شب قدر: دقائق و اسرار

حکیم محمد شیراز

ارشاد ربانی ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ • وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ • لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ • تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ • سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ0

’’ہم نے اس( قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس دن فرشتے اور روح امین جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کی اجازت سے ہر حکیمانہ حکم لے کر  نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی رات فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔ ‘‘

        ایک جگہ اور ارشاد ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ۔ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیم0سورہ الدخان: ۳،۴۔

     بلاشبہ ہم نے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات شب قدر میں ہی اتارا ہے کہ ہمیں بہرحال خبردار کرنا ہے،جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا۔

        لیلۃ القدر یا شب قدر اسلامی مہینے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں ) میں سے ایک رات جس کے بارے میں قرآن کریم میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس حساب سے اس رات کی عبادت 83 سال اور 4 مہینے بنتی ہے۔

        رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کیا، صحابہ کو رشک آیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن ہے تو اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنج ہوا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔

        قدر کے چار معنی ٰ ہیں۔ اللہ پاک نے اپنی حکمت بالغہ سے سورۃ قدر میں ان چاروں معنیٰ کو جمع فرمایا  ہے۔ ایک معنیٰ اس کے قدر و قیمت کے ہیں۔ تو گویا اس رات کی قدر و قیمت یہ ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا جیسا کہ ’’ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ میں اشارہ ہے۔ دوسرے معنیٰ شان کے ہیں تو اس کی شان یہ ہے  یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ تیسرے معنیٰ تنگی کے ہیں۔ گویا اس رات میں اس قدر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ چوتھے معنیٰ حد کے ہیں۔ تو گویا اس رات کی حد طلوع فجر تک ہے۔ ان تمام معنیٰ کو سورہ قدر کے ترجمہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

شب قدر کے بارے میں ارشاد نبویﷺ:

ارشاد نبویﷺ ہے:

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” َمَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ۔ (صحیح بخاری، کتاب فَضْلِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،باب فَضْلِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا، باب الترغیب فی قیام رمضان وہو التراویح)

ترجمہ:

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔

شب قدر کی تعیین:

عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ قَالَ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّی أُرِیتُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِیتُہَا أَوْ نُسِّیتُہَا فَالْتَمِسُوہَا فِی الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ فِی الْوَتْر             (صحیح بخاری، کتاب صلاۃ التراویح،باب إلتماس لیلۃ القدر فی السبع الاواخر)

ترجمہ: ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگربھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔

شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے:

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قال: ”تَحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ” (صحیح بخاری، کتاب صلاۃ التراویح، 4 – باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر, مسلم فی الصیام باب استحباب صوم ستۃ أیام من شوال)

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔

شب قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلادی گئی:

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لئے نکلے اسی دوران دو مسلمان کسی معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑے، آپ نے ارشاد فرمایا، میں نکلا تھا کہ تم لوگوں کو شب قدر کے بارے میں بتاوں مگر فلاں فلاں جھگڑنے لگے اور اس کا علم اٹھا لیا گیا، بھلادیا گیا، مجھے امید ہے کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے لہٰذا تم لوگ اس رات کو27ویں، 29 ویں اور25ویں رات میں تلاش کرو۔

آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:

 عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو عبادت کے لئے کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔

شب قدر کی دعا:

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو: اللہم انک عفو’‘ کریم’‘ تحبو العفو فاعف عنا۔ ترجمہ: اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو ہمیں معاف کردے۔

        اکثر علما کا خیال ہے کہ یہ 27ویں رات ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جبکہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن باقی (اکیسویں ) ہوں یا سات دن (تیئسویں ) یا پانچ دن باقی (پچیسویں /ستائیسویں )۔ استنباطات کی بنا پر ابن عباس یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہی ہے اور ابن عباس سے یہ بات ثابت ہے۔ اور ان امور میں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے: (تنزل الملائکۃ والروح فیھا) اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے۔ بعض علمائے کرام نے تو اسے راجح قرار دیا ہے کہ شب قدر ہر سال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، یحییٰ بن شرف نووی کہتے ہیں کہ اس میں صحیح احادیث کے تعارض کی بنا پر ظاہر، صحیح اور مختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے اور انتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں۔

شب قدر پہچاننے کی علامات اور نشانیاں جاننے کے لیے یہ احادیث صحیح ہیں :

شب قدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہیں ہوتی۔ شب قدر معتدل نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی ہے، اس دن صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا یعنی تمازت نہیں ہوتی۔ (مسند ابو داؤد )

سب قدر روشن رات ہوتی ہے نہ تو گرم اور نہ ہی سرد ہوتی اور اس میں کوئی ستارہ نہیں پھینکا جاتا، یعنی شہاب ثاقب نہیں گرتا۔ (مسند احمد بن حنبل)

خلاصہ کلام:

شب قدر کون سی رات ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۱۲، ۳۲، ۵۲، ۷۲ اور ۹۲ویں رمضان کی سبھی راتوں کے بارے میں حدیثیں ملتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات کے بارے میں بھلادیا دیا گیا، ایسے میں کسی ایک رات کو اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس رات کو شب قدر مان رہے ہوں  وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو۔ جبکہ آخری عشرے کی سبھی راتوں میں تلاش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرسکے۔

اللہ تعالی ٰ ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرمائے۔ آمین

حوالہ جات   

 معارف القرآن از محمد شفیع عثمانی، جلد 8، صفحہ 791

 بخاری (4 / 260)

 المجموع للنووی 6 / 450

 کاشانی، منہج الصادقین، 1344ش، ج4، ص274 بہ نقل از افتخاری، «دعا و شب قدر از منظر موسی صدر»، ص17۔

 اتفق مشایخنا ]فی لیلۃ القدر[ علی انہا اللیلۃ الثالثۃ و العشرون من شہر رمضان۔ صدوق، الخصال، 1362ش، ص519۔

 صحیح مسلم 762

 صحیح ابن خزیمہ 2912

 مجمع الزوائد 3 / 179

 ترجمہ کنزالایمان، قرآن:سورہ قدر مکمل

آزاد دائرۃ المعارف۔

تبصرے بند ہیں۔