اسلام عالمگیر امن کا داعی!
اللہ بخش فریدی
اسلام عالمگیر امن و سلامتی کا دین ہے اور لڑائی، فتنہ و فساد کا زبردست مخالف ہے۔اسلام عالمی امن کا داعی ہے اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے نہ کہ فتنہ و فساد برپا کرنے اور انتشار پھیلانے کا۔ فساد پھیلانا تو دور کی بات اسلام تو فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی کرنے میں معاونت کرنے یا سہولت کار بننے کا بھی سخت مخالف ہے اور دنیا و آخرت میں سخت سزا کی وعید دیتا ہے۔اللہ کریم قرآن میں فرماتا ہے۔ ’’وَلَا تَعَاوَنُوْاعَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ظلم و زیادتی کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون تک نہ کرو۔شرپسند عناصر اوربعض عالمی خفیہ ادارے اور ایجنسیاں مسلما نوں میں تفرقہ ڈالنے اور انتشارکیلئے کام کر رہی ہیں ۔ وہ اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرتے ہیں جن کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے؟ پرُ امن زندگی ہر انسان کا حق ہے، اللہ تعالی نے یہ زندگی زمین کو آباد کرنے کیلئے دی ہے نہ ویران کرنے کیلئے۔ پر امن زندگی جانوروں کا بھی حق ہے انسان تو کجا اسلام حیوانات کو بلاوجہ تنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اِسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک ا نسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا قرار دیا۔
مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاًط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاًًط (سورۃ المائدۃ :32)
’’جو کسی جان کو ناحق قتل کرے یا زمین میں فساد پھیلائے یہ گویا ایسا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کا قتل کر دیا جائے ، اور جس نے کسی ایک جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘
اِسلام میں ایک شخص کی جان کی حرمت کا اندازہ قرآن کریم کے علاوہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے ایک شخص کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
لَزَوَالُ الْدُّنْیَا جَمِیْعًا أَھْوَنُ عِنْدِ اللَّہِ مِنْ سَفْکِ دَمٍِ بغَیْرِحَقٌ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘
حضور نبی کریم ﷺ نے ایک بار طواف کے دوران خانہ کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’کتنا پاکیزہ ہے تو اور کیسی خوشگوار ہے تیری فضاء، کتنا عظیم ہے تو اور کتنا محترم ہے تیرا مقام، مگر اس خدا کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں ، میں محمد ﷺ کی جان ہے ایک مسلمان کی جان اور مال کا احترام اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
گویا متحقق ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق تلف کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حرمت پر حملہ کیا ہے، اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ آج دنیائے انسانیت بے شمار مصائب و الام سے دوچار ہے۔ طرح طرح کے دجالی فتنے جنم لے رہیں ، ظلم و زیادتی کی انتہا ہے۔ مفاد پرستی، خودغرضی، غریب اقوام کو لوٹنے میں مقابلہ و مسابقت، تمیز رنگ و نسل اور آسمانی تعلیمات سے فرار نے ایک ایسی خطرناک صورت اختیار کر لی ہے جس کا علاج آج کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج انسانوں کو ایک ضابطہ حیات کا پابند بنانے کے لئے ایک عظیم تر اخلاقی کنٹرول کی ضرورت ہے جس کا دوسرا نام مذہب ہے اور جس کی کامل ترین صورت اسلام ہے۔
اسلام ہی دنیا میں دیر پا امن قائم کر سکتا ہے۔ اسلام ہی دنیا ئے انسانیت کو ایک وحدت اور ایک اخلاقی بھائی چارہ کی لڑی میں پرو سکتا ہے۔ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو لوگوں کو اخلاقیات کے ذریعہ کنٹرول کر کے ان میں ایک دوسرے کی عزت، ہمدردی، رواداری، اخوت و مساوات، اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ اسلام ہی اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کی تعمیل ،فرمانبرداری اور اطاعت کو مضبوط اور موثر بنانے کیلئے ایک ایسا میکانیزم (Mechanism) ہے جو دنیا میں امن ، سلامتی، سکون و اطمینان کا سماء پیدا کر سکتا ہے اور لوگوں کو اخلاقی طور پر کنٹرول کرکے ان میں ایک دوسرے کی محبت و الفت کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ اور اس عظیم تر کنٹرول کی مجال اور مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔
