راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی لیڈر شپ کا امتحان

محمداسلم انصاری

(کنوینر:کل ہند ڈاکٹر عبدالجلیل فرید، میموریل سوسائٹی لکھنو)

اس وقت ملک کے حالات بہت تشویش ناک ہیں اس وقت ملک میں سچائی کودبایاجارہاہے اورجھوٹ کوپھیلایا جارہاہے۔ غریب اورکمزور اوراقلیتوں کے ساتھ غیروں جیسا سلوک کیاجارہاہے۔ سماج میں غریب طبقوں کے ساتھ مار پیٹ اورقتل غارت کاکھیل کھیلا جارہاہے۔ مسلمانوں سے پاکستان جانے کے لئے کہاجارہاہے۔ ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری ملازم کوان کی جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ بھیجاجارہاہے ملک میں نراج کاعالم ہے۔ اس کاجیتاجاگتا ثبوت 2؍اپریل 2019کوہندوستان کے تقریباً سبھی اخبارات میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کمیٹی کی سربراہ ’’مشیل بسلٹ ‘‘کی وہ رپورٹ ہے جس میں انہوں نے 2014سے 2018کے درمیان ہندوستان میں ہونے والے ہجومی تشدد (ماپ لنچنگ)کی رپورٹ شامل کی جس کاشکار دلتوں اورمسلمانوں کوبنایا گیاہے۔ ایسے حالات میں ملک کی سب سے بڑی اورپرانی کانگریس پارٹی کی اب یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کوبچانے کے لئے سامنے آئے اورملک کے سیکولر تانے بانے کی حفاظت کرے اورکشمیرسمیت پورے ملک میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے۔

راہل گاندھی نے امریکہ دورے کے دوران امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں تقریرکیں۔ تقریر کامحور ہندوستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی پررہا خاص طورپر وزیراعظم نریندر مودی نشانے پر رہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پراپنی فکر مندی کااظہار کیا اسی کے ساتھ انہوں نے اپنی کانگریس پارٹی پربھی طنز کیا۔ راہل گاندھی نے کہاکہ کانگریس پارٹی 2004سے 2014تک اقتدار میں تھی۔ 2010کے بعد کانگریس قیادت گھمنڈ میں آگئی جس انداز سے چھوٹے لیڈر سے لے کر بڑے لیڈروں کوکام کرنا چاہئے تھا وہ انہوں نے نہیں کیا جس کا انجام 2014 کے انتخاب میں بھگتنا پڑا۔

راہل گاندھی جی کانگریس کی مرکزی قیادت میں گھمنڈ 2004میں ہی شروع ہوگیاتھاجب اس وقت کے وزیراعظم محترم منموہن سنگھ نے اپنی پہلی تقریر میں کہاتھا کہ میں بہت جلد ہی گجرا ت میں صدرراج نافذ کروں گا تاکہ گجرات کے 2002کے فسادات پرنئے سرے سے انکوائری کرائوں گا۔ لیکن کانگریس پارٹی کی مرکزی قیادت نے انھیں یہ اقدام کرنے سے روکا جس کے نتیجہ میں 2014کے الیکشن میں پارٹی اس بُری طرح ہاری کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی گنواں بیٹھی۔

راہل گاندھی جی آج ملک پر جو پارٹی راج کررہی ہے یہ سب پارٹیاں آر ایس ایس کی پیداوار ہیں چاہے بھارتی جن سنگھ ہو، ہندومہاسبھا ہو، بھارتیہ جنتاپارٹی ہو، بجرنگ دل ہو اورچاہے وشوہندوپریشد ہوں۔ ان سب کی ماں آر ایس ایس ہے اورکوئی نہیں جب 30؍جنوری 1948میں گوڈسے کے ذریعہ گاندھی جی کو گولی مارکر ان کی زندگی کا خاتمہ کردیاگیا تب اسی وقت کے مرکزی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی لگادی تھی کیونکہ گوڈسے آر ایس ایس اورہندو مہاسبھا کاکارکن تھا۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی سردار پٹیل جی نے آر ایس ایس قیادت سے بات کرنے کے بعد یہ پابندی اٹھالی آج وہی آر ایس ایس کانگریس قیادت کوملک دشمن قرار دے رہی ہے۔

