رمضان المبارک میں اولاد کی تربیت کیسے کریں؟ 

تحریر: شیخ عائض القرني

ترجمانی: وصی اللہ قاسمی

اولاد، والدین کے پا س اللہ کی اما نت ہو تے ہیں، ان کی تر بیت والدین کا فریضہ ہے،رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اولاد پر ہما ری تر بیت کا اثر ظا ہر ہو تا ہے، سچی اور مخلصا نہ تر بیت کا اثر یہ ہو تا ہے کہ وہ نماز، روزہ او رتلا وت میں دلچسپی لیتے ہیں، بصو رت دیگر رمضا ن جیسا با بر کت مہینہ بھی محض ہما ری اپنی غفلت اور کو تاہی کی بنا ء پر ضا ئع ہو جا تا ہے، ہما رے اسلا ف واکابر کا طریقہ ٔکا ر یہ تھا کہ اس ماہ میںجہا ں وہ خو د منظم ومر تب ہو کر اپنے نامۂ اعما ل کو با وزن بنا نے کی فکر کرتے، وہیں اپنی اولا د سے بھی کبھی غفلت نہ برتتے تھے، اولا دپر مستقل ان کی نگا ہ ہو تی، یہی نہیں؛ بلکہ انہیں روزہ رکھنے کی عا دت ڈالتے، تلا وت قرآن، حتی کہ راتو ں میں عبا دت کی مشق بھی کراتے، والدین کو یہ با ت کبھی بھی فرامو ش نہ کرنی چا ہیے کہ ہم نے اپنی اولا د کو بچپن میں جس رخ پر لگا یا، انہیں جس چیز کی عا دت ڈالی، وہی طریقہ انہیں پسند آئے گا اور وہی ان کا مستقبل کی زندگی میں رہنما بھی بنے گا، توکیو ں نہ رمضا ن کے اس مہینہ میں ہم اپنی اولاد پر تو جہ دیں؟ تر بیت کے طریقۂ کار اپنا کر اپنی اولا د کا مستقبل روشن اور تا بنا ک بنائیں؛ نیز اخروی زندگی کی تیا ری بھی کریں، ذیل میں ہم دس ایسے نسخے لکھ رہے ہیں جن پر عمل در آمد کر کے والدین اپنی اولا د کو بہترین اسلا می تر بیت کے سا نچے میں ڈھال سکتے ہیں۔

(۱) والد کو چا ہیے کہ اپنے اخلا ق، معا ملا ت او ر کر دا ر؛ بلکہ زندگی کے ہر کام میں اولا د کے لیے قا بل تقلیدنمو نہ بنے، کیوںکہ بچے اپنے والدکو کئی پہلؤوںسے دیکھنے کی صلا حیت رکھتے ہیں، کبھی وہ آپ کو اپنا با پ سمجھ کر آ پ کی نقل و حر کت کو دیکھتے ہیں، تو کبھی معلم اور مر بی سمجھ کر، حضر ت زکریا علیہ السلام کے متعلق اللہ تعا لی نے ارشاد فر ما یا:

’’فَأَصْلَحْنَا لَہُ زَوْجَہُ، إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِيْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغْبًا وَرَہْبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ ‘‘۔ (الأنبیائ: ۹۰)

(۲)گھر کے ما حو ل میں سُنی اور دیکھی جا نے والی چیزوں کا بچہ کی زندگی اور اس کے مستقبل پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے، گھر میں اگرایما ن وقرآن کا تذکرہ ہو گا، نما ز،روزہ وغیرہ کا اہتمام ہو گا، اوامر پر عمل اورنواہی سے اجتناب ہو گا، تو بچہ خو د بخو د ان چیزوں کا پابند ہو جا ئے گا، اس کو کسی کی تنبیہ کی ضرورت نہ ہو گی اوران شا ء اللہ وہ مستقبل میں صراط مستقیم پر گا مزن او ر پا بند شر ع ہو گا، لیکن اگر گھر کا ما حو ل ان چیزوں کے مخا لف ہوگا، قرآن کے بجا ئے گانو ں کی سما عت ہوگی، نما ز، روزہ اور عبا دت کے بجائے لہو ولعب، شریعت کی تو ہین اور اس کا مذاق ہو گا، تو بچے کے ذہن میں یہی چیز یں پیو ست اور راسخ ہو ں گی اور کسی بھی صورت میں وہ شر یعت پر عمل پیرا نہ ہو سکے گا، الاّ ما شا ء اللّٰہ۔

(۳)والدین کوچاہیے کہ کتا ب اللہ سے بچو ں کا ربط وضبط پید اکریں، حفظ قرآن پر انہیں مامور کریں، تجو ید کی رعا یت کے ساتھ تلا وت کا پا بند بنا ئیں، کیو ں کہ بچپن کا زمانہ بچو ںکے لیے بہت قیمتی ہو تا ہے، یہی حصو ل ِعلم کے لیے سب سے نفع بخش مو قع ہو تا ہے، اگر یہ زریں مو قع فو ت ہو گیا اور یہ حسین لمحا ت یو ں ہی ضا ئع ہو گئے تو یقین جانئے کہ بچہ کے بڑے ہو نے کے بعد سب سے زیا دہ ندا مت والدین کو اٹھانی پڑے گی، کف افسو س ملنا پڑے گا۔

