آئینے سے نظر چرانے لگے
عبدالکریم شاد
آئینے سے نظر چرانے لگے
ہم جو خود سے فریب کھانے لگے
…
اس کے کوچے میں آنے جانے لگے
پھر کہیں بھی نہ ہم ٹھکانے لگے
…
وہ ہمارے قریب آنے لگے
اور ہم خود سے دور جانے لگے
…
اس نظارے کا رنگ اڑنے لگا
آپ جس سے نظر چرانے لگے
…
کھوئی کھوئی سی وہ بھی رہنے لگی
بے سبب ہم بھی مسکرانے لگے
…
میری باتوں کا کچھ جواب نہ تھا
وہ مرا مضحکہ اڑانے لگے
…
راہ میں ہیں شراب سے فتنے
ہم ذرا چل کے لڑکھڑانے لگے
…
اپنی اپنی چمک بڑھانے کو
اب دیے ہی دیے بجھانے لگے
…
میرے ہاتھوں میں دیکھ کر پتھر
وہ مجھے آئینہ دکھانے لگے
…
میر کی یاد ہو گئی تازہ
شاد جی شاعری سنانے لگے
تبصرے بند ہیں۔