راہل گاندھی جی اگر ہم 1962پرنگاہ ڈالیں توہمیں یہ دکھائی دے گا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی ابتداء جبل پور (جہاں بیڑی بنانے کاکام ہوتاہے) سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد ملک کے ہراس شہر اورقصبوں میں ہوئی جہاں پرمسلمانوں نے ملک کے بٹوارے کے پرآشوب دور کے گزرنے کے بعد اپنے دستکاری کے ہنر کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کرلی تھیں۔ کم پڑھے لکھے مسلمان ان صنعتوں میں باروزگار ہوگئے تھے لیکن پڑھالکھامسلمان سرکاری نوکریاں حاصل نہیں کرپارہاتھا۔ کیونکہ1950میں کانگریس کی مرکزی سرکار نے ایک گشتی (سرکلر)جاری کرکے تمام ریاستی حکومتوں کویہ باور کرایاتھا، کیونکہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 35فیصد ہے اب مزید مسلمانوں کونوکریوں میں نہ رکھاجائے۔ وہ گشتی آج تک اپنا اثردکھارہی ہے جس کی وجہ سے سرکاری نوکریوں میں مسلمان ایک فیصد سے چارفیصد ہی نوکریاں حاصل کرپارہاہے۔ 1962سے فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کے چھوٹے بڑے سب ہی کارخانے اورصنعتیں تباہ وبرباد کی جارہی تھیں۔ یہ سلسلہ تقریباًبیس ہزار فسادات کے بعد جب 1977میں جنتاپارٹی مرکز میں تب جاکر فسادات کاسلسلہ رکا کیونکہ آر ایس ایس، بھارتیہ جن سنگھ اورہندو مہاسبھا جنتاپارٹی میں شامل تھی اس لئے فسادات نہیں ہوئے یہی تمام پارٹیاں 1962سے فسادات میں شامل تھیں۔ کانگریس پارٹی نے ان کو چھوٹ دے رکھی تھی اسی لئے فسادات کے بعد جتنے بھی انکوائری کمیشن تشکیل پائے کسی بھی کمیشن کی رپورٹ کوعملی جامہ نہیں پہنایا گیاکیونکہ کانگریس پارٹی نے ان پارٹیوں کوچھوٹ دے رکھی تھی اس کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ 1969میں مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی میں جوکہ پاورلوم کاشہر بھی کہلاتاہے جہاں ہرگھرمیں آٹھ دس پاورلوم لگے ہوتے ہیں جہاں پرلاکھوں میٹر کپڑا روز تیار ہوتاہے وہاں پرفسادات کاسلسلہ شروع ہوا دیکھتے ہی دیکھتے پورا بھیونڈی شہر آگ کی لپیٹ میں آگیا چند دنوں میں ہی پورا بھیونڈی شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس فساد کی انکوائری کیلئے  ایک کمیٹی جسٹس مادان کی سربراہی میں تشکیل پائی جس نے اس رپورٹ کے آخری پیرے میں لکھاہے کہ اس فسادات کے قصور وار وہ لوگ ہیں جوخاکی وردی پہنے ہوئے تھے لیکن آج تک کسی ایک قصور وار کوسزا نہیں ملی کیونکہ کانگریس کی نیت میں کھوٹ تھا اسی طرح بابری مسجد کی شہادت میں بھی کانگریس پارٹی برابر کی شریک تھی کیونکہ دسمبر 1949کی رات بابری مسجد میں مورتیاں رکھوانے، 1986میں مسجد کاتالا کھلواکرپوجا پاٹھ کی اجازت دینا، 1989میں سلانیاس کرانا، 1992میں بابری مسجد شہید کراکر مسجد کی جگہ پر48گھنٹے میں چبوترا تیار کراکر اس پرمورتیاں استھاپت کرانا، مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں فسادات کاسلسلہ شروع ہوجانا اورمسلمانوں کوفسادات کاقصور وار ٹھہراکر انھیں جیلوں میں ڈال دینا یہ سب وہ حقائق ہیں جن کوکانگریس پارٹی جھٹلا نہیں سکتی ہے کیونکہ یہ سب واردات کانگریس کی ہی حکومت میں انجام پائے۔ کانگریس پارٹی ان حقائق سے فرار حاصل نہیں کرسکتی ہے۔

قدرت کا اپنا فیصلہ ہوتاہے اس فیصلہ کے تحت کانگریس پارٹی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ابھرنہیں پارہی ہے نصف سے زیادہ صوبے اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ 2004میں قدرت نے ایک موقع مرکزی حکومت بناکر دیاتھا لیکن بقول آپ(راہل گاندھی)کے کانگریس پارٹی (اہنکار)گھمنڈ کاشکار ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ بری طرح ہاری اورپارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی گنوا ں بیٹھی۔

