شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

ریاض فردوسی

ایک وہ وقت تھا کہ مسلمان تعداد کے اعتبارسے بہت کم تھے مال ودولت سے ان کے ہاتھ خالی تھے۔ سازو سامان کا ان کے پاس نام ونشان نہ تھا۔ اسلحہ اور سامان حرب وضرب کا فقدان تھا اور مادی طاقت وشوکت سے بے بہرہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ قیصر وکسریٰ جیسے عظیم حکمرانوں سے لو ہالیے اور انہیں سپر انداز ہونے پر مجبور کردیتے تھے۔ وہ دنیا کے جس جس گوشے کی طرف رخ کرتے فتح ونصرت اور کامیابی وکامرانی ان کے قدم چومتی اور اس دور کی مہذب ترین قومیں انہیں رحمت خداوندی کی نشانی سمجھ کر ان کی راہ میں آنکھیں بچھادیتیں، دنیا لاکھ چاہے لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتی کہ نہایت قلیل مدت میں انہوں نے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک اپنی عظمت وسر براہی کے جھنڈے نصب کر دئیے لیکن آج کلمہ گو مسلمان ہیں کہ بلا استثناء دنیا کے ہر حصہ میں پست وزبوں حال ہیں حالانکہ اب ان کی تعداد بھی بہت ہے اور مادی وسائل سے بھی وہ اتنے تہی دست نہیں ہیں جتنے ان کے اجداد تھے جن کی بالا دستی اور عظمت کو دنیا نے تسلیم کیا تھا اور جنہوں نے کرئہ ارض کی خالی جھولی کو علم ودانش اور تہذیب وشائستگی کی دولت سے بھر دیا تھا۔

آج زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر بسنے والے مسلمانوں کے متعلق آئے دن درد ناک خبریں سننے میں نہ آتی ہوں۔ جہاں ان کی زندگی اجیرن نہ ہورہی ہو اور جہاں انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے سامان نہ کئے جارہے ہوں۔

ہم اس درد ناک حالت پر آنسو بہاتے ہیں ہم اپنی اس حالت کا الزام تو چیخ چیخ کر اغیار پر رکھتے ہیں او رہم اس کا  ذمہ دار  در یغ کو ٹھہراتے ہیں لیکن کبھی آئینہ میں اپنی شکل نہیں دیکھتے کبھی اتنا بھی نہیں سوچتے کہ آخر وہ کون سانسخئہ کیمیا تھا جس کے استعمال نے ہمارے مورثوں کو خستہ حالی اور بے مائیگی کے باوجود اتنا سر بلند کیاکہ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اور تہذیب وترقی کا کوئی دور ان کی عظمت وبرتری کو بھلا نہیں سکا اور جس کے ترک کردینے سے ہم اس حال کو پہنچ گئے ہیں کہ

   پھر تے ہیں میرخوار کوئی پوچھتانہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول برحق ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں سے ارشاد فرمایا تھا۔ ( اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تمہاری طاقت کمزو ر ہوجائیگی اور ہوا اُکھڑ جائیگی۔ ۔ القرآن)۔ اس نسخہ میں دوا بھی ہے جو صحت وتوانائی بخشتی ہے اور وہ ہے اللہ اور اس  کے رسو ل ﷺ کی اطاعت کرنا۔ اس میں پرہیز کا خیال نہ رکھا (یعنی اتحاد کی رسی کو چھوڑ دیا )اور باہم لڑنے جھگڑنے لگے تو تم لازماً کمزور ہوجائوگے اور تمہاری عزت و عظمت خاک ہوجائیگی۔

یہ نسخئہ کیمیا کسی خاص زمانے، کسی مخصوص قوم، یا کسی معین ملک کے لیے نہیں ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مشرق ومغرب شمال وجنوب اقوام وافراد کالے اور گورے۔ سب کے لیے یکساں وموثرہے۔ جب تک ہم نے اسے استعمال کیا اور پر ہیز کا بھی خیال رکھا۔ چار دانگ عالم نے ہمار الوہامانا اور جب سے ہم نے اس کا استعمال ترک کیا اور جی کھول کر بدپرہیزی کرنے لگے۔ تو ذلتوں اور تباہیوں نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ کوئی ہمارادشمن نہیں ہے۔ اغیار کا شکوہ لغو اور فضول ہے، ہم خود اپنے دشمن ہیں ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں۔ نسخہ اب بھی اپنے تمام تر اثرات کیساتھ موجود ہے۔ اگر ہم اسے استعمال کرنے لگیں اور پرہیز کا خیال رکھیں۔ باہمی تنازعات کو ختم کردیں تو یقین کیجئے کہ نتائج اب بھی وہی ہوں گے جواب سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہوئے تھے۔ سربراہی وسربلندی علم ودانش اور سائنس وحکمت پر اسی طرح آپ کی اجارہ داری ہو گی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اللہ بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے (آل عمران آیت ۳۱)

