آئینے سے نظر چرانے لگے

عبدالکریم شاد

آئینے سے نظر چرانے لگے

ہم جو خود سے فریب کھانے لگے

اس کے کوچے میں آنے جانے لگے

پھر کہیں بھی نہ ہم ٹھکانے لگے

وہ ہمارے قریب آنے لگے

اور ہم خود سے دور جانے لگے

اس نظارے کا رنگ اڑنے لگا

آپ جس سے نظر چرانے لگے

کھوئی کھوئی سی وہ بھی رہنے لگی

بے سبب ہم بھی مسکرانے لگے

میری باتوں کا کچھ جواب نہ تھا

وہ مرا مضحکہ اڑانے لگے

راہ میں ہیں شراب سے فتنے

ہم ذرا چل کے لڑکھڑانے لگے

اپنی اپنی چمک بڑھانے کو

اب دیے ہی دیے بجھانے لگے

میرے ہاتھوں میں دیکھ کر پتھر

وہ مجھے آئینہ دکھانے لگے

میر کی یاد ہو گئی تازہ

شاد جی شاعری سنانے لگے

تبصرے بند ہیں۔