کتب بینی اور سماجی ذرائع ابلاغ: درست تناظر

شاہد اعوان

 کتاب علم کی تجسیم ھے۔ اسکا نامیاتی لمس روحانی تسکین کا طبعی ذریعہ ہے۔ کتب بینی انسانی حسیات کا تکوینی لازمہ ہے۔ کسی دانا حکیم کا یہ قول اپنی نہاد میں ایک آفاقی صداقت ہے کہ

  ’’عظیم لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ دو منٹ تک بغیر ہوا، دو ہفتوں تک بغیر پانی اور بغیر سرمائے کے زندگی کا بہت بڑا حصّہ گزار سکتے ہیں لیکن ایک لمحہ بھی کتاب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ‘‘

 اور چار دہائیوں قبل مرشد سلیم احمدنے کہا تھا :

’’کتاب ہمارے وجود کے عمیق ترین اور بلند ترین حصوں سے مخاطب ہوتی ہے جبکہ ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن ہمارے وجود کے صرف سطحی حصوں کو چھیڑتے اور متاثر کرتے ہیں۔ اگر ہم کتاب کے مستقبل پر غور کریں گے تو اس لیے نہیں کہ ہم کتاب پڑھتے ہیں۔ یا ہمیں کتاب کو اہم سمجھنے کی عادت پڑ گئی ہے بلکہ ہمارے غوروفکر کا مقصد یہ ہو گا کہ ہم دیکھیں کہ کتاب کا تہذیب سے کیا تعلق ہے۔ اور وہ تہذیب جس میں کتاب ختم ہو کر صرف ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن رہ جائیں گے وہ کیسی ہو گی؟ ‘‘

آج، ٹیکنالوجی کے دور میں کتاب پربات کرنا بجائے خود ایک نیکی ہے۔ مطبوعہ کتاب کے مستقبل کے بارے میں ماضی قریب میں پیدا ہونے والی تشویش تو خیر وقت نے غلط ثابت کر دی۔ برقی کتاب کسی طورکاغذ کے نامیاتی احساس کا متبادل نہیں بن پائی۔ ہارڈ بک بہت سخت جان ثابت ہوئی۔ مطالعہ کاعمل باصرہ اور لامسہ کے رومانی امتزاج کے بغیرعلم کو شخصیت کا جزو نہیں بننے دیتا۔

ایک زمانے تک کتاب کا مطلب علم یا محفوظ علم سمجھا جاتا تھا، جدید زمانہ میں اب یہ لازم نہیں رہا۔ جدید برقی ایجادات نے جہاں ہماری زندگی میں بہت سے مسلمات، لوازمات اور تلازمات کو بدل دیا ہے وہاں پڑھنا اور لکھنا بھی اپنی ہیئت کی نئی جہات کے ساتھ ایک نیا جہان لے کے آیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کئی کمروں پہ مشتمل کتب خانہ آپ کے جیب میں موجود ایک برقی کتب خانہ کی صورت رگ جاں سے قریب ہو، یہ الگ بات کہ آپ اس کثرت اور دستیابی سے ایک فیصد بھی مستفید ہوتے ہوں۔ کتاب کی یہ موجودگی اور فراوانی دراصل علم اور مطالعہ سے دوری کی ایک جدید صورت ہے جسے سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کچھ وقت لگے گا، اس سے معاملہ کرنے کی صورت تو بعد کی بات ہے۔

ہمارے ہاں کتب بینی کی عمومی صورتحال کو عموما سماجی ذرائع ابلاغ کی مقبولیت سے جوڑ کے دیکھا جاتا ہے اورسہل پسندانہ سی عمومی رائے قائم کرکے معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فیس بک کتاب کی سوتن بن کے آئی اورنئی دلہن کی طرح چھا گئی۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر مکمل نہیں۔

سرمایہ دارانہ جدیدیت کے زیر اثر گذشتہ دہائیوں میںمعاشرے میں آنے والی تبدیلیوں نے جہاں دیگر بہت سی روایات اور عادات کو براہ راست متاثر کیا وہیں مطالعہ اور خاص طور پہ غیر نصابی مطالعہ بھی زد میں آیا۔ اب چونکہ ہر سرگرمی کو افادی اور مادی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا ہےاور تعلیم کا مطلب بھی ڈگری سمجھا جانے لگا ہے تو ایسے میں غیر نصابی مطالعہ کسی سوچے سمجھے مقصد کے تحت تو تقریبا ختم ہوگیاہے۔ بچپن کی عادت کے زیر اثر یا ذہنی عیاشی اور تفریح طبع کے لئے پڑھنا البتہ کچھ کچھ نظر آتا ہے مگر اس صورت میں بھی فکشن، مزاح اور کچھ مخصوص مقبول مواد کے علاوہ سنجیدہ علمی مطالعہ نظر نہیں آتا۔ ایک استثنائی صورت مذہبی مطالعہ کی ہے مگر اس میں بھی عقیدہ و عقیدت، مسلکی تفوق، شخصیت پرستی اور ثواب کے نکتہ نظر سے پڑھی جانے والی روایتی کتابیںہی نظر آتی ہیں۔ اور یقینا یہ کتب ہم عصر علمی تقاضوں سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔

سماجی ذرایع ابلاغ کی مقبولیت نے آج ہمارا بہت سا وقت لے لیا ہے مگر سچ یہ ہے کہ انکی غیر موجودگی میں بھی کتب بینی میں کمی کا رجحان ایسا ہی تھا۔ اس وقت شاید کچھ اور دلچسپیاں اور مشاغل اس وقت کے حقدار ہوتے تھے۔ البتہ دوسری جانب ایسا بھی ہوا ہے کہ ان سماجی ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ایک وسیع حلقہ کی رسائی اب خالص علمی و ادبی موضوعات تک بھی ہونے لگی جو دوسری صورت میںممکن نہ تھا۔ خاص طور پہ انٹرنیٹ اور موبایل فون کی عام رسائی اور ان پہ اردو رسم الخط کی دستیابی کے بعد صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہوئی اور وہ لوگ بھی سنجیدہ موضوعات پہ پڑھنے اور لکھنے لگے جن کی زندگی پہلے اس قسم کی کسی بھی سرگرمی سے خالی تھی۔ گویا مطالعہ کرنے والا ایک بالکل نیا طبقہ وجود میں آیا ہے جو نیک شگون ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ ان میں سے وہ لوگ جنکی دلچسپی ایک خاص سطح سے آگے بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے اصل کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں، مختلف کتب خانوں اور اصل کتب کی تلاش کرتے ہیں اور اپنا مطالعہ بڑھاتے ہیں۔ یعنی ایک طرح سے فیس بک وغیرہ نے کتب بینی کے فروغ میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ تو یہ دونوں رویے ہیں جو بیک وقت بروئے کار ہیں، غلبہ البتہ ایک کا ہی ہےاور اسکی وجوہات پہ ہم پہلے گفتگو کرچکے ہیں۔

ہماری اردو کتب کے حوالے سے ایک اہم نکتہ انکی غیر معیار پیشکش اور بھدی طباعت و اشاعت بھی ہے۔ آجکی نسل کو تو دس روپے کی چیز کا مفت میں ملنے والا اشتہار بھی انتہائی جاذب نظر اور خوبصورت ہوتا ہے، جس سے انکی آنکھ اور ذوق کی مسلسل تہذیب ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ جب وہ ہلکے سے کاغذ پہ چھپے، صوری اعتبار سے انتہائی بیزارکن پیشکش والی کتاب ہاتھ میں لیتے ہیں تو دل ہرگز اسکے مطالعہ کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ یہ وہ نکتہ ہے جسکا شاید انہیں خود بھی احساس نہیں مگر انسانی نفسیات کو جاننے والے اسکی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔

کاغذی کتاب اور برقی کتب میں فرق دیکھا جائے تو دنیا بھر میں زیادہ تر خالص علمی اور تحقیقی کام کرنے والے لکھاری، اساتذہ اور طلبہ حوالہ جاتی کتب کے لئے برقی کتب کا سہارا لیتے ہیں۔  اور یہ صورتحال ترقی یافتہ دنیا سے لے کر تیسری دنیا تک موجود ہے۔ بڑے بڑے کتب خانے اب انٹر نیٹ پہ منتقل ہورہے ہیں اور ساری دنیا کے قارئین کی رسائی میں آرہے ہیں۔البتہ عمومی مطالعہ کے لئے اکثریت آج بھی کاغذی کتاب کو ترجیح دیتی ہے۔ مغربی دنیا میں برقی کتب کے باوجود کاغذی کتاب کی اشاعت میں قابل ذکر کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

آنے والے وقت میں اگرٍہم اپنے معاشرے کی مثبت خطوط پہ صورتگری کرنے میں کامیاب ہوسکے اور علم کو اسکے درست معنی میں لیتے ہوئے اپنی ترجیحات کا درست تعین کرنے میں کامیاب ہوسکے تو کتب بینی— کاغذی یا برقی—میں کمی کے شکوہ کو ختم ہوتا دیکھ پائیں گے۔ کتب خواہ کاغذی ہوں یا برقی۔ یہ ایک بڑی سطح کی جنگ ہے، اور جس بلند تر شعور اور ترجیحات کے تعین کا تقاضا کرتی ہے اسکا ادراک بدقسمتی سے تیسری دنیا میں بالعموم اور ہمارے بالخصوص نظر نہیں آرہا، انگریزی میں کہتے ہیں The worst is yet to come تو یہی صورتحال ہے، شاید یہی اللہ کی مشیت ہے، رضا مگر نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