خاتم النبیین ﷺ نے یہ راز حرف بتایا کہ بندہ خالق کو اسی وقت پہچان سکتا ہے جب اس کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو۔ وہ اپنے اندر وباہر۔ ظاہر وباطن ہر طرف نظر دوڑا کریہ دیکھنا ہوگا کہ ہم کس حد تک خود فریبی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہمارے نفس نے ہمیں اپنے رب سے دور تو نہیں کردیا؟ ایسا تو نہیں ہے کہ دوسروں کو نصیحت کے عمل نے ہمیں خود اپنے آپ سے بے خبر کردیا ہے۔ خاتم النبیین، رحمۃ للعٰلمین ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنے اوپر محیط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور پاک ﷺ نے جس طرح زندگی گزار ی ہے ہم بھی اس کا عملی مظاہرہ کریں۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ نے معاشرت معیشت، جنگ اور امن غرض زندگی کے ہرشعبے میں اس ابدی راز کی عملی تفسیر پیش کی ہے کہ( میری نماز میری قربانی میر امر نامیرا جینا سب رب العٰلمین کے لیے ہے)۔

اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا جوبھی مسنون طریقہ اپنا یا جائے اس میں اخلاص نیت ضروری ہے۔ یاد الٰہی میں اخفا مستحب ہے۔ اس سے اخلاص پیدا ہوتا ہے اور ریا کاری راہ نہیں پاتی۔ اخفا اس لئے بھی ضروی ہے کہ نمودو نمائش او رریا کاری عمل کو برباد کردیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کو خشوع وخضوع اور تضرع وزاری کے ساتھ یاد کیاجائے جوغفلت اور بے یقینی کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور عاجزی۔ انکساری یقین محکم اور امید پیہم کے بغیر یاد الٰہی بے معنیٰ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔   (تم اپنے رب کو پکار و، روکر، گڑ گڑاکر اور آہستہ آہستہ، واقعی اللہ تعالیٰ حد سے تجاوزکرنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے۔ ) (الاعراف)

اللہ تعالیٰ کے بہت سے صفاتی نام ہیں جن کے ذریعے اسے پکارا جائے جس قسم کی حاجت ہو اسی صفاتی نام سے استفادہ کیا جائے تو بہتر ہے لیکن نہ بہت بلند آواز سے پکارا جائے اور نہ بالکل پست آواز سے۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدناصدیق اکبر  ؓ کو ذرا بلند آواز سے قرآن پڑھنا اور سیدنا فاروق اعظم ؓ کو ذرا کم آواز میں قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی عملی زندگی کا مطالعہ کر کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ حالات حاضرہ پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم جس تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں وہاں سوائے چند نیک سعید روحوں کے علاوہ کسی کو بھی ماحول کی سنجید گی کا پتہ نہیں، یہ در اصل آنے والے طوفان کاپیش روہے۔    رہے منزل میں سب گم ہیں مگر افسوس تو یہ ہے،

