موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کا لائحہ عمل کیاہو؟

  ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

دوہزارانیس کے پارلیمانی انتخابات میں بے جے پی بلکہ صحیح الفاظ میں نریندرمودی تمام ترقیاس آرائیوں کاخاتمہ کرکے دوبارہ بڑے طمطراق سے واپس آگئے۔ہمارے تجزیہ میں اس میں بڑاکردارچار چیزوں کا رہاایک نریندرمودی کی بھاری بھرکم اورکرشمائی قیادت جس کا کوئی مدمقابل کسی بھی پارٹی میں نہیں۔ دوسرے کمزوراوربکھری حزب اختلاف تیسرے ہندوقوم پر ستی یعنی ہندوتوکا جارحانہ پرچارجواب بدقسمتی سے ملک کی اکثریت کے ذہن پر چھاگیاہے۔ یہاں تک کہ بنگال کے سیکولرہندؤوں اورکمیونسٹ ہندؤوں کے سربھی ہندوتوکا جادوچڑھ چکاہے اورچوتھے مودی اورامت شاہ کی ان تھک محنت اورجارحانہ انتخابی مہم جس کے مقابلہ میں اپوزیشن نے انتہائی نکمے پن کا ثبوت دیا۔یہاں تک پہنچنے کے لیے ہندتووادیوں نے ۷۰ سال تک ان تھک محنت اورزبردست جدوجہدکی ہے۔ ہندوقوم نفسیاتی طورپر شکتی کی پوجاکرتی ہے۔ اورقوم پرستی کوئی بھی ہواپنے مزاج سے اس کوکوئی نہ کوئی دشمن چاہیے۔پھروہ حقیقی ہویاتصوراتی اس سے اس کوکوئی غرض نہیں ہوتی۔ بی جے پے کے پروپیگنڈاکے فن کے ماہرین اورخاص کراس کے چانکیہ صدرامت شاہ نے الیکٹرانک میڈیاکے ذریعہ اپنی انتخابی اسٹریٹیجی ایسی ہی بنائی کہ ہندواکثریت اب مسلمانوں کواپنادشمن کم ازکم ذہنی طورپر مان چکی ہے۔اُسے لگتاہے کہ مودی ایک ایسامضبوط آدمی ہے جواِس مزعومہ دشمن کونقصان پہنچاسکتاہے مین اسٹریم میڈیانے اس پروپیگنڈے میں فسطائیوں کی سب سے زیادہ مددکی ہے۔ لہذاہندواکثریت نے بڑھتی غربت، بے روزگاری، گرتی معیشت وغیرہ تمام ایشوزکوکنارے رکھ کریہ طے کرلیا کہ مودی کو’’بھگوان ‘‘مان کراس کی پوجاکرنی ہے اورہرقیمت پر مرکزمیں اسی کی سرکاربنانی ہے۔اس ذہنیت نے ملک کے اکثرحصوں میں بے جے پی کے سیاسی حریفوں کوبھک سے اڑادیا۔

   اب جبکہ مرکز میں مودی حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکرآگئی ہے تومسلمانوں کوان سوالوں کے بجائے کہ ایساکیوں ہوگیااب اس پر غورکرناچاہیے کہ اب وہ کیالائحہ عمل اختیارکریں گے۔

یہ بات کہنے کی نہیں کہ ہم ملک میں ہراعتبارسے پیچھے جاچکے ہیں ممکن ہے موجودہ سیاسی دنگل میں اپنی بے توقیری سے ہمیں یہ مہمیزلگے کہ ہم کواپنے وجودوبقاکی جنگ خودلڑنی ہے، خودآگے بڑہنے کے لیے محنت کرنی ہے اگرایساہوجائے تواس چیلنج سے مثبت فائدے کشیدکیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے توشکوہ وشکایت والی روش ترک کرنی ہوگی۔ اپنے دلدروں کے لیے دوسروں کو قصوروارٹھیرانے اورشترمرغ کی طرح ریت میں سردینے کی بری عاد ت ترک کرنی ہوگی۔ ہمارہرلکھنے بولنے والااورہرخطیب اپنے منبرسے ایک ہی بات بیان کرتاہے کہ ’’دوسرے ‘‘ہمارے خلاف شازشیں کررہے ہیں۔ یہ شازشی تھیوری اب ناکام ہوچکی اِس پر لکھاگیالٹریچربھی ناکارہ ہوگیا۔اب ہمیں یہ مان لیناچاہیے کہ کسی اورنے نہیں ہم کوپیچھے نہیں کیابلکہ ہم زندگی کے ہرمیدان میں اپنی جگہ جم کررہ گئے جبکہ زمانہ بڑی تیزرفتاری سے چلتارہا۔ظاہرہے کہ جولوگ اپنے جمودپر خوش ہوں اوراس کے لیے حیلے بہانے تراشنے میں ماہرتاریخ ان کوپیچھے چھوڑکرآگے بڑھ جائے گی اوران کوتاریخ کے کوڑے دان میں جگہ ملے گی۔

