رحیمن پھاٹے دودھ کو متھے نا ماکھن ہوئے

اے۔ رحمان

بات مکمل طور پر بگڑ چکی ہے۔ حصولِ آزادی کے بعد ایک مثالی آئین کی ہانڈی میں چڑھایا ہوا جمہوریت کا دودھ غلیظ سیاست کی آمیزش سے پھٹ کر ناکارہ ہو چکا ہے اور اب ہر انتخاب اس پھٹے ہوئے دودھ کو متھنے کا عمل رہ گیا ہے جس سے محض بے اصول اور بے شناخت سیاسی اقتدار بر آمد ہوتا ہے اور زمام کار کسی ایک جماعت یا جماعتوں کے گٹھ جوڑ کے ہاتھ آ جاتی ہے۔ اقتدار کی بو نافۂ مشک تتاری بن کر  بو الہوسوں کو سیاسی دشت و صحرا میں برہنہ پا برہنہ سر دوڑاتی پھرتی ہے اور اس نبرد آزمائی میں پامال ہوتے رہتے ہیں عوام، ان کے مسائل، ان کی امیدیں، ان کا مستقبل اور ان سے کیے گئے بلند بانگ وعدے۔ تمام نظریے اور نعرے بے معنی ہو چکے ہیں اورPolitical Discourseیعنی سیاسی کلامیہ اصولی مسابقے اور مباحثے کی سطح سے گر کر باہمی الزام تراشی اور دشنام طرازی تک محدود ہو چکا ہے۔

جہد للبقا اور ہوس اقتدار کی رسہ کشی میں کسی جماعت یا گروہ کی کوئی انفرادی شناخت نہیں رہی۔ ایک حمام میں سب ننگے ہیں۔ عوام کو بھی اس بات کا بھرپور ادراک ہے جس کا ثبوت ہے دلّی کے پچھلے صوبائی انتخاب کا نتیجہ جس نے اسمبلی کی70 نشستوں میں67 عام آدمی پارٹی کو بخش دیں۔ اس انتخاب میں عوام نے ووٹ نہیں دیا بلکہ تمام موجودہ سیاسی جماعتوں کے منہ پر تھوک کر بدعنوانی کے خلاف عوام پرور او رشفاف حکومت کا وعدہ کرنے والی جماعت کو اقتدار سونپ دیا تھا۔ لیکن قومی سیاست کی کیچڑ اور بے ضمیر رہنماؤں کے ذریعے پیدا کردہ افتراق اور خلجان میں لتھڑ کر رائے عامہ کے انتشار کا یہ عالم ہے کہ2014 کے عام انتخابات میں محض31فی صد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت بڑے طمطراق سے مسند اقتدار پر قابض ہو گئی او رپھر جو کچھ ہوا اسے مستقبل کا مورخ باب سیاہ کا عنوان دے گا۔ہندوستان میں ہر پانچ سال بعد منعقد ہونے والے انتخابی سرکس میں جلسوں اور ریلیوں کے نام پر جو مظاہرے اسٹیج کیے جاتے ہیں ان میں سیاسی مسخرے سادہ لوح عوام کو خوش آئند دنوں کے وعدوں پر مبنی بڑ ے بڑے سبز باغ دکھاتے ہیں، جماعتوں کے منشور جاری کیے جاتے ہیں جن میں درج ترقی اور فلاح عام کے منصوبے وطن کو پلک جھپکتے میں جنت نظیر بنا دینے کے داعی ہوتے ہیں لیکن اقتدار حاصل کرتے ہی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ ارباب اقتدار اپنا مستقبل سدھارنے میں لگ جاتے ہیں۔ عوامی مفاد اور ضروریات جائیں جہنم میں۔ ہندوستانی عوام رو پیٹ اور لڑ جھگڑ کر کسی نہ کسی طرح زندگی کر تے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے اندرا گاندھی کے دور میں ایک برطانوی ماہر اقتصادیات نے ہندوستان آکر یہاں کی معاشی اور معاشرتی صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا۔ جب وہ واپس جا رہا تھا تو ائیر پورٹ پر نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران اس نے نہایت حیرانی کے عالم میں کہا کہ ’ مجھے اس ملک میں کوئی منضبط معاشی نظام نظر نہیں آیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی غیبی طاقت ہی اس ملک کو چلا رہی ہے۔‘