  امیر کارواں بھی ہے انہی گم کردہ راہوں میں

مسلمانوں کی حالت زوال کا ایک بڑا محرک یہ ہے کہ ان کو اسلام کی علمی تاریخ کے نام پرجو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اکثر ایسی تاریخ ہے جس میں صرف قاضیوں، متکلمین، صوفیوں، محدثین، اور علمائے شریعت کواور ان کے نقطئہ نظر کو اسلامی تاریخ کا مرجع ماویٰ حاصل ہے۔ ’’آرٹ، فنون، سائنس، ٹکنالوجی، نیچرل سائنس، ادب، تعمیر، شہری پلاننگ، اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے عمل اور اس میں ماہرین کو ’’اسلامی علوم کی سند دینے میں ایک ذہنی رکاوٹ رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا اسلامی فقہی ذہن وجود میں آیا، جہاں وضو کے آداب پر ہر قسم کی تفصیلی بحث کرنا اہم قرار پایا لیکن، ’’واٹر کنزرویشن ‘‘کی بحث دنیاوی بحث رہی۔ مسجدیں بنانا جنت میں گھر تعمیر کرنا جیسا کہا گیا(یہ صحیح بھی ہے) اور اسکی محنت بہت کی گئی لیکن آرکیٹکچراور اربن پلانگ کی مہارت ایک دنیاوی عمل رہا۔ خود تفسیر و حدیث کے تحفظ کی تاریخ اسلامی ہے، لیکن اس کے لئے کا غز کی تخلیق، اشاعت کی ٹکنالوجی کی مہارت ایک دنیاوی عمل باقی رہا۔ یہ فقہی ذہن اس قدر غالب رہا کہ اسلامی فقہ کی کسی بھی کتاب میں ’’کتاب البیوع‘‘ تو ہے لیکن پیداوار اور اس کی مارکیٹ اور اس کے خریداروں اور ریاست کے درمیان تعلقات کی تحقیق کرنے والا علم اقتصاد اسلامی بحث سے باہر رہی۔

آج ہمارے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے آپس کے مومن کا فر کے جھگڑے چل رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے پہ تلے ہیں نوجوان نسل عیاشی کے نئے نئے اسباب تلاش کر رہی ہے۔ یاتو نئی نسل دین سے نابلد ہے، یا نام و نہاد مفتیوں سے معاشرہ اٹا پڑا ہے۔ ہر کس وناکس نئے نئے فتنوں سے قوم ملت کے اتحاد کو توڑ نے کی ناپاک کوشش کر رہا ہے۔

ہم مفت کے مفتی ہیں، ہر فتویٰ بتادیں گے شریعت کے سوا

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تولے

یہ گھر جو بہہ رہا ہے، کہیں تیرا گھر نہ ہو

مسلمانوں کو ایک ایسی فقہ کی ضرورت ہے۔ جس میں ہر شہر، ہر قصبہ، ہر گائوں، میں ایک ڈاکٹر کا ہونا فرض کفایہ ہو، اربن پلاننگ اور ماحولیات کے ماہرین کی اتنی تعداد ہونا فرض کفایہ ہو، روز مرہ کے مسائل حل کرنے کے لئے یہ ایک ضروری عمل ہے۔ ملک و ملت کا دفاع کرنے کے لئے آبادی کے ایک طبقے پر دفاعی علوم اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہو۔ تاریخ اسلام میں یہ کام تقریبا بغیر کسی تفریق کے ہوتا رہا ہے، لیکن پچھلے تین سو سال کے دور زوال میں جو فقہی ذہن غالب رہا ہے، اس کے بارے میں ایک تنقیدی نقطئہ نظر کی ضرورت ہے۔ لیکن    آہ رے۔ ۔ ۔ ۔ میری قوم

جو قوم اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے نام پر چہرے سے نقاب نوچتی ہو، اور پھر دھیرے دھیرے وہ بہن، وہ بیٹی اپنا سب کچھ لٹاکر ہوش میں آتی ہو۔ (معاذ اللہ)

اس قوم میں عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، غازی صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ، طارق بن زیاد اور دیگر سرفروشان اسلام پیدانہیں ہوتے۔

جس قوم کے دانشور سنجیدہ خطوط پر ارتقاء کی بنیاد رکھنے کے بجائے، ارتقاء کے نام پر لڑکیوں کی نقاب اترواکر ان کے جسم کے نشیب وفراز ناپ رہے ہوں اوروہ لڑکیاں بھی بے شرمی اور دلداری میں کوئی کسر نہ چھوڑیں،

 اس قوم میں اماں خدیجہ، اما ں عائشہ، مقدس فاطمہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پیدائش کی توقع فضول ہے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لڑکیا ں غلط ہیں یالڑ کے غلط ہیں مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی نکیل مغرب پسند رہنمائوں کے ہاتھوں میں ہیں اور والدین بھی اتنے بے شرم بے حیاء اور بے غیرت ہیں کہ ایک لمحے کو کچھ سوچے بغیر وہ اپنی بیٹیاں ان کے حوالے کردیتے ہیں پھر ان معصوم ذہنوں میں پہلے زہر بھرا جاتاہے، پھر شرم کی تمام زنجیر تو وہ خود سے توڑ کر آزادی نسواں اور ترقی کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کردیتی ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)

اگر اب بھی نہ جاگے تو ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ ان چیزوں میں الجھا کر دین سے دور کر کے طاغوتی طاقتیں اپنے اصل مشن پر پوری توجہ سے کام کر رہی ہیں۔

انداز بیان گرچہ پر کیف نہیں ہے

شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات

 نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندی مسلمانوں

  تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں

  واہ رے ہماری قوم اور ا س کا انداز زندگی!

