شبِ قدر کی فضلیت

آبیناز جان علی

سورت القدر مکہ مغزمہ میں نازل ہوا اور اس کا بنیادی پیغام قرآن کے نازل ہونے کی مبارک ساعت کا امتیازپیش کرنا ہے۔ شبِ قدر بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس رات کی بزرگی اور بڑائی کا کیا مذکور جہاں لاتعداد فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔  اس بابرکت رات کا مرتبہ اللہ کے نزدیک ہزار مہینوں سے بھی اعلیٰ ہے۔

ابی حاتم اور ابو الوحید سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ہزار مہینے اللہ کی راہ میں اپنی زندگی گزاردی۔ صحابیات اس بات سے حد درجہ متاثر ہوئے لیکن اداس بھی ہوگئے کیونکہ عبودیت کے اس مرحلے تک پہنچنا ان کے لئے ممکن نہیں۔ چنانچہ اللہ نے اپنی رحمت سے سورت القدر نازل فرمایا تاکہ امت محمدؐ  مطلع ہوسکے کہ اس امت کو ایسی شان والی رات عطا کی گئی ہے جس کی اہمیت و افادیت ہزار راتوں سے بھی  زیادہ ہے۔

بے شک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔(۱:۹۷)

قرآن کا نازل ہونا مخفی بات نہیں تھی بلکہ محمدؐ کے زمانے سے ہی یہ بات چہار جانب پھیل چکی تھی کہ اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے اور اللہ نے ہی اس کتاب کی حفاظت کی اور جس وقت قرآن نازل ہوا وہ ساعت بھی قابلِ قدر ہے۔ قرآن کے نازل ہونے سے رسولؐ کی نبوت کے دور کا آغاز ہوتا ہے اور رمضان کی اسی رات میں آپ ؐ پر اسلام کی پیغمبری کی ذمہ داری عائد ہوئی۔ قرآن تیئس سالوں تک نازل ہوتا رہا۔ پوری قرآن لوح المحفوظ سے جنت کی سب سے نیچی منزل پر اتاردی گئی اور وہاں سے تیئس سال کی مدت میں اسے زمین پر اتارا گیا۔

قدر سے مراد کسی چیز پر سبقت لے جانا یا افضلیت کا درجہ رکھناہے۔ خدا القدر ہے۔ یعنی سب سے طاقتور اور سب سے اعلیٰ۔ چونکہ یہ رات شبِ قدر کہلائی جاتی ہے  خدا کی نظر میں اس رات کی حیثیت اسّی سالوں سے زیادہ ہے۔

اس رات حق تعالیٰ فرشتوں کو کائنات کے کاروبار کی بابت اپنے احکام سناتا ہے۔ اللہ کو پورا علم ہے کہ انسان اپنی قوتِ ارادی سے آنے والے سال میں کیا کیا اعمال سرانجام دینے والا ہے۔ انسان کے گذشتہ، حال اور آئندہ سال کے اعمال کی خبر حق تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور خالقِ کن فیکون سال بھر کے تمام واردات سے پوری واقفیت رکھتا ہے۔

بے شک ہم نے ہر چیز اندازے سے بنائی ہے۔(۴۹: ۵۴)

یہ تقدیر کی رات ہے جس میں کاتبِ تقدیر اپنے فرشتوں کو دنیا کے کاروبار سے آگاہ کراتا ہے اور انہیں اپنے تمام احکام، وارداتیں اور فرمان سے واقف کراتا ہے۔

بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔

اس رات میں ہر حکمت والے کام کا جدا جدا فیصلہ کردیاجاتا ہے۔(۴۔۳: ۴۴)

علماء کا ماننا ہے کہ اس رات احکام اور قوانین بنائے نہیں جاتے بلکہ تمام حادثات پہلے سے متعین ہیں اور اس کا علم فقط اللہ کو ہے اور اس رات حق تعالیٰ فرشتوں میں اس علم کا اعلان فرماتا ہے اور فرشتے انہیں رقم کرتے ہیں۔ یہ نیک اجر اور جزا کی رات ہے جہاں عابد مخصوص عبادات سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور اس رات کی عبادتوں کا مقام و مرتبت بلند و بالا ہے۔ خدا نے اپنی حکمت و دانائی سے اس رات کی اصل تاریخ مخفی رکھی ہے۔ وہ انسان کی کوشش پیہم اور جہدِ مسلسل کو پسند فرماتا ہے۔  وہ ہمارے نیک اعمال کا اجر اور اپنی خوشنودی بھی ہم سے چھپاتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا امتحان بھی ہے اور ہمارے لئے خدا کے راستے میں ہمہ وقت کوشش کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔ وہ ہم سے ہمارے گناہوں کا عذاب پوشیدہ رکھتا ہے تاکہ ان سے پرہیز کا موقع مل سکے۔ وہ اپنے پسندیدہ بندے کو ہم سے چھپاتا ہے تاکہ ہم تمام مسلمانوں کی تعظیم کرپائیں۔  دعا کی قبولیت کا وقت بھی ہمیں پوری طرح معلوم نہیں اس طرح ہم کبھی بھی دعائوں کا سہارا لے سکتے ہیں۔  اللہ نے اپنے معتبر نام ہم سے چھپائے تاکہ ہم اس کے تمام نام سے اس سے مخاطب ہوں۔  اللہ نے ساعتِ مرگ بھی ہم سے پوشیدہ رکھی تاکہ ہم میں تقویٰ بیدار ہو اور ہم ہر وقت اس کی اطاعت کرتے رہیں۔  اسی طرح شبِ قدر کی اصل تاریخ کے بارے میں وضاحت پیش نہیں کی گئی تاکہ ہم رمضان کے پورے مہینے یا بالخصوص آخری دس دنوں میں پوری فرمانبرداری سے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں لگ جائیں۔  یہ بندے کے لئے امتحان ہے جو پوری تقویت اور متانت سے پوری رات صبح صادق تک تمام پریشانیوں کے باوجود عبادتوں میں اپنا وقت صرف کرتا ہے۔

