اہل فلسطین عالم اسلام کی مدد کے منتظر

 مرزا عادل بیگ

            ماضی میں فلسطین ملک شام کا ایک صوبہ تھا، تا ہم بیت المقدس کی وجہ سے اس کی ایک خاص شناخت رہی ہے، موجودہ زمانے میں وہ ملک کے شام کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے اور وہ عالم عربی کے افریقی اور ایشائی دونوں حلقوں کو ملاتا ہے، اور ایشیاء، افریقہ اور یورپ تینوں براعظموں کو مابین رابطہ اور پل کا کام کرتا ہے۔ اس کے شمال میں لبنان اور جنوب میں مصر واقع ہے، مشرق میں اس کی سرحد اردن سے جاکر ملتی ہے، فلسطین کا کل رقبہ 10،162 مربع میل ہے، فلسطین کی سطح مرتفع تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے، 1) ساحلی سمندر 2) پہاڑی خطہ 3) نشیب

            1948 سے قبل فلسطین 6 صوبوں اور 16 ضلعوں پر مشتمل تھا، اس وقت مسلمانوں کی آبادی 380000 تک تھی، جو آج بڑھ کر 7 ملین سے زائد ہوگئی ہے، ان میں سے 4 ملین افراد مقبوضہ فلسطین میں رہتے ہیں، 1948 میں بین الاقوامی سازشوں کی بنیاد پر یہودیوں نے فلسطین اراضی کے ٪60 حصے پر ناجائز قبضہ کرکے اس پر اسرائیل کی یہودی عبرانی ریاست قائم کرلی اس وقت غزہ پٹی مصری انتظامیہ کے ماتحت کام کرتی تھی، اور مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا، 1967 تک یہ صورت حال برقرار رہی۔ پھر 1967 کی جنگ (اسرائیل اور عرب ممالک کے بیچ میں)جس میں عربوں کو شکست ہوئی اور مغربی کنارہ اور غزہ پٹہ کا علاقہ یہودی ریاست کے قبضہ میں آگیا، جو آج تک ہے۔

فلسطین مبارک سرزمیں :

            فلسطین کا مسئلہ ایک اسلامی مسئلہ ہے، تاریخی، تہذیبی اور مذہبی بنیادو ں پر اس سرزمین کے حقیقی اور جائز وارث اور حقدار مسلمان ہیں، قرآن حدیث اور تاریخ ِ اسلام تینوں سے یہ چیز صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے، جب کہ یہودیوں کا ایسا دعویٰ تاریخی طور پر قابل تسلیم نہیں ہے، قرآن شریف اس سرزمین کو ارض مبارک قرار دیتا ہے، قرآن شریف میں حضرت ابراہیم  ؑ اور لوط ؑ کی ہجرت کے بارے میں آیا ہے۔

            "ہم نے انہیں اور لوط کو نجات دی اور انہیں اس سرزمین کی طرف بھیج دیا جس میں ہم نے برکت دی تھی۔ ” (سورہ الانبیا ء:71) اسی طرح حضرت سلیمان ؑ کے تزکرہ میں کہا گیا ہے۔ ” اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر  دیا، جو ان کے حکم پر اس سر زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت دی تھی۔ ” (سورہ الانبیاء: 81) اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل سے کہتے ہے : ” اے میرے قوم کے لوگوں اس مقدس سرزمین کی طرف جاؤں جو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دی ہے۔ ” (سورہ بنی اسرائیل : 130)

فلسطین سرزمین ِانبیاء علیہ السلام :