جس قوم کے فقراء اور غرباء کے پاس رہنے کے لیئے مکانات نہ ہو۔ اور وہاں جلسہ اور جلوس میں لاکھوں روپئے صرف ہوتے ہوں، ۔ ۔ ۔ کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟

جس قوم میں پڑوس کی بیٹی کنواری بیٹھی ہواور بیوائوں اور یتیموں کے لیے کوئی نظم نہ ہو۔ اور قوم کے دولتمند لوگ پر’’عمر ہ پر عمرہ ‘‘کر رہے ہوں، ۔ ۔ ۔ کیا وہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟

جس قوم کے غریب بیماروں کے پاس علاج کا کوئی بندوبست نہ ہو۔ ۔ ۔ اور قوم کے ڈاکٹروں کی فیس غیر  قوم کے ڈاکٹروں سے زیادہ ہوں، ۔ ۔ ۔ کیا وہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟

جس قوم کے ہونہار نوجوان بے روزگاری کے شکار ہواور قوم کے مالدار لوگ اپنے محلات سجائے ااور سنوارنے میں لگے ہوں، ۔ ۔ ۔ کیاوہ قوم ترقی کرسکتی ہے؟

جس قوم کے لوگ اپنے امام اور موذن کا خون چوس رہے ہو، اور مسجدیں سنگ مرمر سے سجائی جارہی ہو، ان مساجد میں عمدہ قالین بچھا کر غریب لوگوں میں احساس کمتری پیدا کی جائے۔ مدرسوں میں غریب کو ذلت اور امیر کو عزت بخشی دی جائے، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟

مسجدوں کی زینت اور زیبائش ایسی ہو، اور ایسا نظم ہو کہ غریب مسلمان مسجد میں آکر احساس کمتری کا شکار ہو، اس بیچارے کواپنی غربت و افلاس کا غم ہوں، کیا وہ قوم ترقی کر سکتی ہے؟

   آہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری قوم کی خوش فہمی۔ ۔ ہم ابھی تک غفلت کی نید سو رہے ہیں،

ہمارے پاس مثالیں توسیدنا  ابوبکر ؓ اوسیدنا ر عمر ؓ کی ہے، لیکن اعمال صالح بزرگوں کے مقابل بھی نہیں۔ شرک کے خلاف مثال دینی ہو تو عمر ؓ کو لے آتے ہیں، اگرچہ بہت سے معاملات میں عمر ؓ کی سیرت معاذاللہ باعث عمل نہیں ہوتی۔ کبھی سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی محبت کو اپنی ٹھال بناتے ہیں، صد افسوس علی ؓ کی حیات سے کوئی لائحہ عمل (توبہ استغفراللہ)ہمیں نہیں ملتا(الاماشاء اللہ)ہم نے صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ذات مبارکہ کو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا ہے۔ (الا ماشاء اللہ)صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنی پوری حیات ان چیزوں کی قربانی دی۔

مالی قربانی، جسمانی قربانی، ، خواہشات کی قربانی۔

اس کے باوجود خشیت الہی میں دن رات آہ و زاری کرتے رہیں، اور محاسبہ کے غم میں ڈوبے رہے، اور ہم ذرا سا عمل کرکے اتنا خوش ہوتے ہیں کہ جیسے ہم صحابہؓ کی سیرت پر پوری طرح عمل کرلیا ہو؟