راہل گاندھی جی میں آپ کو ایک ایسی شخصیت کاتعارف کرانا چاہتاہوں جن کو آپ کی دادی وزیراعظم ہند محترمہ اندرا گاندھی جی نے 1971کے انتخاب سے قبل اپنے ایک معتمد خاص وزیر وئی بی چاون کواسپیشل چارٹر جہاز سے لکھنؤ بھیج کر دہلی بلایا تھاوہ شخصیت مسلم مجلس مشاورت یوپی کے صدر اورقل ہند مسلم مجلس کے صدر ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کی تھی۔ دہلی بلاکر محترمہ اندرا گاندھی نے ڈاکٹر صاحب سے مسلمانوں کے مسائل پرگفتگو کی پھرانہوں نے انتخابی منشور میں ڈاکٹر صاحب سے ہی مسلمانوں کے متعلق وعدے درج کرائے۔ کیونکہ محترمہ اندرا گاندھی یہ سمجھتی تھیں کہ اگرمسلمانوں کاہمیں وو ٹ مل گیا توہماری کامیابی یقینی ہے کیونکہ اس وقت انڈیکیٹ اورسنڈیکیٹ کے درمیان الیکشن ہوناتھا۔ اس معاہدے سے پوری انڈیکیٹ پارٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ انتخابی جنگ میں اندرا گاندھی کامیاب ہوئی۔

کانگریس نے ڈاکٹر فریدی صاحب سے جووعدے کئے تھے ابھی تک اس میں سے ایک بھی وعدہ پورا ہونا تودرکنا1972میں پارلیمنٹ میں ایک بل لاکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کااقلیتی کردار صلب کرلیاگیا۔ جب مسلمانوں کی طرف سے اس کے خلاف 16؍جون 1972کوبازوئوں پر کالی پٹی باندھ کر احتجاج کیاگیا تواس وقت اترپردیش کی کانگریسی حکومت کے وزیراعلیٰ کملا پتی ترپاٹھی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پی۔ اے۔ سی بٹالین سے گولی چلوادی جس میں علی گڑھ، فیروزآباد، اوربنارس میں بہت سے جانیں تلف ہوئیں ایک جگہ تومسجد میں امام کوچٹائی میں باندھ کر آگ کے حوالے کردیاگیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر فریدی صاحب نے5؍مئی 1973کولکھنؤ میں ودھان سبھا کے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کااقلیتی کردار بحال کرانے کے لئے جیل بھرو تحریک چلی جس کی قیادت ڈاکٹر فریدی اورجناب راج نرائن جی نے کی تھی جس میں تقریباً 350افراد نے اپنی گرفتاری دی۔ تقریباً ایک ماہ تک جیل میں گزارے۔ ڈاکٹر فریدی صاحب اپنے وقت کے ٹی بی(T.B)کے مرض کے ہندوستان کے چند ڈاکٹروں میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس پانچ ملکوں کی ڈگڑیاں تھیں۔ وہ اتنے غریب پرور تھے کہ اپنے مطب میں صبح کے وقت  100مریضوں کوبغیر فیس کی فری دیکھتے تھے صرف شام کے وقت بیس مریض فیس لے کر دیکھتے تھے جب وہ تقریباً ایک ماہ تک جیل میں گزارے توان کے غریب مریض بہت پریشان ہوئے۔

یہ وہی ڈاکٹر فریدی صاحب ہیں جنہوں نے نیشنل اینٹی گریشن کونسل(قومی یکجہتی کونسل ہند) دہلی میں منعقدہ 3؍اور4؍نومبر 1969کوفرقہ وارانہ فسادات کے متعلق اپنی تقریر انگریزی میں کی تھی جوتقریباً 90منٹ تک چلی۔ اس تقریر کاایک پیرا ملک کے حالات کودیکھتے ہوئے یہاں درج کررہاہوں۔ اس جلسہ کی صدارت وزیراعظم ہند محترمہ اندرا گاندھی جی کررہی تھیں۔ دیگر ممبران کونسل جوملک بھرسے آئے تھے وہ موجود تھے۔

محترمہ !میں جانتاہوں کہ آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کون مسلمانوں کی نمائندگی کرتاہے کیونکہ اس ملک میں ہرشخص لیڈر ہے لیکن آپ کے ہاتھوں میں ملک کی نبض ہے اورآپ آسانی سے فیصلہ کرسکتی ہیں کہ کسی مخصوص فرقہ کاسب سے زیادہ اعتماد اوراحترام کن کوحاصل ہے۔