            فلسطین انبیا ء اور رسولوں کی سرزمین بھی رہی ہے، قرآن نے ایسے 25 انبیاء کا تزکرہ کیا ہے، جن میں بیشتر کا تعلق اسی علاقہ سے رہا ہے، قدیم زمانے سے ہی اللہ کے اولوالعزم انبیاء اور رسولو ں کے مبارک قدم اس زمین پر پڑتے رہے ہے۔ ابوالانبیاء اور ملت ابراہیمی کے بانی حضرت ابراہیم ؑ اپنے بھتیجے جناب لوط ؑ اور اہلیہ محترمہ سائرہ کو لے کر عراق سے ہجرت کرکے اسی علاقہ کی طرف آتے ہے، اور یہاں سکونت اختیار کرتے ہے۔ ذریت ِ ابراہیمی میں اسمائیل ؑ اور ان کی والدہ محترمہ ہاجرہ کو انھوں نے اللہ کے حکم سے مکہ کی وادی غیر ذی زرع چھوڑ دیا اور کچھ عرصہ کہ بعد انھیں کو لے کر وہاں کعبہ اللہ کی تعمیر کی۔ اپنے دوسرے فرزند حضرت اسحاق ؑ کو کنعان میں بسایا جنھوں نے یور شلم میں مسجد بنائی جس کی توسیع بعد میں حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھو ں ہوئی، اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ نے یہاں وفات پائی۔ ان کے بیٹے یوسف ؑ کو قافلہ والے کنویں سے نکال کر مصر لے گئے اور وہیں سے بنی اسرائیل کا تاریخ کا ایک نیا  باب شروع ہوتا ہے، پھر موسیٰ ؑ اور ہارون  بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے اور اسی عرض ِ مقدس کی طرف لے چلے لیکن اس میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دونوں حضرات کو اپنے یہاں بلا لیا۔ موسیٰ ؑ کے خلیفہ خاص یوشع بن نون بنی اسرائیل کو لے کر ک40 سال بعد اس سرزمین میں داخل ہوئے اس کے بعد داؤد ؑ اور سلیمان ؑ نے وہاں ایک عظیم مملکیت کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ یوروشلم (بیت المقدس ) اس کا صدر مقام ہوتا ہے، یہیں وہ مسجد اقصی ٰ کی از سرنوں تعمیر کرتے ہے، پھر زکریا ؑ، یحیٰ ؑ اور عیسی ؑ جیسے اولوالعزم انبیاء  بھی اسی خاک سے اٹھتے ہے اور آخر میں قصر نبوت کی آخری اینٹ اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے مقام میں اسراء اور آسمانوں کے معراج کے شر ف بھی اسی سر زمین کو حاصل ہوتا ہے، جہاں آپ براق کے ذریعہ تشریف لاتے اور انبیاء کی امامت کرتے ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہے کہ رسول اکرام ﷺ نے فرمایا : میرے پاس براق لا یا گیا جو ایک سفید جانور تھا میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا میں نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے تمام انبیاء باندھتے آئے ہیں۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی پھر نکل آیا۔(رواہ مسلم )

            امت مسلمہ کی ایک خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ اس میں قیام حق کی جدوجہد اور تجدید و اصلاح کی ایک مسلسل روایت پائی جاتی ہے۔ متعد د احادیث میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اس امت میں ایک گروہ حق پر رہے گا اور وہ اپنے دشمنوں کی تمام چالوں اور ہتھ کنڈوں کے باوجود کامیاب و کامران ہوگا۔ مسند احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ بھی بیت المقدس اور اس کے اطراف میں پایا جائے گا۔ روایت کے الفاظ ہےکہ ” میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور قیامت تک غالب رہے گا اس کے دشمن اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ وہ کہاں ہو ں گے، فرمایا : وہ بیت المقدس اور بیت المقد س کے آس پاس میں ہونگے متعدد احادیث یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد مسجد اقصیٰ وہ تیسرا مقام ہے جہاں ایک وقت کی نماز 500 نماز وں کے برابر شمار کی جاتی ہے، اور جس کی طرف سشدرحال (یعنی دور دراز سے سفر کرکے زیارت کے لیے جانا) کیا جاسکتا ہے۔ ان آثار و روایت کے باعث صدر اسلام ہی سے مسلمانو ں نے مسجد اقصی ٰ اور فلسطین کے پورے علاقے کو اپنی دینی، فکری، علمی اور تہذیبی تاریخ کا حصہ سمجھا ہے اور اس سے ان کی علمی اور تہذیبی اور ثقافتی روایات بہت ہی گہرائی کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔

فلسطین کے آج کے حالات :

            اسرائیلی حکومت، یہودی عوام اور یہودی فوج جس طرح سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کر رہے ہے، اسے لکھنا میرے ان کمزور ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں ہے، بے خوف یہودی پولس، ظالم و جابر حکومت فلسطینی مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتی ہے، نوجوانوں کا 92 فی صد حصہ متعدد اسرائیلی جیلوں میں بند ہے، بوڑھے افراد کو دو وقت کی روٹی کے لیے مسلسل جدوجہد کر نا پڑھتا ہے۔ 24 گھنٹے جنگ کے آثار، افطار اور سحر کے وقت میزائلی حملہ کیے جاتے ہے، ضروری اشیاء کی عدم دستیابی، کیمیکلس ملائیں ہوئے پینے کا پانی، جس سے پیٹ اور مختلف قسم کے بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوجاتاہے، فلسطینی دفاتر کو نست و نابود کردیا گیا ہے۔ صرف دور دراز کے علاقوں کے مختلف شعبوں کے آفسیس شروع ہے۔ وہ بھی اسرائیلی حکومت کے زیرِ نگرانی چلتے ہے۔ الخلیل،بیت المقدس، غزہ پٹی اور خان یونس کے حالات کے انتہائی تشوشناک ہے۔