موجودہ حکومت کے گذشتہ پانچ سال پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ قومی معیشت اور معاشرتی تانے بانے کو تحس نحس کرنے کی کوئی کوشش فروگذاشت نہیں کی گئی حتیٰ کہ ملک  ایک مکملMad Houseبن چکا ہے جس میں تمام عیسیٰ اور موسیٰ اپنی اپنی راہ پر گامزن ہیں جبکہ فراعین تلواریں سونت کر جمہوری اقدار کے قتل و غارت میں مشغول ہیں۔ لیکن ابر سیاہ میں کو ندتی ہوئی ایک صاعقہ فطرت روشنی کی کرن اب بھی ہے۔ وہ ہے ہماری عدلیہ یعنی سپریم کورٹ جس نے اپنے آئینی کوڑے سے جنگلی، وحشی اور بے لگام سیاسی  گھوڑوں گدھوںکو قابو کیا ہوا ہے۔ابھی کل ہی رافیل سودے کے مقدمے پر نظر ثانی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مرکزی حکومت کے تمام اعتراضات مسترد کر دیئے اور ’خفیہ‘ دستاویزات کی نقول کو جائزے کے لیے قبول کر لیا۔ ظاہر ہے اب اس سودے سے متعلق تمام مبینہ بے ضابطگیاں قانونی شکنجے میں آ جائیں گی۔ برسر اقتدار جماعت اور حکومت کے لیے یہ بہت سنگین جھٹکا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب انتخابی عمل کی کارروائی شروع ہو چکی ہے اور بی۔جے۔پی اپنی اندرونی شکست و ریخت کے علاوہ بعض خارجی عوامل ، جن میں اونچی سطح کی بدعنوانی وغیرہ کے الزامات شامل ہیں، سے بہت پریشان ہے۔

عدالتی رویے اور احکامات نے یہ تاثر تو دے ہی دیا کہ رافیل سودے میں گڑبڑ ہوئی ہے لہٰذا ووٹرکے ذہن میں حکومت اور پارٹی دونوں کے متعلق شبہات پیدا ہونا لازمی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انتخاب کے نکتہ نظر سے بی۔جے۔پی کا نقصان کانگریس یا اس کے حلیفوں کے فائدے میں تبدیل ہو جائے گا۔ کانگریس ملک کی قدیم ترین اور طاقتور ترین جماعت سمجھی جاتی رہی ہے لیکن امتداد زمانہ سے اس  پہلے اس کے  دو ٹکڑے ہوئے پھر تین چار ذیلی ٹکڑے ہوئے اور اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں۔ جس چیز کو آزادی کے بعد پارٹی کا ’کلچر‘ کہا جاتا تھا اب وہی لفظ کانگریس کی تحقیر کے لیے گالی کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ وجوہات وہی ہیں، بے اصولی بے کرداری بے عملی اور بنیادی نظریے سے انحراف اور انہی وجوہات نے دوسری قومی سطح کی جماعتوں کو برباد کیا ہے۔ جہاں تک صوبائی اور مقامی جماعتوں کا تعلق ہے تو تقریباً سبھی یا تو شخصیت پرستی پر مبنی ہیں یا علاقائی تعصب اور ذات پات کے دائروں میں محصور ہیں۔

ان تمام عوامل اور سب سے بڑھ کر دورِ حاضر کے خود غرض اور ابن الوقت قسم کے سیاسی رہنماؤں نے قومی سیاست کو پوری طرح مسخ کر دیا ہے۔ اس حد تک کہ سیاسی جماعتیں اب اپنی منفی خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں۔ ریاست کے تصور کے آغاز سے لے کر آج تک (ڈکٹیٹر شپ اور فاشزم کے علاوہ) ہر سیاسی فلسفے نے سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا ہے وہ ہے محکوم رعایا کی بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ۔ فرق رہا ہے تو بنیادی حقوق کی تعریف اور اختصاص میں،لیکن جیسا کہ مذکور ہوا موجودہ سیاسی منظر نامے میں سیاسی محرکات سے لے کر ترجیحات تک مختلف اور کہیں کہیں تو عوام مخالف نظر آتی ہیں۔ بی۔جے۔پی کے منشو رمیں تو حیرت انگیز طور پر ’قومی سلامتی‘ کو اولّیت دی گئی ہے جبکہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے قومی سلامتی کا ذکر تک اپنے منشور میں نہیں کیا کیونکہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو قومی سلامتی کی اولیت اور اہمیت توایک طے شدہ امر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ بی۔جے۔پی کے منشور میں رام مندر بنوانے کا وعدہ موجود نہیں ہے(ہا ہا ہا) بلکہ مندر کے لیے متوازن اور خوشگوار ماحول بنانے کی ’ کوشش‘ کا ذکر ہے۔ وجہ غالباً یہی ہے کہ ان کے پچھلے وعدوں کا جو حشر ہوا عوام اس سے واقف ہی ہیں۔لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ ان کے منشور میں اقلیتوں کا کوئی ذکر نہیں(ہندوتو؟)

 کانگریس نے بھی اپنے منشور میں ’سماجی انصاف‘ کہہ کر پلّہ جھاڑ لیا ہے اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے ’ نرم ہندوتو رجحان‘ پر محمول کیا ہے۔ مختصر یہ کہ پھٹے ہوئے سیاسی دودھ سے مکھّن برآمد ہونے کی توقّع کرنا تو حماقت ہے اور بی۔جے۔پی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر متبادل حکومت کے اندازے قائم کرنا بھی مبالغہ ہی نظر آتا ہے۔مگر آئین اور قومی یکجہتی کے مفاد کے پیش ِ نظر دعا اور امّید یہی کی جا سکتی ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک مضبوط حزب ِ اختلاف وجود میں آجائے جو جمہوری نظام ِ حکومت کے اجزائے ترکیبی کا جزو ِ لازم ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