یہ بات تو درست ہے کہ مغرب کی یورش اور تہذیب نے مسلمانوں کی ثقافت اور ان کی قدروں کو نقصان ضرور پہنچایا ہے مگر مسلمانوں کا یہ اعتماد کبھی ختم نہیں ہوا کہ اسلام دنیا کا برحق دین، تمام ادیان سے بالاتر و برتر اور عالمگیر صداقتوں کا امین ہے۔ یہ بھی اسلام کی حقانیت ہے کہ آج یورپ میں گرجے فروخت ہو رہے ہیں اور وہاں مسجدیں آباد ہو رہی ہیں ۔آج عیسائی باشندے اپنی عبادت گاہوں کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں ، جبکہ مسلمان بڑے فخر کے ساتھ مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ مغرب میں اسلامک فوبیا کا مطلب یہی ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ اسلام کے شدید خوف میں مبتلا ہیں ۔ یورپ کے لوگ اسلام کو انتہائی طاقتور، دلکش اور اثر انگیز محسوس کرتے ہیں ، اسی لیے اسلام کے پھیلاؤ کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور آئے روز مختلف طریقوں سے اسی خوف اور ڈر کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ایک حقیت ہے کہ اسلام کی پر اثر تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے اہل مغرب یکجا ہو کر ایک عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے ہوئے ہیں ، لیکن ان کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے، انہیں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہر بار اسلام کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا فائدہ مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے کیونکہ اہل مغرب اسلام کے خلاف جتنا پروپیگنڈہ کرتے ہیں ، اسلام اتنا ہی زیادہ موضوع باعث بنتا ہے، لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو کر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو اسلام قبول کر لیتے ہیں ۔
سوویت یونین کے انحطاط کے بعد امریکہ اگرچہ دنیا کا واحد ’’تھانیدار‘‘ بنا ہوا ہے اور دنیا کو اپنی طاغوتی قوت و طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتا ہے مگر یہ اس کے بس کی بات نہیں ۔محبت ، رواداری، مساوات کے ذریعے تو دنیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے مگر طاقت سے نہیں ۔طاقت اور ظلم سے دنیا کا نظام نہ کبھی چلا اور نہ اب چل سکتا ہے۔ یہ بات خوش آئین ہے کہ عالم اسلام میں اب بیداری کی ایک لہر بھی پیدا ہو چکی ہے اور وہ طاغوتی قوتوں کے مدمقابل کھڑا ہونے کا سوچ رہے ہیں ۔اور پھر اسلام کی حقانیت کے پیش نظر یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک سے غیرمسلم بڑی تعداد میں اسلام کے دامن توحید سے وابستہ ہو رہے ہیں ۔ امریکی اور یورپین مفکرین کا خیال ہے کہ احیاء اسلام کی لہر کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جائے اور اسلامیانِ عالم کو سیاسی اور اقتصادی طور پر پسماندہ کر دیا جائے۔ ان کی یہ غلط فہمی ہے کہ اس طرح اسلام اپنا رخ بدل لے گا۔ ہمیں تو یقین کامل ہے کہ اسلام آگے بڑھتا ہی رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ روک نہیں سکتی۔
مغرب کی اسلام دشمنی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ہر نفس پے عیاں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک اسلامی دنیا کے قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے خائف ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان قوم کو معدنی دولت، افردای قوت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ اگر انہیں صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع میسر آ جائیں تو وہ فکری و تخلیقی انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ مغربی طاقتیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلامی ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پسماندہ رکھنا چاہتی ہیں ، اس لئے کہ مسلمانوں کی ترقی‘ مغرب کی اجارہ داری کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ مغرب کی اسلام اور مسلمان دشمنی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تہذیب و تمدن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے یہ علمبردار فلپائن، بوسنیا، کشمیر، برما، سربیا، کوسوو، بھارت اور فلسطین کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے روادار نہیں ۔ مغرب کی پشت پناہی سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جس بڑے پیمانے پر ان ممالک میں کی جا رہی ہیں اس کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ طاغوتی طاقتوں کا استحصالی نظام جلد ختم ہو کر رہے گا اور ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب سامراج زوال پذیر ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ اب پسماندہ اقوام کا مغرب پر اقتصادی انحصار آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔امریکہ و یورپ خود اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ پھر متعدد مسلمان ریاستوں کو پٹرولیم کے خزائن نے مغرب کو بھی ان کا محتاج بنا دیا ہے۔ پھر بہت سے مسلمانوں کے سرمایہ سے یورپ اور امریکہ کے بینک آباد ہیں ۔ مغربی تہذیب جسے اہل مغرب انسانی تخیل کی انتہائی پرواز اور انسانی علم و عمل کی معراج سمجھتے ہیں ۔ اب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ہمیں یہ مانتے ہیں کہ اہل یورپ نے سائنس کی دنیا میں بڑی ترقی کی ہے مگر اس کی تہذیب دم توڑ رہی ہے۔ اس کی تہذیب میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ۔ جنسی آوارگی نے اخلاقی قدروں کو پامال کر دیا ہے۔ وہاں کا معاشرہ شرم و حیاء کی تمام پابندیوں سے آزادہو کر کند ذہن اور زوال پذیر ہو رہاہے۔
تبصرے بند ہیں۔