رمضان کے آخری سات دنوں میں شبِ قدر کو تلاش کیا جاتا ہے۔ شبِ قدر احادیث کی روشنی میں رمضان کی پچیس، ستائیس یا انیس رات میں واقع ہوتا ہے۔ یہ رات تہجد کی نمازیں ، قرآن کی تلاوت اور دعائوں میں گزرتی ہے۔

ابو ہریرا سے روایت ہے: جو شبِ قدر عبادت میں گزارے اور اللہ سے انعام طلب کرنے کا خواستگار ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کئے جائیں گے۔ (صحیح مسلم، صحیح بخاری)

اس حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اللہ ہر اس انسان کے گناہ معاف فرماتا ہے جو بغیر اس رات کی اصل تاریخ کا علم رکھتے ہوئے عبادتوں میں اپنا وقت گزار دے۔

سورت القدر میں اس رات کی تین فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔  یہ رات ہزاروں راتوں سے بہتر ہے۔ اس رات ملائکہ زمین پر اترتے ہیں اور اس رات سکون حاصل ہوتا ہے۔ اس رات میں عبادت کرنا، صدقہ دینا اور قرآن کی تلاوت کرنے کا اجر و ثواب باقی راتوں سے برتر ہے۔

امام مالک سے روایت ہے کہ رسولؐ کو پچھلی امتوں کی زندگی کی طوالت دکھائی گئی، تو رسولِ اقدسؐ کو افسوس ہوا کہ اس کی امت کی عمر پچھلی امتوں کی عمر کے مقابلے کم ہے اور انہیں خوف تھا کہ وہ آخرت میں زیادہ اعمالِ صالحہ پیش نہیں کرپائیں گے۔ چنانچہ اس کی تلافی کرتے ہوئے اللہ نے انہیں شبِ قدر عطا فرمائی۔ اس طرح عابد کو شبِ قدر کے طفیل اپنی زندگی میں اسّی سالوں کا اضافہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی پینسٹھ سال کی عبادت پانچ ہزار دو سو سال کی عبادت کے مدِ مقابل ہوجاتا ہے۔

 رسولؐ اس رات کی تلاش کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ شبِ قدر کی عبادت سے بندے کو خاص مرتبہ حاصل ہوتاہے۔ نیز جب خدا نے انسان کی تخلیق کی تو آدم کی روح میں غصّہ، مکاری، عیاری، تکبر، حسد اور بغض جیسے منفی خصلتوں کو دیکھ کر ملائکہ نے صدائے احجاج بلند کیا تھا۔ لیکن شبِ قدر پر جب وہی فرشتے انسان کو عبادتوں اور اللہ عزوجل کی رضا پاتے ہوئے دیکھتے ہیں انہیں اللہ کی دوراندیشی، اعلیٰ قوتِ تخلیق اور حکمت و دانائی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس اثنا میں فرشتوں کا شک و شبہ اخوت و محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ ہمارے حق میں دعائیں فرماتے ہیں اور ہماری مغفرت کی دعا ء بھی مانگتے ہیں۔

شبِ قدر میں ملائکہ ٹولیوں میں زمین پر اترتے ہیں جبکہ کچھ آسمانوں کی جانب واپس لوٹتے ہیں اور یہ سلسلہ سحر کے وقت تک رہتا ہے۔ اس رات فرشتے  اللہ کی عبادت کی گواہی دیتے ہیں اور مومنوں کے لئے اپنی گہری محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  یہ سال میں ان کے لئے ایک ایسا موقع ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہتے۔ اس لئے وہ ہم سے ملنے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کرتے ہیں اور فرشتے ہم پر سلام بھیجتے ہیں۔  اللہ انہیں بھی انعام و اکرام سے نوازتا ہے کیونکہ وہ انسانی روح کی حوصلہ افزائی کے لئے زمین پر اترتے ہیں۔  جب اس بات کا احساس انسانی ذہن میں ثبت ہوتاہے تو زیادہ عبادتوں میں مشعول ہونے کے لئے انسان پورے خلوص سے اپنے رب کو یاد کرپاتا ہے۔ اس رات فرشتوں کے سردارحضرت جبرئیل امین ؑ زمین پر مومنوں سے ملنے کے لئے اللہ کی اجازت مانگتے ہیں۔  فرشتے وہ پاک مخلوقات ہیں جو اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ ملائکہ عموماً الگ الگ مقاصد کے حصول کے لئے زمین پر اترتے ہیں۔  کچھ سجدے کی غرض سے، کچھ رکوع کے لئے توبعض مومنوں پر دعا سلام بھیجنے کے لئے اترتے ہیں یا آنے والے سال کا آسمانی فرمان سنانے آتے ہیں۔

پوری رات غروبِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک فرشتے سلام بھیجتے رہتے ہیں۔  یہ سکینہ والی معتبر رات ہے جس میں برائی اور ضرررساں چیزوں سے تحفظ اور سلامتی کا احساس  فرشتوں کی معرفت زمین پر آتی ہے اور خیرو برکت کا ہر جا نزول ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