اس وقت ہمارے سامنے موضوع بحث یہ ہے کہ ’’فرقہ وارانہ تشدد‘‘ کامقابلہ کیسے کیاجائے۔ میرا خیال ہے کہ اس مصیبت کے پشت پرجوجذبہ محرک ہے اس کی نوعیت مذہبی کم اوراقتدار کی ہوس اوراقتصادی لالچ زیادہ ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ فرقہ واریت کی تعریف کیاہے۔ لوگ مجھے فرقہ پرست وقدامت پسند کہتے ہیں اوریہ کہ میں قومی دھارے میں نہیں بہہ رہاہوں۔ میں آپ کوایک صحیح (نارمل) انسان، ایک عام ہندوستانی اورایک معمولی درجہ کامسلمان جیسے اس ملک میں کروڑوں مسلمان ہیں، سمجھتاہوں۔ میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ آپ ان امور سے آگاہ کریں جن کی بنا پر مجھے فرقہ پرست یاقدامت پسند سمجھاجاتاہے۔ میں سائنس کی دنیا سے وابستہ ہوں اورمبہم باتوں کاقائل نہیں ہوں۔ میں اپنی روزمرہ کی زندگی سے فرقہ واریت کی واضح مثالیں چاہتاہوں جن کو مجھ سے زیادہ آپ جانتی ہوں گی۔ اگرآپ چاہتی ہیں کہ میں اپنا مذہب ترک کردوں تومیں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ اگرآپ چاہتی ہیں کہ میں اپنا نام بدل دوں تومیں یہ بھی نہیں کروں گا۔ اگرآپ چاہتی ہیں کہ میں اپنی پوشاک تبدیل کردوں تومیں ایسا نہیں کروں گا۔ اگرآپ میرے کھانے کی عادتیں بدلنا چاہیں اورمجھے سبزی خور بنانا چاہتی ہیں تومیں ایسا بھی نہیں کروں گا۔ برام کرم مجھے قومی زندگی کے دھارے کی طرف لے چلئے۔ محترمہ !جیساکہ آپ نے خود پوچھا ہے کہ وہ دھارا کہاں ہے میں بھی اس کوجاننا چاہتاہوں۔

راہل گاندھی جی میں نے یہ سب واقعات اس لئے لکھے ہیں تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ کانگریس قیادت سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں۔

راہل گاندھی جی ہم آپ کو اس کاقصور وارا نہیں مانتے ہیں آپ اس کے ذمہ دارنہیں ہیں کیونکہ آپ کی اس وقت عمر بہت کم تھی لیکن آج ہم آپ کو اس تحریر کے ذریعہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آپ سب کے ساتھ انصاف کریں چاہے وہ کسی بھی دھرم(مذہب) کاماننے والا ہو کیونکہ ہندوستان ایک گل دستہ ہے جس میں قسم قسم کے پھول ہوتے ہیں۔ آپ نوجوان ہیں، آپ سیکولر سوچ کوملک میں پروان چڑھانے کے لئے میدان عمل میں قدم آگے بڑھارہے ہیں۔ اس ملک کی بنیاد ہی سیکولرزم پررکھی گئی۔ ملک سیکولر سوچ سے ہی پروان چڑھے گا۔ ہمارے ملک کادستور ہی سیکولرزم پرمبنی ہے۔ ہمارے ملک کے دستور کے پہلے ہی ورق پر تمہید چھپی ہے یہی ہمارے ملک کی شان ہے جومندرجہ ذیل ہے۔

ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر، سماج وادی، غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اوراس کے تمام شہریوں کے لئے حاصل کریں۔ انصاف، سماجی، معاشی اورسیاسی آزادی خیال، اظہار، عقیدہ، دین اورعبادت مساوات بہ اعتبار حیثیت اورموقع اوران سب میں اخوت کوترقی دیں جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اورسا  لمیت کایقین ہو۔ اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج 26؍نومبر 1949کویہ آئین ذریعہ ہٰذا اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اوراپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔

راہل گاندھی جی آپ کو اس سوچ کے لوگوں کواپنے ساتھ جوڑنا ہوگا ایک رنگ پرملک کولے جانے والے فرقہ پرستوں سے آپ کو لڑائی جارہی رکھنا ہوگی اس لڑائی میں سیکولر افراد آپ کاساتھ دینے کوتیار ہیں کیونکہ ہندوستان کی عوام ملک میں دستوری حکومت چاہتی ہے۔ غیر دستوری حکومت ملک میں نراج پھیلاتی ہے، ملک کوکمزور کرتی ہے، پونچی پتیوں کوفائدہ پہنچاتی ہے۔ عوام کوغربت کی طرف لے جارہی ہے۔

راہل گاندھی جی ہمیں امید ہے کہ آپ ملک میں سیکولر حکومت قائم کرنے کے لئے تمام سیکولر پارٹیوں کاایک پلیٹ فارم پرلاکر ملک میں ایک سیکولر حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ اورہندوستان کی تمام اقلیتوں بشمول مسلمانوں کوان کی آبادی کے حساب سے ان کا پورا حصہ دلانے کی زحمت کریں گے۔ دنیا میں 58مسلم ملک ہیں جس میں سے صرف ایک ہی ملک انڈونیشیا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ اس کے بعد ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کے مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں تقریباً 18کروڑ مسلمان بستے ہیں جس میں تقریباً11کروڑ مسلم ووٹر ہیں اس تعداد کواپنے دھیان میں رکھتے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ کریں جس سے مسلم آبادی بھی ترقی کی دوڑ میں برابر کی شریک رہے اورملک بھی ترقی کی طرف گامزن ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