آؤ دیوار یہ آنگن کی گرا لی جائے
ڈاکٹر فیاض علیگ
آؤ دیوار یہ آنگن کی گرا لی جائے
اور بگڑی ہوئی ہر بات بنا لی جائے
…
زندگی ہم نے بہت ناز اٹھائے تیرے
اب مگر اور نہ ہم سے تو سنبھالی جائے
…
جسم کی آگ بجھانا ہی محبت ہے مگر
پھر تو دنیا سے محبت ہی اٹھا لی جائے
…
اک حسیں دیکھ کے عاشق کا جنازہ بولا
خاک کی چیز ہے یہ خاک میں ڈالی جائے
…
عمر بھر پھر نہ پڑے نئے کی ضرورت یارو
ایک دن اس سے اگر آنکھ ملا لی جائے
…
کیسے زاہد پہ بھلا قوم بھروسہ کر لے
اپنی دستار بھی جس سے نہ سنبھالی جائے
…
وہ مرا تھا ہی نہیں مجھ کو یقیں ہے فیاض
کیسے اس دل کی مگر خام خیالی جائے
تبصرے بند ہیں۔