بات گوشت کی نہیں بے روزگاری کی ہے!

حفیظ نعمانی

جب جب کوئی ایسا آدمی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بنتا ہے جسے وزارت یا انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ ایک موقع پرست اور سیاست میں بدنام اور ناکام رہنے والا لگ جاتا ہے۔ اور اس سے ایسی حرکتیں کراتا ہے جس سے اپنے دل کے تو پھپھولے پھوٹ جاتے ہیں اور بدنامی اس نئے کھلاڑی کے حصہ میں آتی ہے۔ غیرقانونی سلاٹر ہائوسوں کوبند کرنے کے نام پر حکومت کی طرف سے جو غنڈہ گردی ہوئی ہے وہ وزیر اعلیٰ کے اشارہ پر نہیں بلکہ اپنی مسلم دشمنی کے لئے بدنام اور اب مودی کی پناہ میں زندگی گذارنے والے امت شاہ کے کہنے سے ہوئی ہے۔ وہی جب آدتیہ ناتھ یوگی کی انگلی پکڑے صوبہ کی حکومت پر قبضہ کرنے آرہے تھے تو ان کے منھ سے گالیوں کی طرح نکل رہا تھا کہ ہم نے الیکشن میں وعدہ کیا تھا کہ غیرقانونی تمام سلاٹر ہائوس بند کردئے جائیں گے۔

امت شاہ نے زیادہ اور یوگی نے کم کہا ہوگا لیکن نہ غیر دیکھا گیا نہ قانونی بس پولیس اور بھگوا غنڈوں کی فوج ہر اس مکان یا دُکان پر ٹوٹ پڑی جہاں اسے گوشت کی بوٹی نظر آئی اور یہ کسی نئی بننے والی حکومت کا بدترین پہلا کام تھا جس کی بناء پر کروڑوں انسان دہل گئے اور وہ لاکھوں جو گوشت کے کاروبار سے جڑے ہوئے تھے انہیں حکومت سے پہلے دن ہی نفرت ہوگئی۔

اس واقعہ نے 1984 ء کا وہ زمانہ یاد دلا دیا جب وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل ہو چکا تھا، گیانی ذیل سنگھ صدر جمہوریہ تھے اور ارون نہرو نے ایسا ڈرامہ رچایا کہ تمام جمہوری روایات کو جوتے سے مسل دیا اور راجیو گاندھی کو راجہ کا بیٹا راجہ کے اصول پر وزیر اعظم کا حلف دلا دیا اور پھر ارون نہرو راجیو گاندھی سے کینسر کی طرح لگ گئے اور ان سے ہر وہ غلطی کرائی جس کی بدولت نہرو گاندھی خاندان میں سب سے زیادہ مسلم دشمن ان کو کہا گیا۔ نہرو نے ہی ان سے بابری مسجد کا تالا کھلوایا، اس نے ہی شلانیاس کرایا ارون نے ہی بدترین کردار کے وزیر ویر بہادر کو نرائن دت تیواری سے حکومت دلوائی اور اس ویر بہادر سے میرٹھ میں وہ کرایا جو گجرات میں بھی نہیں ہوا تھا اور شری لنکا میں وہ کرایا جس نے ان کی زندگی کا چراغ ہی گل کردیا اور وہ لاشوں کے ڈھیر میں جوتوں سے پہچانے گئے۔

اُترپردیش میں ارون نہرو کا کردار امت شاہ نے ادا کیا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہائی کورٹ نے کسی دو مہینے کی حکومت کے وزیر اعلیٰ کو اس انداز میں سمجھایا ہے جسے پھٹکارنا کہا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے سامنے نہ ہندو کا مسئلہ ہے نہ مسلمان کا اور نہ گائے بھینس کا بلکہ لاکھوں آدمیوں کے بے روزگار ہوجانے والے اُن آدمیوں کا ہے جو گوشت کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں اور ان ہزاروں جانوروں کا ہے جو کھانا پانی مانگتے ہیں اور مالک کو گوبر کے علاوہ کچھ نہیں دیتے جو نہ اب جلانے کے کام آتا ہے، نہ کھاد کے بس اس سے گیس بنائی جاسکتی ہے وہ بھی جب، جب مالک کے پاس زمین ہو اور پیسے بھی ہوں ۔ اُترپردیش کے وہ ہزاروں کیڑے اور بوڑھے بھینسے اور بوڑھی بھینسیں کون رکھ سکتا ہے جبکہ کسان کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کو کھلانے کے لئے ہی کچھ نہیں ہے؟ اور سرکاری گئوشالے بے ایمان وزیروں کے ہاتھ میں ہیں ۔