حضرت خنساء (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اپنے چار فرزندوں کے ساتھ جہاد میں حصہ لینے کے لئے قادسیہ آئیں۔ جس وقت جنگ کا ماحول پوری طرح گرم ہوا تو آپ ؓنے بیٹوں کو حکم دیا کہ، ‘‘ میری بچو! جاؤ اور آخری دم تک راہ حق میں لڑو۔ ‘‘ ماں کا حکم سنتے ہی چاروں بھائی گھوڑوں کی باگیں اٹھائے رجز پڑھتے ہوئے یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے۔ والدہؓ نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو کہا۔ ‘‘ اللہ کا شکر ہے کہ میرے فرزندوں نے پیٹھ نہیں پھیری، اللہ عزوجل نے ان کی شہادت کا شرف مجھے بخشا، اس ذات رحیم سے مجھے امید ہے کہ وہ اپنی رحمت کے سائے میں میرے بچوں کے ساتھ مجھے بھی جگہ دے گا۔ (زرقانی)

بڑھاپے کی حالت میں چار جوان بیٹوں کی ہمیشہ کی جدائی کس قدر تکلیف دہ معاملہ ہے، یہ کسی ماں سے، کسی بڑھے باپ سے پوچھیں تو بہتر ہے۔

ابن عساکر ؒنے حضرت ابن عمر ؓسے روایت کی ہے، کہ میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاں حضرت ابو بکر صدیق  ؓبھی موجود تھے اور وہ ایک ایسی قباء پہنے ہوئے تھے جس کو انہوں نے اپنے سینہ پر کانٹوں سے لگایا ہوا تھا۔ (یعنی بنٹوں یا تکموں کی بجائے اس میں کانٹے لگے ہوئے تھے۔ ) پس اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، ‘‘ یا محمد ﷺ! آج ابو بکر ؓاپنی قباء کو سینے پر کانٹوں سے کیوں اٹکائے ہوئے ہیں ؟‘‘ سرکار دو عالم ﷺنے جواباً ارشاد فرمایا، ‘‘ انہوں نے اپنا تمام مال مجھ پر (اسلام کی ترقی کے لئے) خرچ کر دیا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی، ‘‘ یارسول اللہ ﷺ! اللہ تعالیٰ نے ان پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ان سے کہو کہ‘‘ اے ابو بکر! کیا تم مجھ سے اپنے اس فقر میں راضی ہو۔ ۔ ۔ ۔ یا۔ ۔ ۔ ناخوش ہو؟‘‘

یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ نے کہا کہ‘‘ میں اپنے رب سے ناخوش کس طرح ہو سکتا ہوں ؟ میں تو اس سے راضی ہوں، خوش ہوں، بہت خوش ہوں، بہت راضی ہوں۔ ‘‘ (تاریخ الخلفاء)

علامہ ابن اثیر ؒ فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد حضرت سعد ؓنے بارگاہ ﷺ میں عرض کی، ‘‘  یارسول اللہ ﷺ! میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی بھی شخص میری بدصورتی کے سبب مجھے رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں کئی مقام پر پیغام بھیج چکا ہوں لیکن سب نے رد کر دیا ہے۔

اپنے جانثار کی اس درخواست کو سن کر آپ ﷺکی شان رحیمی نے گوارہ نہ کیا کہ لوگ اسے صرف اس وجہ سے ٹھکرائیں کہ وہ ظاہری حسن و جمال سے محروم ہے۔ چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا، ‘‘اے سعد! گھبراؤ نہیں، میں خود تمھاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں، تم اسی وقت عمرؓو بن وہب ثقفی کے گھر جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا رشتہ آپ کی بیٹی سے کر دیا ہے۔ ‘‘ آپ ﷺکا یہ ارشاد سن کر آپ ؓ شاداں و فرحاں حضرت عمرو بن وھب کے گھر کی طرف چل دئیے۔

حضرت عمرو بن وہب ثقفی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ان کے مزاج میں زمانہ جاہلیت کی درشتی موجود تھی۔ حضرت سعد ؓنے ان کے گھر پہنچ کر انھیں حضور ﷺکے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر، ذہین و فطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہو سکتی ہے؟ انھوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعد کا پیغام رد کر دیا اور بڑی سختی کے ساتھ انہیں واپس جانے کے لئے کہا۔ آپ ؓکی سعادت مند بیٹی نے یہ تمام گفتگو سن لی تھی، جونہی حضرت سعد ؓ واپس جانے کے لئے پلٹے، وہ لپک کر آئیں اور آواز دی کہ، ‘‘اے اللہ کے بندے! واپس آؤ، اگر واقعی رسول اللہ ﷺنے تمھیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمھارے ساتھ شادی کو تیار ہوں، جس بات سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺراضی ہوں میں بھی اس پر راضی ہوں۔ ‘‘

