شریعت اسلامی کے ساتھ ہم مسلمانوں کا رویہ!

محفوظ الرحمن انصاری 

 اللہ اور اس کے رسول کے احکامات یا قانون شریعت پر کوئی تنقید کرے تو ہم مسلمان آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔مگر ہم نے خود جس طرح شریعت کا مذاق بنا رکھا ہے کیا اس پر کبھی شرم بھی محسوس ہوتی ہے ؟قیامت میں ایسے طرز عمل پر سخت حساب لیا جانا ہمیں یاد آتا ہے ؟ایسی بد اعمالیوں پر غضب الہٰی پر کبھی تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے ؟

نماز ہر مسلمان پر ہر حال میں فرض ہے ،مگر جمعہ کی نماز کے علاوہ مسلم اکثریتی علاقوں کی مسجدیں سائیں سائیں کرتی ہیں اور فجر کی نماز میں اذان میں اللہ کی طرف سے یہ اعلان سننے کے بعد کہ آؤ نماز کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف اور نماز نیند سے بہتر ہے ۔لوگ سوتے رہتے ہیں اور سبھی مسلک کی مسجد وں میں سناٹا رہتا ہے ۔اذان کی آواز سن کر ایک غیر مسلم مسجد میں نہیں جاتا ، ایک مسلمان بھی نہیں جاتا ،تو پھر دونوں میں کیا فرق رہ گیا؟نماز عورتوں پر بھی فرض ہے لیکن ہم نے ان کی دینی تربیت نہیں کی ،لہٰذا اب صرف ان میں اتنا دین رہ گیا ہے کہ اذان کی آواز سن کر سر پر دوپٹہ رکھ لیتی ہیں اور اذان ختم ہوتے ہی سر سے دوپٹہ اتار دیتی ہیں ۔ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتیں ۔اس کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو اذان کا مطلب نماز کی تیاری نہیں رہ گیا ہے ۔بلکہ ہوتا یہ ہے کہ اذان ہوتی ہے تو ٹی وی کی آواز کم کردی جاتی ہے ۔ڈی جے بند کردیا جاتا ہے ۔ناچ گانا روک دیا جاتا ہے ۔

مگر جیسے ہی اذان ختم، ٹی وی کی آواز تیز ، ڈی جے کا مکروہ شور شرابہ ناچ گانے کا پروگرام پھر شروع کردیا جاتا ہے ۔ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ بھائی اتنی سی مسلمانی کافی ہوگئی!استغفراللہ۔سب سے زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کا مذاق تو رمضان المبارک میں اڑایا جاتا ہے ۔مسلم اکثر یتی محلوں میں زیادہ تر ہوٹلیں کھلے رہتے ہیں اور دن دھاڑے مسلمان ڈٹ کر کھارہے ہیں اور کاؤنٹر پر بیٹھا مسلمان پیسہ وصول رہا ہے ۔اور ان ہوٹلوں کے نام دیکھو تو اور تکلیف بڑھ جاتی ہے۔اسلامی ہوٹل ،رحمانی ہوٹل ،ربانی ہوٹل ،محمدی ہوٹل ،حسینی ہوٹل اور غریب نواز ہوٹل جیسے مقدس اور مبارک نام والے ریسٹورینٹ اور ہوٹلوں میں شریعت محمدی ﷺکی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔کچھ لوگ معمولی سا پردہ ڈال دیتے ہیں وہ بھی جیسے ایک نشاندہی ہوتی ہے کہ آجاؤ یہاں بے روزہ داروں کیلئے کھانے پینے کا معقول انتظام ہے ۔حالانکہ علمائے کرام اس پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو رمضان میں بے روزہ داروں کی شکم پروری کے لئے ہوٹل کھولنا ہی نہیں چاہئے۔اسی طرح پان بیڑی سگریٹ کی زیادہ تر دکانیں کھلی رہتی ہیں اور لوگ سب کے سامنے تمباکو نوشی کرتے ہیں ۔رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے جو اللہ کا مہینہ ہے اور روزہ فرض ہے ۔اس کے باوجود لوگ خود سے معمولی معمولی بہانے کرکے روزہ نہیں رکھتے ۔حالانکہ روزہ رکھنا اتنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تھوڑی سی ہمت کرکے شوق سے روزہ رکھ لیتے ہیں ۔جن کی حوصلہ افزائی کیلئے اردو اخبار ات میں ہفتوں تصاویر شائع کی جاتی ہیں ۔زکوٰۃ کا معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت حساب لگا کر زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اور نتیجتاًاپنے مال کو ناپاک بنا کر دنیا اور آخرت کی تکلیفوں میں مبتلا رہتی ہے ۔

اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ فحش ترین اور انتہائی گندی گالیوں میں مسلمان اول نمبر پر ہیں ۔دس سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال کے ماشاء اللہ حاجی صاحب تک بے دھڑک ماں بہن کی گالیاں بکتے ہیں ۔اسلام میں راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانے کا حکم ہے ۔مگر یہاں راستوں پر ناجائز قبضہ اس قدر ہو گیا ہے کہ پیدل چلنا دشوار ہے۔اکثر لوگ اپنے گھر اور دکان کے سامنے فٹ پاتھ یا عام راستے کی جگہ کو گھیر کر قبضہ کرلیتے ہیں یا پھر اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے باقاعدہ کرائے پر دے دیتے ہیں ۔
غیبت ،جھوٹ ،دھوکہ دہی، اور دوغلہ پن مسلمانوں میں عام ہے ۔ذرا سا اپنے سے کمزورکو دیکھا تو تکبر میں چیخنے لگتے ہیں کہ تو ہمیں جانتا نہیں ہے۔اپنے سے مالی طور سے کم تر کو خود سے سلام میں پہل تک نہیں کرتے ۔اللہ کے گھر مساجد کو مسلک بازی کا اڈہ بنا رکھا ہے اور اس پر اتنا بڑا ظلم یہ کہ مسجد کے دروازے پر دوسرے مسلک کے مسلمانوں کے داخل نہ ہونے کا بورڈ لگا رکھا ہے ۔حتیٰ کہ اگر کوئی دوسرے مسلک کامسلمان انجانے میں نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہو جائے تو اسے بغیر نماز پڑھے دھکا دے کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔پھر شکایت غیروں سے کیوں ،حالات کا رونا کیوں ؟

قرآن مجید جیسی ہدایت کیلئے نازل کتاب کی ناقدری کا عالم یہ ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی !اسے جزدان میں لپیٹ کر طاقوں میں رکھ دیا ہے اور اسے کاروبار میں خیر وبرکت کے حصول یعنی دھندہ بڑھانے کیلئے یا پھر دعا تعویذ کیلئے اور آخر میں مردے پر پڑھنے کیلئے رکھ چھوڑا ہے حالانکہ لوگ اسے سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق زندگی گزاریں تو مسلمانوں سے جہالت دور ہو اور زندگی میں انقلاب آجائے ۔

ہر مسلمان کا بالکل پکا عقیدہ ہے کہ اللہ اسے ہر وقت دیکھ رہا ہے اور اس کے دل کا حال تک جانتا ہے ۔پھر اس کے باوجود چھوٹے بڑے تمام گناہ کھلے عام کرنا کیا ایسی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری اللہ کو للکارنے جیسا نہیں ہے کہ اے اللہ تونے منع کیا اور دیکھ بھی رہا ہے پھر بھی میں کررہا ہوں !پھر اللہ کی رحمت امید بغیر توبہ کے باندھنا کیا اپنے آپ کو بدترین دھوکہ دینا نہیں ہے ؟دین و آخرت کو بالکل بھولے ہوئے ہیں ہر وقت دنیا کی باتوں میں الجھے ہوئے اسی کا تذکرہ ،کسی سے کبھی کسی جگہ حتیٰ کہ مسجد یا قبرستان میں بھی ملاقات ہوتی ہے توکاروبار یا کام دھندے کے بارے میں ہی دریافت کرتے ہیں ۔یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ آپ کا اور آپ کے گھر والوں کی دین داری کا کیا حال ہے ؟آپ خود نماز روزے کی پابندی کررہے ہیں اور کیا اپنی بیوی بچوں کو نماز روزے اور قرآن کی تلاوت کی پابندی کروارہے ہیں کہ نہیں ؟ایک سنت کو زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا ثواب ہے ۔مگر ہم اپنی ذاتی زندگی ،گھر اور معاشرے میں نہ جانے کتنی سنتوں کو مٹاتے جارہے ہیں ۔ہاں اگر کوئی غیر، اسلامی تعلیمات یا ارکان اسلام پر انگلی اٹھاتا ہے تو ہماری غیرت اسلامی کا سمندر جوش مارنے لگتا ہے ۔

کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اتنی قربانیوں کے بعد جو دین ہم تک پہنچا ہے ،ہم اس کے ساتھ کیا کررہے ہیں ؟چاہتے ہیں پوری دنیا میں شریعت کا قانون نافذ ہو مگر اپنے گھر میں اسے نافذ نہیں کررہے ہیں ۔حتیٰ کہ اپنے ساڑھے پانچ ،چھ فٹ کے جسم پر ہی ہم اسے نافذ نہیں کرنا چاہتے ۔یعنی تھوڑی سی مسلمانی اور اس میں بھی آنا کانی ۔ایسی بے بندگی ہی ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