کانگریس انتخاب اور حوصلہ دونوں ہار گئی

راحت علی صدیقی

2019 پارلیمانی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں، جو حیران کن رہے، این ڈی اے 351 نشیشتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا، پورا ملک زعفرانی رنگ میں رنگ گیا،وزیر آعظم نیندر مودی نے اپنی دوسری پاری کا شاندار  آغاذ کردیا ہے، حلف برداری کی تقریب میں انہوں نے اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کیا، اور مد مقابل سیاسی جماعتوں کو اپنی شان و شوکت اور طاقت سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی،ملک کے مزاج و ماحول کی صورت حال بھی عیاں ہوگئی ہے۔

انتخابات سے سیاسی جماعتوں کے تصور میں بھی یہ منظر نہیں ابھرا تھا کہ بی جے پی ایسی بے نظیر کامیابی حاصل کر سکتی ہے، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، ماب لنچنگ، جیسے مشکل ترین مراحل کے بعد بی جے پی سرخ رو ہو سکتی ہے، راہل گاندھی کو یقین تھا کہ وہ اس انتخاب میں سرخ رو ہونگے، کامیابی ان کے گھر پر دستک دے گی، عوام ان کی پالیسیوں کو پسند کرے گی، ملک زعفرانی خیالات سے متاثر نہیں ہوگا، اور بی جے پی کی پالیسیوں پر ناکامی کی مہر ثبت ہوجائے گی، کانگریس پھر سے اقتدار حاصل کرلے گی، انصاف اور ترقی کا نعرہ سر چڑھ کر بولے گا، اس کے لئے انہوں نے غریبوں کمزورں اور اقلیتوں کا دل جیتنے کی حتی الامکان کوشش کی، غریبوں کو 72 ہزار روپے سالانہ دینے کا وعدہ بھی کیا ، غربت کے خاتمہ کے دعوے کئے،غریبوں کے جھوپڑوں تک پہونچنے کی کوشش کی، اور غریبوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہا، ملک کی اقلیتوں کو خوش کرنے کے لئے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی، ملک مخالف (دیش دروہ) کا قانون ختم کرنے کا دعوی کیا، دفعہ 70 کے تحفظ کا دعوی کیا گیا، اس سب کے باوجود پورے ملک میں کانگریس کو مات کھانی پڑی،اور سب سے زیادہ متحیر کن بات یہ رہی کہ کانگریس صدر راہل گاندھی بھی امیٹھی میں کامیاب نہیں ہوسکے، اور اسمرتی ایرانی ان پر بھاری پڑ گئی، انتخاب سے قبل کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، کہ کانگریس اترپردیش میں ایک ہی سیٹ حاصل کرپائے گی، راہل بھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے، کثیر تعداد میں امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوجائے گی، صرف عمران ہی ضمانت بچا پائے، سلمان خورشید اور راج ببر جیسے عظیم کانگریسی لیڈران بھی ضمانت بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، راج ببر بھی اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے کی پیکش کرچکے ہیں، انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا نہیں کرپائے، اترپردیش میں کانگریس کی کامیابی متوقع نہیں تھی، لیکن جس طرح کے نتائج اترپردیش میں آئے، اس کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔

اور ملک کا منظرنامہ انتہائی حیرت ناک رہا، کانگریس ملک بھر میں 52 نشستیں ہی حاصل کرپائی، اور راہل پوری طرح ناکام ثابت ہوئے، کانگریس اسمبلی میں مدمقابل بننے لائق بھی نہیں رہی ہے، ملک کے اکثریتی طبقے نے کانگریس کو پوری طرح ناکام کردیا ہے، وہ کانگریس کو منتخب کرنے کے خواہاں نہیں ہیں، وہ کانگریس کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے، مشکلات و پریشانی ہو یا خوشحالی و ترقی دونوں صورتوں میں وہ بی جے پی ہی کو پسند کرتے ہیں۔

نتائج آنے کے بعد کانگریس صدر راہل گاندھی نے ہار کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، اور پارٹی کے عہدہ صدارت سے استعفی کی پیشکش کی ہے، جسے ورکنگ کمیٹی نے قبول نہیں کیا ہے، راہل گاندھی نے ہار کی ذمہ داری قبول تو کرلی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ہار کے دوسرے اسباب بھی ان کے ذہن میں موجود ہیں، جس کا خلاصہ انہوں ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں کیا ہے، اور واضح کردیا کہ پارٹی رہنماؤں نے پارٹی کو اولیت نہیں دی ہے، اپنے بیٹوں کو اولیت دی، وہ اپنے بیٹوں کو کامیاب کرنے کے لئے کوشاں رہے، باقی پارٹی لیڈران کس پوزیشن میں ہیں، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا، اس کااندازہ لگانے کے لئے صرف یہ جان لینا کافی ہے، پارٹی کے اہم لیڈر اشوک گہلوت نے 130 انتخابی ریلیاں کیں، جس میں سے 93 ریلیاں اپنے بیٹے کی حمایت میں کیں، اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے کا کامیاب نہیں کراسکے، اور پارٹی بھی چارو ںخانے چت ہو گئی۔