            غرہ پٹی کے 2018 جون سے 2019 31 مئی تک 14000 نو عمر، دیڑھ سال سے لیکر 6 سال کی عمر تک کے بچے اور بچیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ معصوم شہداں کی اللہ ربالعزت مغفرت عطا فرمائیں۔ ان پر مزائیل داغے گئے، انہیں بازاروں میں گولی ماری گئی، یا پھر جیلوں میں ترڈھ ڈگری استعمال کرکے مار دیا گیا۔ معصوم فلسطینیوں کو برقی تاروں سے جوڑ دیا گیا تاکہ کوئی جواب نا دے سکے۔ غزہCheck Post سے اندر کسی دوسر ے شہری کو آنے نہیں دیا جاتا ہے۔ جس سے کسی بھی قسم کی معلومات باہر نہیں جا سکتی۔ غزہ پٹی کے بگڑتے حالات وہاں کے اسپتالوں کو نست و نابود کردیا گیاہے۔ وہاں کے ریڈیوں اسٹیشن کو نشانہ بنا کر اڑا دیا گیا۔ طبی امداد فراہم کرنے والے کیمپوں کو ختم کردیا گیا۔ مالی و سائل، مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہودی اور اسرائیلی حکومت مسلمانوں کے فلسطین، غزہ سے بے دخل کردینا چاہتی ہے۔ اور مسجد اقصی ٰ کو شہید کرکے وہاں پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کر نا چاہتی ہے۔ اس کام میں ہمیشہ کی طرح امریکہ اسرائیل کا ہمنواں بنا ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے یوروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی بنائی جانے کی اطلاع دی ہے۔ اور اپنا سفارت خانہ یوروشلم میں منتقل کیا ہے۔

            لگاتا ر دس سالوں سے اسرائیل رمضان المبارک کے مہینے میں فلسطینی علاقوں میں بم باری کر رہا ہے۔ جس سے فلسطینی علاقے غزہ، الخیل، خان یونس اور کئی علاقوں کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ اسرائیل جان بوجھ کر اسپتالوں کو، اسکولوں کو، بازارو ں کواو ر مختلف ریاہشی علاقوں میں مزائیل برساتا ہے۔ آج فلسطینی عوام سحر میں بم باری دیکھتی ہے تو کبھی افطار میں دیکھتی ہے، فلسطینی مسلمان ہر روز پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ چھٹی نماز نمازِ جنازہ پڑھتی ہے۔ فلسطینی اتھاڑٹی، فلسطینی تنظیمیں، حماص اور مختلف گروپ اسرائیل کی ناانصافیوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ کبھی کبھی لڑائی آمنے سامنے کی ہوتی ہے۔ جہاں پر فلسطینی عوام، یہودی اسرائیل افواج کا مقابلہ پتھروں سے، گلیل سے کرتے نظر آتے ہے، فلسطینی ہماری پاک دامن مائیں بہنیں جدید لیس ہتھیا ر اسرائیلی فوج کا مقابلہ رسیوں سے بندھے پتھروں سے کرتے دکھائی دیتے ہے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے لیے ہزاروں فلسطینی افراد بوڑھے بچے جوان، مرد، عورتیں اور بچیاں نے جام شہادت پیا ہے، کبھی کبھی جمعہ کے وقت نماز میں مسجد اقصیٰ کا گیٹ بند کر دیا جاتاہے۔ اور فلسطینی نمازیوں پر اندھا دھن گولیاں چلادی جاتی ہے۔

یہودی فوج کی درندگی:

            اللہ رب العزت قرآن شریف میں فرماتے ہے جس کا مفہوم ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کو دشمنی میں سب سے آگے پاؤں گے۔ وہ تمہار ے کھلے دشمن ہے۔

            اس لحاظ سے یہودی افواج فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم کر رہے ہے، وہ تاریخ میں ہلاکو ں اور چنگیز خان نے بھی نہیں کیا ہے۔70 سالوں سے اسرائیلی افواج مسلمانوں کے بے وجہ گرفتار کرتی ہے۔ سالوں سال جیلوں میں رکھتی ہے۔ جیل میں تھرڈ ڈگری ٹارچر، نا معقول غزاؤں کو کھلانا، ہیوی ڈرگس دے کر نشیلہ بنانا، جسمانی اور ذہنی کمزوری میں مبتلہ کرنا، جنسی افعال انجام دینا، شرم گاہ کی نسوں کو ڈھینچ کر کمزور کرنا، خواتین کو مردوں کے جیلوں میں بند کرنا، ان کی بے حرمتی کرنا انہیں مردوں کے کمروں میں رکھنا، نشیلی اور جنسی ادویات کھلا کر ان کی آبروریزی کرنا، انھیں ٹارچر کرنا، انھیں افرادِ خانہ کے سامنے بے پردہ کرنا، وغیرہ  اس طرح کے کئی معاملات یہودی فوج کرتے ہے۔ یہ یہودی افواج درندہ صفت ہے۔ جو مظلوم فلسطینیوں کو اپنے حقوق اپنی زمین سے چھین لینا چاہتے ہے۔

