسرے(X-Ray)کے ذریعہ حمل کی جنس اور تعداد کی تحدید،جدید اصولِ تجارت اور انویسمنٹ نیز جدید طریقۂ علاج وغیرہ۔ اس لئے کسی بھی زندہ قوم کے لئے کارگاہِ حیات میں اجتھاد وتجدیدکا عمل ناگزیر ہے۔ جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ امت اسلامیہ جب اپنے اوجِ کمال کو پہونچی ہوئی تھی اور تہذیب و تمدن کے ہر شعبہ میں اس کا بول بالا تھا تو اس وقت فقھی مسائل اور اجتھادات امت کی حاجت و ضرورت کے شانہ بہ شانہ آگے بڑھ رہے تھے جسے مجتھد ائمہ کرام نے تاصیلا اور تطبیقا اپنے زمانے میں ثابت کرکے دکھایا بھی۔

یہ نقطہ بھی قابلِ غور ہے کہ فقہ النوازل کا اہتمام مہذب اور زندہ قوموں کا خاصہ ہے جن کے یہاں عمل کی قیمت اور اصول و ضوابط کی بڑی اہمیت ہے، جہاں اظہار رائے کی آزادی کا سازگار ماحول ہوتا ہے، ایسے معاشرے میں بڑے پیمانے پر معاشرتی اور اجتماعی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کے سبب زندگی کے مختلف مجالات میں نوازل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے مثلا تجارت، صنعت، سیاست، تعلیم اورمعاشرتی عادات و تقالید وغیرہ۔ پَل پَل بدلتے لمحات اور عصرِ حاضر کے مقتضیات کے پیشِ نظر اس امر میں دورائے نہیں کہ موجودہ زمانے میں اجتھاد کی ضروت و اہمیت سابقہ تمام ادوار کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ کثرتِ نوازل، پیچیدہ مسائل، برق رفتاری سے مسائل زندگی کی اتھل پتھل، شرعی اصول و ضوابط کے ماحول سے دوری اور جدید وضعی نظام کے چیلنجز کے سبب جدید مسائل و نوازل کے حلول کے لئے علماء امت کو بڑی ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنے اور منظم طریقے سے ان کادراسہ اور حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مجتھد کا کا م یہ ہے کہ مکلفین کے افعال و اعمال کے سلسلے میں شرعی حکم اور دلیل کا ادراک کرے خواہ ان افعال کا تعلق خاص عبادات سے ہو مثلا صلاۃ، حج اور صوم وغیرہ یا حقوق و معاملات سے ہو یا نکاح و طلاق، تجارت و سیاست اور قضائی احکام وغیرہ سے۔ جب بھی زندگی کے کسی شعبے سے متعلق لوگوں کو شرعی احکام کی ضرورت محسوس ہوگی تو وہ فطری طور پر علماء و مفتیانِ کرام کی جانب ہی رجوع کریں گے تاکہ انہیں متعلقہ مسئلے میں اطمینان و تسلی حاصل ہوسکے۔اور اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ معاشرتی و ملکی اعراف و تقالید اور سیاست کے سبب بہت سارے مسائل کے بارے میں فتویٰ صادر کرنا کافی مشکل امر ہوتا ہے اس لئے نوازل اور جدید احوال و کوائف اور اوضاع و ظروف پر گہری نظر ہونی چاہئے،چنانچہ ایک مجتھد عالم ہی ایسے معاملے میں شرعی موقف واضح کرنے کا مجاز ہوگا اور ہرکس و ناکس اور کم علم کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ایسے حساس مسائل میں رائے دہی کرے۔ جب ہم کو علم ہوتا ہے کہ اس طرح کے تمام مسائل کا حل ہماری شریعتِ مطہرہ میں موجودہے اور ہر زمانے کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے تو یہ چیز بذاتِ خود اس بات کی دلیل بن جاتی ہے کہ فقہ اسلامی کے اندر وہ طاقت و قوت اور قدرت موجود ہے جو زمانے کے بدلتے مزاج کو پرکھ سکے، اسکے متغیرات کی جانچ پڑتا ل کرسکے، نوازل و احداث کا مقابلہ کرسکے اور اجتھاد کی نعمت کو بروئے کار لائے اور ہر چھوٹے بڑے قدیم و جدید اور تمام مجالات سے متعلق مسائل کا تشفی بخش حل پیش کرسکے۔

