ماہ رمضان: نیکیوں کا موسم بہار

ریان داؤد

(سیہی پور اعظم گڑھ)

ماہ رمضان المبارک اسلامی تقویم(کلینڈر) میں نواں مہینہ ہے اس مہینہ میں اللہ کی بے پایہ رحمتیں اس قدر برستی ہیں اس کے نزول سے مومنین کے گناہ دھل جاتے ہیں اور اس مہینہ میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمت پوری امت مسلمہ پر سایہ فگن رہتی ہے اور پورے کائنات کا ذرہ ذرہ انوار الہی سے معمور اور گوشہ گوشہ رب کائنات کی شان رحیمانہ اور کریمانہ کا مظہر اس کی عظمت و کبریائی میں ثنا خواں ہوتا ہے بھوک و پیاس کی شدت میں روحانی لذت،ذبان پر ذکر الہی کاورد، تلاوت قرآن کا شغف دعا،وعبادت کا غیر معمولی اہتمام افطار کے وقت بارگاہ الہی سے قبولیت کا پروانہ تراویح وحدت کا درس ہے تو قیام لیل یعنی تہجد رازونیاز کا سبق اور وقت سحر خیروبرکت کا ضامن غرضیکہ پورے اسلامی معاشرے پر نورانیت کا وسیع سایہ فگن ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس ماہ مبارک میں جنت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو قیدکردیاجاتا ہے اور ہر مسلمان طکوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک اللہ کی رحمت وبرکت سے سیراب ہوتا رہتا ہے اور زندگی قیمتی سے قیمتی اور حسین لمحات میں بدل جاتی ہے،آہ ایسا مبارک مہینہ جس کا ہر روز روزِسعید اور ہر شب شبِ مبارک ہے ابتداء دن ہی سے انتہاء یوم تک سحری کے نام پر اللہ کی رحمت و برکت کا نزول شروع ہوجاتاہے اور سارا دن انسان نیکیوں عبادتوں کی چادر میں لپیٹ پیا جاتا ہے گویا یہ ماہ عالمی عبادات اور اعمال صالحہ کا جشن عام اور مسلم معاشرے کیلئے خوشگوار اور سازگار اثرات مرتب کرنے میں اور دینی وایمانی فضاء قائم کرنے کا اہم ذریعہ ہےاگر انسان انہی امور دین کو کامل شعور جذبئہ اخلاص اور سنت رسول کے مطابق ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی کوشش کرے تو یہی ایک مہینہ آدمی کی زندگی میں انقلاب برپاکرنے اور انسانی زندگی کی سیرت وکردار کی تعمیروتشکیل میں نمایاں کردار ادا کرنے کیلئے کافی ہے

روزے کا مقصد

روزے کا اصل مقصد تقوی ہے اور جس طرح نیکیوں اور عبادات سے زندگی کا پر ہونا ضروری ہے اسی طرح کامل ایمانی زندگی اور تقوی وطہارت کا حصول بھی گناہوں سے اجتناب کئے بغیر ناممکن ہے چنانچہ اسی عظیم مقصد کی طرف اس آیت مبارکہ میں صراحتا بیان کیا گیا

ياايهاالذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون (183/سورہ بقرہ)

ترجمہ۔۔۔ اے ایمان والوں تم پر روزے کو فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم پرہیز گار ہوجاؤ۔

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ماہ رمضان کے علاوہ مہینوں میں گناہ کرنے کی گنجائش ہے بلکہ اس کا اثر عملی طور پر پوری زندگی پر ہونا چاہئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان رمضان میں دوسرے کیساتھ تعلقات اور معاشرتی روابط کے معاملے میں خاص توجہ نہیں دیتا اور اپنے ماتحتوں اور غیروں کیساتھ غیر منصفانہ رویہ رکھتا ہے اور ان کے حقوق کی پامالی کرتا ہے جس کیوجہ سے اسکا روزہ بیکار اور ضائع ہوجاتا ہے لہذا دوسروں کے حقوق کی پامالی کئے بغیر عادلانہ زندگی گزاریں تاکہ ہمارا بھوکا اور پیاسا رہنا ذخیرہ آخرت بنے اور جنت میں جانے کا ذریعہ۔