ہمارے نزدیک مسلمانوں کوسرسیدکے طریقہ ٔکارکی طرف لوٹناچاہیے کہ سیاست بازی چھوڑکرصرف اورصرف تعلیم کی طرف اپنی تمام ترتوجہات مرکوزکریں۔ ان کایک نکاتی ایجنڈاتعلیم اورصرف تعلیم ہو۔جس دن وہ فسطائی قوتوں کے سیاسی حریف بنناچھوڑدیں گے وہ فسطائیوں کے ہاتھ سے اپنے خلاف استعمال ہونے والاایک بڑاہتھیارچھین لیں گے۔ دستوراورسیکولرزم کے تحفظ کا صرف انہوں نے ہی ٹھیکہ نہیں لیاہے اوراگران کا اس سلسلے میں کوئی فرض تھابھی تووہ انہوں نے اداکردیااب وہ مزعومہ سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینک بنناچھوڑیں۔ کانگریس، بی ایس پی،سماج وادی وغیرہ کی حاشیہ برداری بہت ہوچکی۔ اقتدارکے گلیاروں تک یہ سیاسی پارٹی پہنچے یاوہ،مسلمان کوکچھ ملتانہیں ہے اس لیے ان کوزیادہ غرض بھی نہیں رکھنی چاہیے۔

دوسراایشوجوتعلیم سے مربوط ہے وہ معیشت کی درستگی ہے۔مسلمان تعلیم میں آگے بڑھیں گے تومعیشت بھی کچھ نہ بہترہوگی۔ تعلیم کے میدان میں ہمیں عیسائی کمیونیٹی سے سبق لیناچاہیے۔ عیسائی تعدادمیں بہت کم ہیں اورمسلمانوں کی طرح وہ بھی مسلسل فسطائی قوتوں کے نشانہ پررہے ہیں مگران کوملک میں ایک ایڈوانٹج یہ حاصل ہے کہ ان کے پاس تقریباہرشہرمیں تعلیم کے معیاری ادارے ہیں جن میں اپنے بچوں کوبھیجنے کے لیے کیامسلمان اورکیاہندوسبھی مجبورہیں۔ افسوس کہ مسلمان اس محاذپر بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ میں دہلی کے اوکھلامیں رہتاہوں جہاں لاکھوں مسلمان آبادہیں مگرہمدردپبلک اسکول کی برانچ کوچھوڑکرکوئی بھی معیاری اسکول ان کے پا س نہیں ہے۔شمالی ہند میں یہی صورت حال تقریباہرشہرکی ہے۔مسلمانوں کے مدارس اورمساجدکوکمیونیٹی سینٹرکا کرداربھی اداکرناچاہیے جووہ قرون اولی میں کرتے تھے۔اس کے علاوہ وہ بڑی تعدادمیں سول رائٹس اورحقوق انسانی کے تحفظ کے ادارے اورانجمنیں قائم کریں۔ اس کے لیے زکوۃ کا پیسہ بھی خرچ کیاجاسکتاہے۔

گائے، رام مندراورتین طلاق وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کی آڑمیں اکثریت کومسلمانوں کے خلاف بھڑکایاجاتاہے۔ان ایشوزپر مسلمانوں کوبڑی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔گائے کی آڑمیں مودی سرکارکے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعدمسلمان نوجوانوں کوتشددکا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ اس پر زورداراندازمیں آوازاٹھانے کی ضرورت ہے اورملک کے عام لوگوں کے سامنے یہ بات بھی لانے کی ضرورت ہے کہ گائے اوردوسرے جانوروں کی کھال کے بڑے بڑے بیوپاری کون ہیں۔ ملک سے باہران کوبڑے پیمانہ پر کون سپلائی کرتاہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کوبڑے پیمانہ پر عام ہندوؤں سے قربت اختیارکرنی پڑے گی اوراپنے گھیٹومیں رہنے کی عادت کوترک کرناہوگا۔

علما،اسکالرز،قیادت، دعوتی کارکنان اوردینی تنظیموں کی سطح پراس با ت کی شدت سے کمی محسو س ہوتی ہے کہ ہماری مخاطب ومدعواوراب حکمراں ہندوقوم کی زبان، مذہب، فلسفہ، تہذیب وروایات سے ہمارے ہاں بڑی بے خبری عام ہے۔اس لیے بڑ ے مدار س،تحقیقی اوردعوتی اداروں کواس جانب توجہ کرنی چاہیے اورہندومذہب،اس کا فلسفہ وتاریخ اورہندتوکوگہرائی کے ساتھ جاننے والے افرادپیداکرنے چاہییں۔ کچھ عرصہ قبل اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیانے ملک کے بڑے اورمؤقرمدارس سے اپنے ہاں مطالعہ ہندومذہب وہندتوکے شعبے کھولنے یاکم ازکم اس موضوع پر توسیعی لیکچرکرانے کی درخواست کی تھی۔ معلوم نہیں اس پرکسی نے کان دھرے یانہیں البتہ دارالعلوم دیوبندنے یہ سلسلہ پہلے سے ہی شروع کررکھاہے جہاں ہندوستانیات اورہندتوکے ایک ماہرمحترم مولاناعبدالحمیدنعمانی یہ خدمت انجام دیتے ہیں دوسرے مدارس کوبھی اس کی تقلیدکرنی چاہیے۔

بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف مشترک ایشوزپر مسلمان ہندوسماج کے لیڈروں سے بات کریں۔ گفتگووڈائلاگ کا طریقہ اب پوری دنیامیں رائج ہورہاہے۔ لیکن ہماری نظرمیں اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ مختلف مشترک ایشوزپر خودمسلم قوم کے اندرقیادت کی سطح پر باہم گفتگوہوافسوس کہ ہماری باریش اوربے ریش قیادت اس محاذپر ہمیشہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔ہماری ملت میں داخلی گفتگواورڈائلاگ کی کوئی روایت ہی شروع نہیں ہوئی بس ہرفرقہ وگروپ اپنے آپ کودین کا ٹھیکہ دارسمجھتاہے اورکل حزب بمالدیہم فرحون کا منظرپیش کرتاہے۔

بے جے پی رام مندرکے ایشوکوضروراٹھائے گی اورہمارااحساس یہ ہے جوخداکرے کہ غلط ثابت ہوکہ سپریم کورٹ یاتواس مسئلہ پر کوئی فیصلہ نہیں دے گی بلکہ ثالثی وغیرہ کے ذریعہ چاہے گی کہ فریقین مسئلہ حل کرلیں جیساکہ اس نے فی الحال ثالثی کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ اگریہ ثالثی کی یہ کوشش ناکام ہوتی ہے توپھروہ الٰہ آبادکورٹ کی طرح کا ایک بین بین کا فیصلہ دے دے گی کیونکہ ہندوتوکی لہرسے بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس، سول سوسائٹی اورمیڈیاکوئی بھی بچاہوانہیں ہے۔ ہمیں نہیں لگتاکہ عدالت عالیہ پریشرسے آزادکوئی فیصلہ دینے کی جرأت کرپائے گی۔ اس لیے اس مسئلہ میں مسلم پرسنل بورڈ کوتنہاشریعت کا اجارہ دارہونے کادعوی چھوڑکردوسروں کا موقف بھی سنناچاہیے۔ورنہ اُسے تین طلاق کے مسئلہ کی طرح یہاں بھی شرمسارہوناپڑے گا۔

تین طلاق کے سلسلہ میں کورٹ کا فیصلہ آنے سے تقریباایک ماہ قبل ہم نے بورڈ کے بزرگوں کی خدمت میں عرض کیاتھاکہ وہ اپنے موقف میں لچک پیداکرے کیونکہ ان کے دلائل عدالت عالیہ میں وزن پیدانہیں کرسکیں گے (راقم کا مضمون روزنامہ قومی تنظیم میں شائع ہواتھا)لیکن خاکسارکی یہ آوازصدابصحراء ثابت ہوئی اورہم نے جن خدشات کا اظہارکیاتھاکچھ دنوں کے بعدوہ کڑواسچ ثابت ہوگئے۔

1992میں جب بابری مسجدکا انہدام ہواتومولاناوحیدالدین خان نے ایک مصالحتی فارمولہ پیش کیاتھاجس کوملت نے بغیرکچھ سوچے سمجھے مستردکردیا۔تب سے اب تک حالات بہت بدل چکے۔ اس وقت مولاناوحیدالدین خان کی مخالفت میں سب سے زیادہ جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے مولاناسلمان حسینی ندوی تھے آج وہ خوداسی موقف پر آچکے ہیں جوخان صاحب کا تھا۔حسینی صاحب نے اپناموقف مسلم پرسنل لابورڈ میں رکھنے کی کوشش کی توان کوبورڈ سے ہی نکال دیااوران کے خلاف بورڈ کے لوگوں نے ایک مسلسل مہم چلائی حالانکہ صحیح موقف یہ ہوتاکہ ان کی بات سنی جاتی اوراس کے مالہ وماعلیہ پر غورکیاجاتا۔بہرحال مقصدکسی موقف کی وکالت نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ملت میں داخلی طورپر گفتگواورڈائلاگ کا طریقہ رائج ہوناچاہیے۔ یہ ہماری فوری ضرورت ہے۔ کیونکہ ابھی توبرسراقتدارپارٹی نے دستورسے چھیڑچھاڑکرنے کا کوئی ارادہ ظاہرنہیں کیامگریہ ان کا طے شدہ ایجنڈاہے اوربے جے پی اپنے حلیفوں کوبھی اس معاملہ میں خاطرمیں نہیں لائے گی۔ اس لیے اس پر بھی مسلمانوں کوشدومدسے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اقبال بوکڑا کہتے ہیں

    واقعی نہ صرف قابل غور بلکہ قابل زود عمل ہے۔

تبصرے بند ہیں۔