بازیابی مسجد اقصیٰ:

            مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری صرف فلسطینیوں کی نہیں ہیں بلکہ دنیا ہے ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔ ہر ملک میں رہنے والے ہر مسلم فرد کی ذمہ داری ہیں۔ دنیا میں ہر مسلمان کو اس کی حفاظت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ تمام عالم اسلام، اور تمام اسلامی ممالک اور تمام سیکولر ممالک کو اسرائیل کے جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے۔

            اسرائیل کی درندگی، جارحیت، ظلم وستم کو روکنا ہر ایک کا اولین فرض ہے۔ سارے مسلم ممالک کو اسرائیل کا بائکاٹکرنا چاہیے۔ اسرائیل کے Ambesedorکو اپنے ملک سے باہر کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی معشیت کا ٪30 منافہ بندوق اور جدید ہتھیاروں سے ہوتا ہے۔ اسرائیل سے جدید ہتھیاروں کی خریدی بند کی جانی چاہیے۔ ٪22 کلڈرنگس، ٪7 کے۔ایف۔ سی اور ٪11 BACARDI ایسے مختلف برانڈس کا منافع اسرائیل کو پہنچتا ہے ان برانڈس کی روک تھام اور بائکاٹ کرنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ ملت اسلامیہ اور مسلم ممالک کو ان اشیاء کا بائکاٹ کرنا چاہیے۔ بازیابی مسجد اقصیٰ کے لیے مسلمانوں کا متحد ہونا بہت ضروری ہے۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے عالمی سطح پر کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔ مسلم ممالک کے علاوہ وہ ممالک کو بھی لیا جائے جو امریکہ کی کٹپتلی نہ ہو جو دنیا کو انصاف کے ترازو میں تولتے ہو۔

عالم اسلامی کی ذمہ داری :

            آج فلسطینی عوام کو دنیا کے ہر مسلمان کی مدد کی ضرورت ہے۔ غزہ پٹی کے ایک اسپتال میں دو سال کے ایک معصوم بچے کو دیکھا گیاجو یہودی اسرائیلی فوج کے مزائیل کا شکار ہوا تھا۔ اس معصوم نے کہا: میں اللہ کو جاکر سب بتاؤ گا۔ اس معصوم نے دم توڑدیا وہ معصوم شہید ہوگیا۔ مگر کچھ سوالات چھوڑ گیا۔

1)                کیا عالم عرب کی ذمہ داری نہیں جو اس جارحیت کے خلاف فلسطین کا ساتھ دیتے ؟

2)                کیا دنیا کے White Collor ممالک کا کام نہیں جو نا جائز اسرائیل کا ساتھ دیتے ہے ؟

3)                کیا وہ نام نہاد تنظیمیں جو دہشت گردی کو اسلام سے جوڑتے ہے، انہیں اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔

4)                وہ حکومتیں جو اسرائیل کو اپنا دوست کہتی ہے۔ اور فلسطین سے دوری بنائے  ہوئے ہے۔

5)                مسئلہ فلسطین کو حل کرنا بہت ضروری ہے، فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کو بحال کرنا دنیا کی ذمہ داری ہے۔

فلسطینی عوام سے مخاطب:

            فلسطین عوام آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائے گی، ایک وقت آئے گا ہمارے ساتھ اللہ رب العزت کی مدد ہونگی، اس دن ہم اپنے اوپر کئے ہر ظلم کا بدلہ لے گے۔ یہودونساریٰ جہاں بھی رہوں انھیں وہاں سے کھدیڑا جائے گا۔ انھیں نست و نابود کیا جائے گا۔ مسجد اقصیٰ کی حفاظت ہوگی۔ انشا ء اللہ  فلسطینی مسلمانوں کی قربانی کا بدلہ اللہ رب العزت زیادہ سے زیادہ دے گا۔ بیت المقدس پھر ایک بار اسلامی شاہراہ کا مرکز بنے گا۔

تبصرے بند ہیں۔