مودی جی نے امت شاہ کو پارٹی کا صدر اسی لئے نہیں بنایا ہے کہ وہ بہت قابل ہیں بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ وہ ایک ایسے بدنام وزیر داخلہ کو جس نے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے ایسے کام کئے کہ انہیں جیل میں ڈالنا پڑا اور سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو اس قدر ذلت آمیز ہدایت کے ساتھ کہ تم جس صوبہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے اس صوبہ میں قدم بھی نہیں رکھوگے۔ اگر کوئی ناک والا لیڈر ہوتا تو شکریہ کے ساتھ ضمانت واپس کردیتا۔

مودی جی انہیں ایسی جگہ رکھنا چاہتے تھے کہ رسّی ان کے ہاتھ میں رہے۔ وہ اگر چاہتے تو وزیر بھی بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اقتدار سے دور رکھا اور نام کا صدر بنا دیا کیونکہ حکومت اور صدارت دونوں پر وہ اپنا قبضہ چاہتے تھے اور وہ انہوں نے حاصل کرلیا۔ یہ اس کا چڑچڑاپن ہے کہ کمہار سے بن نہ پڑے تو گدھے کے کان اینٹھ دو۔ انہوں نے الیکشن میں کئے ہر وعدہ کو تو پہلی کابینہ میٹنگ کے لئے رکھ دیا اور سلاٹر ہائوسوں پر پل پڑے جیسے اکھلیش یادو اور مایاوتی کے اصلی قلعے یہی ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن مسلمانوں کو بی جے پی سے تعلق نہیں تھا انہیں اب نفرت ہوگئی جبکہ آدتیہ ناتھ یوگی کو سب سے پہلا کام یہ کرنا تھا کہ بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیان جو دوری ہے اسے کم کیا جائے۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگی جی نے کہا تھا کہ مودی جی نے ہمیں ایک منتر بتایا تھا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس۔ اور امت شاہ کے مشورہ پر عمل کرنے کا حاصل یہ ہوا کہ ہندو کا وکاس مسلمان کا ستیہ ناس۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ شاہراہ سے 500  میٹر کے اندر شراب کی کوئی دُکان نہیں ہوگی۔ اور ہمیشہ سے یہ حکم ہے کہ شہر میں کوئی شراب کی دُکان عبادت گاہ یا اسکول سے 100  میٹر کے اندر نہیں ہوگی اور وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آبادی میں ہم کوئی دُکان نہیں کھلنے دیں گے۔ شراب کا کاروبار کیونکہ صرف ہندو اور سکھ کرتے ہیں اس لئے صرف اعلان ہوا عمل نہیں ہوا۔ اور گوشت کا صرف مسلمان کرتے ہیں اس لئے گائوں میں بھی اگر کوئی بھینس کاٹ لے تو تھانے کو 500  روپئے دینے پڑتے ہیں ۔

مسلمان کے روزے ہندو کے برت کی طرح نہیں ہوتے کہ برت میں بھی کھانے کی چیزیں الگ ہوتی ہیں ۔ اترپردیش میں 27  مئی سے 16  گھنٹے کا روزہ ہوگا جس میں کھان پان تو کیا سگریٹ بیڑی بھی نہیں پی جاتی۔ 24  گھنٹے میں صرف رات میں ایک بار کھانا ہوتا ہے رمضان میں عام طور پر مسلمان گھروں میں اگر روز نہیں تو دوسرے دن گوشت پکتا ہے۔ غریب آدمی بکرے کا 500  روپئے کلو کا گوشت خرید نہیں سکتا، مرغ پکنے کے بعد تھوڑا سا رہ جاتا ہے۔ سبزی جو شہروں میں آتی ہے وہ ہر کسی نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ کیسے گندے ناپاک پانی میں دُھل کر آتی ہے اور جب تک وہ کھیت میں رہتی ہے اس کے اوپر کیڑے مارنے کے لئے زہر چھڑکا جاتا ہے۔ اور گرمی کا موسم نہ پھلوں کا ہے اور نہ سبزیوں کا۔ اور دنیا کے مالک کا وعدہ ہے کہ روزہ افطار کرتے وقت روزہ دار بندہ جو مانگے گا اسے وہ دوں گا۔ یہ بھی ڈر لگ رہا ہے کہ اگر 16  گھنٹہ کے روزے کے بعد بھی ایسا کھانا ملا جسے کھاکر بھی بھوکا رہا تو اس کے منھ سے بددعا نہ نکل جائے اور ایک روزہ دار کی خاص اوقات میں دعا اور بددعا کیا کرسکتی ہے؟ اللہ کسی کو نہ دکھائے۔ معقول بات تو یہ ہوگی کہ صوبہ میں جتنے سلاٹر ہائوس پوری طرح غلط نہیں ہیں انہیں کھلوایا جائے اور پولیس کو سختی سے ہدایت ہو کہ جو قانون ہاتھ میں لے اس کا ہاتھ توڑ دو۔ خوشامد پسند اور مطلبی گانے بنائیں یا تعریف کے پل باندھیں حقیقت یہ ہے کہ دو مہینے سے حکومت ہر قدم پر ناکام ہے اور اسے وزیر اعلیٰ نے خود تسلیم کرلیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