ماہ رمضان اور قرآن کریم

یوں تو قرآن کریم کی تلاوت کے فضائل وفوائد بے شمار ہیں لیکن ماہ رمضان المبارک کو قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے اور اسی ربط کو قرآن کریم کی اس آیت *شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن الخ* امام رازی لکھتے ہیں روزہ اور نزول قرآن کے درمیان گہرا تعلق ہے جب یہ مہینہ نزول قرآن کے ساتھ خاص کیا گیا تو ضروری تھا کہ اوروں کے ساتھ بھی خاص ہو (التفسیرالکبیر)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر مہینوں کے مقابلہ رمضان المبارک میں طویل قرات فرماتے تھے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رمضان میں میں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نیت باندھ لی آپ نے سورہ بقرہ پڑھی پھر سورہ ن پھر سورہ آل عمران۔۔۔دوھی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھا تھا کہ حضرت بلال آگئے نماز کیلئے اذان دی (مسند امام احمد)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اہتمام کو دیکھ کر بعض اسلاف رمضان کی تین راتوں میں ایک قرآن بعض ہر ہفتہ اور بعض اکابر ہر دس دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا اہتمام کرتے تھے(لطائف المعارف)

لہذا اس کے دنوں کو روزوں کیلئے اور راتوں کو قیام و تلاوت کیلئے مخصوص کر دیا جائے اس لئے رمضان کی عظمت و برکت نزول قرآن ہی سے ہے اور اس سرمدی اور ابدی کتاب کی تلاوت و سماعت کا ممکن حد تک اہتمام کیا جائے کیونکہ نمازِتراویح میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر کلام اللہ سننے کا روحانی فائدہ اپنی جگہ پر بہت ہی مفید اور قیمیتی ہے۔

رمضان المبارک اور مغفرت کا پروانہ

اللہ تعالی نے ماہ مغفرت و رحمت عطا کرکے ہم پر عظیم احسان کیا ہی تھا پھر مزید انسانوں کی مغفرت اور ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازنے کیلئے شب قدر جیسی عظیم رات بھی عطا فرمائی جس کی قدرومنزلت ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اس رات میں صدق دل سے اللہ کے حضور توبہ کرنے والا برسہابرس کا پاپی بھی مغفرت سے نوازا جاتا ہے وہ بھی ہزار رات عبادت کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اللہ جل شانہ کی شان رحیمانہ اس کو بھی اپنے سایہ عاطفت میں ڈھانپ لیتی ہے قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ نے اس کی فضیلت کو کچھ یوں بیان کیا إنا أنزلناه في ليلة القدر ليلة القدر خير من ألف شهر اور اس رات کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ اس رات قرآن کا نزول ہوا جو انسانی زندگی کا دستور ہے اور قیامت تک کی انسانیت کیلئے ہدایت نامہ ہے لیکن اس رات کو حکمت ربانی و مصلحت ایزدی نے پوشیدہ رکھ کر یہ بتا دیا کہ عبادت و ریاضت اور شوق و رغبت میں کمی نہ ہونے پائے انسان اس کی جستجو اور تلاش میں پورے مہینے سرگرداں رہے اخیر عشرہ ہی نہیں بلکہ پورا رمضان عشق خداوندی میں ڈوبا رہے۔

اعتکاف

رمضان کے اخیر عشرہ کی اہم خصوصیت اعتکاف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے (بخاری شریف)

اور صحیح بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخر عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے حتی کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے پاس بلالیا، ان کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا، اور دوسری روایت ہے کہ آپ فرماتے تھے آخری دس دنوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کر (صحیح البخاری)

احادیث بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ اعتکاف خاص طور پر لیلۃ القدر تلاش اور اسکی برکات پانے کیلئے فرماتے تھے، اور روزے کا جو مقصد اصلی ہے یعنی تقوی اور پرہیزگاری اسکے حصول میں اعتکاف بہت کارگر عمل ہے اس سے شب قدر کی تلاش و جستجو کا کام بھی آسان ہوجاتا ہے اعتکاف کا مطلب یہ ہیکہ انسان خود کو کچھ مدت کیلئے تمام کام وکاج اور دنیاوی مشغولیات سے فارغ کرکے اللہ کیلئے وقف کردے مردوں کے لئے مسجد اور عورتوں کیلئے گھر اعتکاف کی جگہ ہے لہذا ہر شخص مسنون طریقہ پر دس دن کا اعتکاف کرنا چاہئے اور اگر ممکن نہ ہو تو حسب استطاعت کچھ ہی دن رات کا اعتکاف کرلے تاکہ اس اہم عبادت کی برکات سے محروم نہ رہے، اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