کانگریس کی ہار کی اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ زمینی سطح پر ان کی نمائندگی بے حد کمزور ہے، ان کے پاس بی جے پی کی طرح ہر بوتھ پر مضبوط افراد نہیں ہیں، جو عوام سے مربوط ہوں، اور ان کے مسائل پر توجہ دیتے ہوں، بی جے پی کے پاس اس طرح کے افراد موجود ہیں، اور اکثریتی طبقہ پر اس کی مضبوط پکڑ ہے، کانگریس کو اکثر وہ افراد ووٹ کرتے ہیں، جو بی جے پی کو پسند نہیں کرتے، کانگریس اپنی پالیسی کو پوری طرح پیش کرنے میں ناکام رہی، وہ بی جے پی اور مودی کا خوف دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھیں، اور یہ داؤ پوری طرح ناکام ثابت ہوا، اور کانگریس کے لئے بہت سے مسائل پیدا کرگیا، جس کا حل انہیں تلاش کرنا ازحد ضروری ہے۔اس شکست نے کانگریسی لیڈران کے ہمت و حوصلہ کو توڑ کر رکھ دیا ہے، جس کا اندازہ راہل2 گاندھی کے استعفی کی ضد سے ہو رہا ہے، اس وقت کانگریس کو شکست کے اسباب پر غور و فکر کرنے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کی ضروت ہے، راہل گاندھی کو مشکل وقت میں کانگریسی کارکنان کے حوصلوں کو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے، لیکن کانگریس صدر راہل گاندھی میدان میں ٹکنے کے لئے تیار نہیں ہیں، انہیں منانے کی چوطرفہ کوشش کی جارہی ہے، کانگریسی کارکنان بھوک ہڑتال تک کی بات کر رہے ہیں، سڑکوں پر نکل آئے ہیں، وہ ہر حال میںراہل کو ہی بحیثیت صدر دیکھنا چاہتے ہیں، امکان یہ بھی ہے کہ راہل اس طریقے سے پارٹی میں اس وقت اپنی حیثیت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا پارٹی اب بھی ان کی صدارت چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش میں ہوں، لیکن اس سوال سے کہیں زیادہ اہم کانگریس کا وجود ہے، جس پر اس انتخاب نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور راہل کے لئے بہت مسائل کھڑے کر دئیے ہیں، جن کو حل کرنے کے بعد ہی وہ پارٹی کے ہیرو ہو سکتے ہیں،اگر اس موقع پر راہل میدان چھوڑ دیتے ہیں، تو کانگریس کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گے، اور پارٹی کا مستقبل خطرے میں آجائے گا، سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگا، کہ کرسی صدارت پر کسے براجمان کیا جائے، جو کارکنان کے حوصلوں کو بحال رکھا جاسکے، جس پر سب کو اعتماد ہو، مستقبل قریب میں اسمبلی انتخابات ہوں گے، جس کے لئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

راہل نئے صدر کے تعاون اور مدد کے لئے تیار تو ہیں، لیکن صدارت کے لئے تیار نہیں ہیں، اس سے کئی اہم سوالات پیدا ہورہے ہیں، کیا گاندھی خاندان میدان سیاست میں اپنے وقار کو بحال کرپائے گا؟ کیا راہل اپنے اسلاف و بزرگوں کے کارناموں کو دہرا پائیں؟ کیا وہ کانگریس کی ڈوبتی نیا کو کھے پائیں گے؟ کیا وہ کانگریس کی کمان سنبھالیں گے؟ کیا کانگریس پر عوام پھر سے اعتماد کریگی؟ ان سوالوں کے جوابات دیاست کے گلیاروں کا ماحول دلچسپ کردیں گے، اور مستقبل ہمیں حقائق سے روبرو کرے گا، حال تو کانگریس کے ڈوبتی جہاز کا نظارہ دکھا رہا ہے، اور عیاں کررہا ہے، کہ اس انتخاب میں کانگریس انتخاب ہی نہیں حوصلہ بھی ہار گئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