لیکن اتنی دیر میں حضرت سعد آگے بڑھ چکے تھے، اس لئے یہ بات نہ سن سکے۔ پھر نیک بخت بیٹی نے والد سے کہا کہ‘‘ باباجان! قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو رسوا کرے، آپ اپنی نجات کی کوشش کیجئے۔ آپ نے بڑا غضب کیا کہ آقا ﷺکے فرمان عالی شان کی پرواہ نہ کی اور بنی ﷺکے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔ ‘‘ حضرت عمرو بن وھب ؓنے جب یہ بات سنی تو اپنے انکار پر سخت شرمندہ ہوئے اور ڈرتے ڈرتے حضور ﷺکے پاس حاضر ہوئے۔

نبی کریمﷺ نے انھیں دیکھ کر سوال کیا کہ، ‘‘تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا؟‘‘ حضرت عمرو بن وھب ؓ نے عرض کی، ‘‘یارسول اللہ ﷺ! بیشک میں نے انھیں لوٹایا تھا، لیکن یہ غلطی لاعلمی میں سرزد ہوئی، میں ان سے واقف نہ تھا اس لئے ان کی بات پر اعتبار نہ کرتے ہوئے پیام نامنظور کیا تھا، خدا عزوجل کے لئے مجھے معاف فرما دیجئے، مجھے اپنی لڑکی سے ان کی شادی منظور ہے۔ ‘‘ سرورعالم ﷺ نے ان کا عذر قبول فرماتے ہوئے حضرت سعد ؓ سے ارشاد فرمایا، اے سعد! میں نے تمھارا عقد بنت عمرو بن وھب ؓ سے کر دیا ہے، اب تم اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ ‘‘

حضرت سعد ؓیہ مسرت انگیز خبر سن کر بازار گئے اور ارادہ فرمایا کہ دلہن کے لئے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی ارادہ فرما ہی رہے تھے کہ ایک منادی کی آواز کانوں میں پڑی کہ، ‘‘ اے اللہ عزوجل کے شہسوارو! جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت لو۔ ‘‘ آپ ؓ نوجوان تھے، نئی نئی شادی کے ارمان تھے، دل میں ہزارا منگیں اور ارمان تھے، بارہا مایوس ہونے کے بعد شادی کا مژدہ سنا تھا۔ لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوش ایمانی غالب آ گیا اور دلہن کے لئے تحفے خریدنے کا خیال دل سے یکسر نکل گیا۔

جو رقم اس مقصد کے لئے ساتھ تھی، اس سے ایک گھوڑا، تلوار، اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سالار اعظمﷺکی قیادت میں غزوہ میں جانے والے مجاہدین میں شامل ہو گئے۔ آپ ؓکے پاس اس سے پہلے نہ

 گھوڑا تھا نہ تلوار و نیزہ، نہ کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا، اس لئے کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ حضرت سعد ؓہیں۔ میدان جہاد میں آپ ایسے جوش و شجاعت سے لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

ایک موقع پر گھوڑا اڑ گیا تو اس کی پشت سے کودے اور آستینیں چڑھا کر پیادہ پاہی لڑنا شروع کر دیا۔ اس وقت رحمت دو عالم ﷺ نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر انھیں شناخت کر لیا اور آواز دی کہ، ‘‘ سعد!‘‘ لیکن حضرت سعد اس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر اس جوش و وارفتگی سے لڑ رہے تھے کہ حضور ﷺکی آواز نہ سن پائے اور اسی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔

سرکار دو عالم ﷺکو آپ ؓکی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ ان کی لاش کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود مبارک میں رکھا اور پھر دعائے مغفرت کرنے کے بعد فرمایا کہ‘‘ میں نے سعد کا عقد عمرو بن وھب کی لڑکی کے ساتھ کر دیا تھا، اس لئے اس کے متروک سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔ ‘‘ حضرت سعد ؓ کے ہتھیار اور گھوڑا اس کے پاس پہنچا دو اور اس کے ماں باپ سے جا کر کہہ دو کہ اب اللہ عزوجل نے تمھاری لڑکی سے بہتر حور سے سعد ؓکا نکاح کر دیا ہے۔ ‘‘ (زرقانی)

 عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

تبصرے بند ہیں۔