مسلمانوں کا مقصد حیات، لذیذ کھانوں کے سوا کچھ نہیں 

محفوظ الرحمن انصاری

اس ملک میں مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی سطح پر جو سنگین مشکلات درپیش ہیں اور جس طرح فرقہ پرستوں کی سازشوں کا شکار ہو کر ان کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں سر جوڑ کرایک حکمت عملی بنانی تھی۔ شاید اسی لئے مسلمانوں نے بہت ہی غور خوض کرکے حکمت عملی بناہی لی ہے، اور وہ ہے ’لذیذ اور چٹ پٹا کھانا‘۔ اسی حکمت علمی کے تحت اب مسلمانوں کا طرز عمل ہوگیا ہے، ہر وقت کھانا، ہر موقعہ پر کھانا، گھروں پر اہتمام سے پکا کر کھانا، ہوٹلوں سے پارسل منگاکر کھانا، ہوٹلوں میں جاکر کھانا، ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا، راستوں پر کھڑے کھڑے کھانا، راستے پر چلتے ہوئے کھانا۔ شادیوں میں حیثیت ہو کہ نہ ہو خواہ قرض ہی لینا پڑے درجنوں اقسام کے پکوان کھانا اور کھلانااورجو شادیوں میں صرف دو طرح کے کھانے رکھے اس سے ناراض ہونا کہ ہمارے مسلم مشن برائے کھانا میں شامل کیوں نہیں ہورہا ہے۔ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ مسلم محلوں میں ہر دس قدم پر چولہا، سیگڑی،اور توا، کڑاہی چڑھے ہوئے ملیں گے۔ بازو میں گندگی پڑی ہوتی ہے، گٹروں سے غلاظت جاری ہے، مگر وہاں پر سیخ کباب چٹخارے لے کر کھائے جارہے ہیں۔ حکمت عملی پر عمل جو کرنا ہے۔ گندگی سے کیا ہوتا ہے ! شادی میں کھانے کے ٹیبل پر لوگ ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں اور ڈشوں کیلئے ایسا شور مچاتے ہیں کہ جیسے کھانے سے پہلی بار ملاقات ہوئی ہے۔ اس لئے اس میں کافی گرمجوشی دکھائی جاتی ہے۔

کچھ لوگ اپنے پڑوسی اور رشتہ داروں سے زندگی بھر حسد رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں وہ دنیا کا سب سے برا شخص ہوتا ہے۔ مگر اس کے انتقال کے بعد جیسے ہی دسویں یا چالیسویں کا کھانا ہوتا ہے، پورے خاندان کے ساتھ آکر ڈٹ کر کھا کر میت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کچھ مسالک میں تو کچھ خاص دن کچھ خاص قسم کے کھانے مقرر کردیئے گئے ہیں۔ اگر ان پر کوئی سوال اٹھائے اور پوچھے کہ شریعت میں اس کی دلیل کہاں ہے تو وہ اسے گستاخ، بد عقیدہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ممبئی کے مسلمان تو مثال قائم کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وہ ممبئی سے باہر بھیونڈی کے ڈھابوں پر کئی کلو میٹر کا سفر کرکے جاتے ہیں اور مہنگے سے مہنگا کھانا کھاکر غالباً فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔ ہمارے اسلاف اور اکابرین علم دین کیلئے سفر کرتے تھے مگر مسلم نوجوان جو اپنے محلہ کی مسجد کا دو منٹ کا فاصلہ طے کرکے نماز پڑھنے نہیں جاتے، جن کے پاس روزانہ پندرہ منٹ گھر میں رکھے قرآن کر پڑھنے اور سمجھنے کا وقت نہیں ہے وہ شہر سے دور ڈھابوں پر آنے جانے کا ۱۲۰ کلو میٹر کا سفر طے کرکے قریب چار سے پانچ گھنٹے وقت صرف کرکے عام قیمت سے تین گنا مہنگا کھانا کھانے کو اپنا معیار بنائے ہوئے ہیں۔

اسی طرح رمضان المبارک کے مہینے میں مسلم محلوں میں رات بھر کھانے کا دور چلتا رہتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ جب آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش جسے قرآن نے ہزار مہینوں سے افضل بتایا ہے، لوگ پوری پوری مبارک راتیں کھانے کیلئے گھروں سے سفر کرکے اور ہوٹلوں اسٹالوں پر لائن لگا کر برباد کردیتے ہیں۔ ان کو ذرا بھی یہ احساس چھو کر نہیں گزرتا کہ آئندہ رمضان انہیں میسر آئے گایا نہیں۔ اس کے ایک سیکنڈ سیکنڈ سے فائدہ اٹھائیں۔ ۶ ؍ دسمبر کی شام کو کچھ مسلم تنظیمیں علامتی مظاہرہ ضرور کرتی ہیں مگر رات ہوتے ہی بابری مسجد کی المناک شہادت کو بھلا کر لذت کام و دہن کا دور شروع ہوجاتا ہے۔