(۴)بچپن میں بچوں کو زیا دہ سے زیا دہ اپنے سا تھ رکھنا چا ہیے، انہیں اپنی نگرانی میں رکھ کر بڑوں کی صحبت سے دور رکھنا چا ہیے ؛کیو ں کہ بروں کی صحبت خارش سے زیادہ مضر اور دشمن سے زیادہ ہلا کت خیز ہو اکر تی ہے، اس روئے زمین پر ایسے مفسدین کی کمی نہیں، جنہو ں نے اپنی بری صحبت کے اثر سے صلحا ء کو تبا ہ وبر با د کیا ہے، اسی لیے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے دوست بنا نے سے پہلے اس کو جاننے او رپر کھنے کی تلقین کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ! ’’الْمَرْئُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلْ ‘‘اور اسی لیے حکما ء کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کے احوال معلو م کرنے ہو ں تو خو د اس سے تحقیق کرنے کے بجا ئے اس کے دوستوں سے تحقیق کرنی چاہیے، کیو ں کہ انسان اپنے دوست کے طریقہ ٔکا رپر ہی عمل کرتا ہے۔

(۴)والدین کو چا ہیے کہ بچو ں کی ایسی تر بیت کریں کہ ان کے اندر اوصاف وکمالا ت اور خو بیو ں سے محبت و انسیت پیدا ہو جا ئے، ان کے حصو ل کے لے جدو جہد اور شو ق ولگن کا جذبہ ان کے اندر اس طور پر مو جزن ہو کہ گھٹیا اور قا بل نفرت امو ر کی طرف وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں، یہی چیز اللہ کو بھی پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما تے ہیں !’’إِنَّ اللّٰہَ یَحِبُّ مَعَالِيَ الْأُمُوْرِ وَیَکْرَہْ سَفَاسِفَہَا ‘‘بچے کے لبا س، اس کی شکل وصو رت، ہیئت اور وضع پر بھی والدین کی نظر ہو نی چا ہیے، طریقۂ سنت سے عدول نہ ہو، امت ِمحمدیہ کے صلحا ء وعلما ء اور اتقیا ء کالبا س ہو، نہ کہ دشمنان اسلام کا، حتی کہ ان سے مشا بہت بھی نہ ہونی چا ہیے ؛کیو ں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ ‘‘ لہٰذا لڑکوں کو سونے اور ریشم کے کپڑوں سے دور رکھیں۔

(۷) دین اور دین سے متعلق تما م امو ر کی بچے کے دل میں تعظیم پیدا کرنا والدین کا فریضہ ہے،بچو ں کی تر بیت ایسی ہونی چا ہیے کہ اللہ کے اسماء وصفا ت اور اس کے افعا ل کی پاکی بیا ن کرے، عیو ب سے اس کو منزہ قرا ر دے۔

(۸)ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی او لا د کو علم دین کی طرف را غب کریں، یہی علم، علم نا فع ہے، اس کے علا وہ سب کچھ علم ضا ر ہے، حصو ل علم کے تئیں اولاد کی جدوجہد، محنت اور شوق و لگن پر والدین کی نظر رہنی ضر وری ہے، طلب علم میں اخلاص بھی ضروری ہے، حفظ و تکرار میں دلچسپی بھی زیا دتی ٔ علم کا سبب ہے، والدین کو چا ہیے کہ اولاد کے دل میں علم کا نفع اس کے فو ائد اور نتائج کا احسا س پیدا کریں، والدین کی یہ کا وش اولا د کو غفلت کے دا ئرے سے نکا لنے میں معا ون ثابت ہو تی ہے۔

(۹) ہر نما ز میں اولا د کے لیے دعا، ان کی تر قی کا با عث ہے، والدین کو اس میں رغبت سے کا م لینے کی ضر ورت ہے،والدین اولاد کے سلسلے میں اللہ سے ان کی اصلا ح وہدا یت کی دعا کریں، تہجد میں اور دیگر قبولیت کے اوقا ت میں عا جزی وانکساری کے ساتھ یہ دعا کر تے رہیںکہ خدایا :ہما ری اولاد کے دل میں ایما ن کوراسخ کر دے !اور ان کو اپنا خصو صی تعا ون نصیب فرما!ایسے والدین کی اللہ تعریف کرتے ہو ئے فرما تے ہیں،

’’وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَامًا‘‘۔(الفرقان:۷۴)

(۱۰)بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت اورمہر با نی کا معاملہ کرناچاہیے، حسب مو قع وضرورت حدود میں رہ کر ان کے ساتھ ہنسی مذا ق بھی کر تے رہنا چاہیے مجمع میں کبھی بھی ان کو رسوا نہ کرنا چا ہیے، اگر کوئی قا بل سر زنش حر کت ان سے سر زد ہو جائے تو پھر سکو ن واطمینا ن کے ساتھ تنہا ئی میں انہیں سمجھانا چا ہیے، بچو ں کے ساتھ اسی طرح پیش آنا چاہیے جس طرح اللہ کے رسو لﷺ پیش آتے تھے۔

تربیت اولا د کے یہ دس ایسے گُر ہیں، کہ اگر انسا ن ان کو اپنا لے تو بلا مبا لغہ ایک خوبصو رت، صا لح معا شرہ وجو د میں آسکتا ہے، بطور خا ص ما ہ رمضا ن میں ان ہدایا ت پر عمل پیرا ہو نے کی ضرورت ہے، ہم اپنی اولا د کا ذہن بنا ئیں، انہیں اپنا ہمنوا بنا ئیں، روزہ کی عا دت ڈالیں، نما زاورتراویح میںانہیں اپنے سا تھ رکھیں، چھوٹی چھوٹی با تیں انہیں چلتے پھرتے بتا تے رہیں۔

خدا یا !ہمیں عمل کی تو فیق مر حمت فرما! ہمیں نیک صالح اولاد عطاء فرما

’’ربناہب لنامن أزواجنا وذریاتنا قرۃ أعین واجعلنا للمتقین اما ما

تبصرے بند ہیں۔