آج مسلم نوجوان بڑی تعداد میں عصری علوم کی خوشہ چینی کررہے ہیں جنہیں اکثر و بیشتر جدید مسائل و معاملات کا سامنا ہوتا ہے بطورِ خاص جو میڈیکل، انجینئرنگ، اقتصادیات، سیاسیات اور صنعت و زراعت کے تخصصات اور فیلڈ سے منسلک ہیں، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جدید مسائل کے بارے میں انہیں کوئی شرعی علم نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں نصِ صریح بھی معدوم ہوتا ہے جس کے سبب انہیں علمِ شرعی اور علم تجریبی میں ٹکراؤ محسوس ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں اس کا کوئی حل نہیں ہے تو اس طرح وہ علم شرعی و تجریبی میںتناقض اور انفصام کی کیفیت محسوس کرتا ہے اس لئے جدید طبی مسائل، عقود و معاملات اور نئے اصولِ تجارت و معاشیات کے سلسلے میں شرعی نقطۂ نظر کی تحقیق و ریسرچ از حد ضروری ہے ورنہ اہمال و عدم اہتمام کی صورت میں لوگ حیرت و اضطراب کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اسلامی ملکوں کے ذمہ داران اس طرف خصوصی توجہ دیں اور اس کارِ عظیم کے لئے بحث و ریسرچ کے ایسے مراکز کا قیام عمل میں لائیں جو زمانے کے تمام لازمی وسائل وادوات سے لیس ہوں۔ اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے تمام امور مختلف جماعات و تنظیموں کی قیادت میں انجام پاتے ہیں، ایسی جماعتوں، تنظیموں، مراکز، مدارس اور جامعات بلکہ یوں کہا جائے کہ تمام علماء دین سے یہ مطلوب ہے کہ جدید مسائل اور نوازل کے حلول کے لئے ایسے متخصص مراکز اور ریسرچ سینٹر کا قیام کریں جوماہر فن علماء کرام کے زیر اشراف چلیں اور ان کا فیصلہ تمام لوگوں کے لئے بطورِ سند قابل قبول ہو اور اس طرح سے انفرادی آراء اور فتوی بازی سے بچا جاسکے تاکہ آئے دن دین کا مزاق و استہزاء نہ اڑایا جائے اور نہ ہی انفرادی فتوی و اجتہاد کا اس کے مقابل کوئی اعتبار ہو اور اس طرح شرعی امور و معاملات بھی منظم ہوجائیں گے اور لوگوں کو معتبر جگہ سے تمام شرعی امور اور مستجدات و نوازل میں صحیح دینی رہنمائی ملتی رہے گی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس اہم ترین موضوع پر عربی زبان میں اچھا خاصا کام ہوا ہے اور اس سلسلے میں کئی کتابیں اور تحقیقی رسالے بھی منصہ شہود پر نمودار ہوئے ہیں مثلا: فقہ النوازل : د. بکر بن عبداللہ ابو زید، فقہ النوازل وقیمتہ التشریعیۃ والفکریۃ: د.حسن الفیلالی، سبل الاستفادۃمن النوازل والفتاوی والعمل الفقھي: د. وھبہ الزحیلي، منھج استنباط أحکام النوازل الفقھیۃ المعاصرۃ: د. مسفر بن علی القحطاني، فقہ النوازل للأقلیات المسلمۃ تأصیلا وتطبیقا: د. محمد یُسري ابراھیم وغیرہ۔ نیز عرب علماء خصوصا سعودی کبار علماء بورڈ کے فتاوے اس سلسلے میں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں جن سے ہم پوری طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اردو زبان میں اس موضوع پر خال خال ہی کوئی کام نظر آتا ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ اردو زبان میں اس اہم موضوع پر کتابیں اور رسالے معدوم ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ النوازل کے موضوع پر کتابیں تیار کی جائیں، علماء مجتھدین اور شریعت کے ماہرین کے فتاوے اور مقالات مرتب کئے جائیں تاکہ برق رفتاری سے بدلتے حالات اور لامحدود جدید مسائل و حوادث کے حل کے لئے امت کی رہنمائی علی وجہ البصیرہ کی جاسکے۔ یہ موضوع موجودہ دور کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس میں کوتاہی ہمارے لئے ناقابل تلافی انجام و نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں دکتور محمد یسري ابراھیم کی کتاب’’ فقہ النوازل للأقلیات المسلمۃ تأصیلا و تطبیقا‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