رمضان کے مہینے میں مسلم محلوں میں بہت سے ہوٹل دن میں بھی کھلے رہتے ہیں جن کے نام دیکھیں اور افسوس کریں، اسلامی ہوٹل، رحمانی ہوٹل، محمدی ہوٹل، غریب نواز ہوٹل۔ ممبئی کی گاندھی مارکیٹ سمیت کئی جگہوں پر برقع پوش خواتین کھلے عام جھنڈ کی جھنڈ بنا کر کھاتی اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر غیر مسلم تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کئی طرح کے سوال کرتے ہیں۔ افطار کا وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہوتا ہے مگر اس وقت سبھی گھروں میں افطاری کے پکوان بنانے کی جو مہم شروع ہوتی ہے وہ مغرب کی اذان تک جاری رہتی ہے۔ بھلا پکوانوں کی تیاری کریں یا دعاء مانگیں۔

۲۴ ؍ فروری ۱۹۸۹ کو محمد علی روڈ پر نہتے بے قصور مسلمانوں کو گولیوں سے بھون کر ان کی لاشیں گردی گئی تھیں، مگر اسی محمد علی روڈ پر ۲۴ ؍ فروری کا لذیذ کھانوں پر ٹوٹے پڑے مسلمانوں میں سے کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ ایسا ظلم بھی اسی سڑک پر آج ہی کی تاریخ میں ہوا تھا۔ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا ہوگا کہ اسی سڑک پر سلیمان بیکری بھی ہے جہاں ۱۹۹۳ کے فساد میں بیکری کے مسلم مزدوروں کو پولس نے اپنی درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے ماردیا تھا۔ چٹ پٹے کھانے کے معاملہ میں ان کی فضول خرچی عروج پر ہے۔ اکثر ڈاکٹر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے مسلم مریض پرہیز بالکل نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی کھاؤ ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا، ہمیں اللہ پر توکل ہے۔ مگر یہی توکل وہ دیگر معاملات میں کیوں نہیں کرتے ؟ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کو بالکل بھول چکے ہیں جیسے چاہیں زندگی گزاریں۔ گویا یہ ان کا مقصد حیات بن چکا ہے۔ ہاں ان کھانوں کے دور سے کبھی کچھ دیر کیلئے اگر مسلمانوں کو فرصت ملتی ہے تو وہ اس وقت کو ہر گز ضائع نہیں کرتے اور آپس میں مسلک کے نام پر لڑکر ایک دوسرے کو گستاخ، دین سے خارج اور کافر تک بتاکر وقت کا بدترین استعمال کرتے ہیں۔

مسلمانوں کی جگہ کوئی دوسری قوم ہوتی تو اس کا یقینی اور عملی ایجنڈا تعلیم، سیاسی حکمت عملی اور آپس کا جوڑ اور اتحاد ہوتا۔مگر افسوس کہ قوم مسلم پھانسی کے تختے پر کھڑی ہے، پھر بھی اپنی ہی مستی میں مست ہے۔ زوال سے پہلے قوموں میں ایسی غفلت اور وبا پھیل جاتی ہے نیند سے جگانے والوں سے نہ صرف نفرت ہوجاتی ہے بلکہ وہ انہیں ہی اپنا سب سے بڑا دشمن مانتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. بریکنگ نیوز کہتے ہیں

    مجھے نہیں پتہ تھا کہ مغل دور میں مسلمان بھوکے رہتے تھے، یا پھر صرف دال روٹی پر گزارا کرتے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ بریانی ، مرغ مسلم، کباب، سیخ اور دیگر مغلائی کھانوں کی شروعات اُسی دور سے ہوئی ۔ آٖ پ کا آرٹیکل پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ بریانی ، کوفتہ، شامی کباب، سیخ وغیرہ کھانے کی خبیث عادت دراصل ۱۹۴۷ کے بعد مسلما نوں میں پڑ گئی۔
    اور ہاں مشروبات سے لطف اندوز ہونے سے قوموں پر زوال آجاتا ہے مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا ۔
    امریکہ اسی لئے سوپر پاور ہے کیونکہ وہاں کوئی مشروبات سے لطف اندوز نہیں ہوتا ہے اور نہ کوئی لذیذ کھانے کھاتا ہے ۔
    مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ سلیمان بیکری میں مزدوروں کو اس لئے گولی ماردی گئی کیونکہ مسلم قوم چٹ پٹے کھانے کھاتی تھی ۔

  2. Allah ka banda کہتے ہیں

    Qurbani see phle jis trah janwaron ko khub khilaya pilaya jata he aur wo akhir tak khate pite rhte hen wese hi lagta ye k waqte aakhir a poncha he, islye log apne muqaddar ka rizq pura krne lge hue Hain.

تبصرے بند ہیں۔