اسلام میں جھاڑ پھونک کی حقیقت (دوسری قسط)
ترتیب: عبدالعزیز
’سورۃ الفلق‘ اور’ سورۃ الناس‘ قرآن مجید کی آخری دو سورتیں ہیں ، مُصحف میں الگ ناموں سے لکھی ہوئی ہیں لیکن ان کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق اور ان کے مضامین ایک دوسرے سے اتنی قریبی مناسبت رکھتے ہیں کہ ان کا ایک مشترکہ نام مُعَوِّذَتَیْن (پناہ مانگنے والی سورتیں ) رکھا گیا ہے۔ امام بیہقی نے دلائل نبوت میں لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہوئی ہیں ، اسی وجہ سے دونوں کا مجموعی ناممُعَوِّذَتَیْن ہے۔
’سورۃ الفلق‘ اور’ سورۃ الناس‘ سورتوں کے معاملہ میں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟ اور یہ کہ جھاڑ پھونک بجائے خود موثر بھی ہے یا نہیں ؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت صحیح احادیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سوتے وقت اور خاص طور پر بیماری کی حالت میں معوذتین یا بعض روایات کے مطابق معوذات (یعنی قل ہو اللہ اور معوذتین) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں (ہتھیلی) میں پھونکتے اور سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر جہاں جہاں تک بھی آپ کے ہاتھ پہنچ سکتے انھیں پھیرتے تھے۔ آخری بیماری میں جب آپؐ کیلئے خود ایسا کرنا ممکن نہ رہا تو حضرت عائشہؓ نے یہ سورتیں (بطور خود یا حضورؐ کے حکم سے) پڑھیں اور آپ کے دست مبارک کی برکت کے خیال سے آپ ہی کے ہاتھ لے کر آپ کے جسم پر پھیرے۔ اس مضمون کی روایات صحیح سندوں کے ساتھ بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابو داؤد اور مؤطا امام مالک میں خود حضرت عائشہؓ سے مروی ہیں جن سے بڑھ کر کوئی بھی حضورؐ کی خانگی زندگی سے واقف نہ ہوسکتا تھا۔
اس معاملہ میں پہلے مسئلہ شرعی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ احادیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی طویل روایت آئی ہے جس کے آخر میں حضورؐ فرماتے ہیں کہ میری امت کے وہ لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں ، نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں ، نہ فال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ، (مسلم)۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جس نے داغنے سے علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی وہ اللہ پر توکل سے بے تعلق ہوگیا، (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو ناپسند فرماتے تھے جن میں سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے، سوائے معوذتین یا معوذات کے ،(ابوداؤد، احمد، نسائی، ابن حِبّان ، حاکم)۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضورؐ نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرمادیا تھا لیکن بعد میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سمجھ میں آئے اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس میں کوئی گناہ کی چیز نہیں ہے اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفا دینے والی ہے بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلۂ شرعی واضح ہوجانے کے بعد اب دیکھئے کہ احادیث اس بارے میں کیا کہتی ہیں :
طَبرانی نے صغیر میں حضرت علیؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ کو ایک دفعہ نماز کی حالت میں بچھو نے کاٹ لیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا بچھو پر خدا کی لعنت، یہ نہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو۔ پھر پانی اور نمک منگوایا اور جہاں بچھو نے کاٹا تھا وہاں آپ نمکین پانی مَلتے جاتے تھے اور قُلْ یَا اَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ۔ قل ہواللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔
ابن عباسؓ کی یہ روایت بھی احادیث میں آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پر یہ دعا پڑھتے تھے ’’اُعِیْذُ کُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّ ہَامَّۃٍ وَّ مِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ‘‘۔ (’’میں تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے‘‘) ۔(بخاری، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ)۔
عثمان بن ابی العاص الثقفی کے متعلق مسلم، موطا، طبرانی اور حاکم میں تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے ایک درد محسوس ہوتا ہے جو مجھ کو مارے ڈالتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے، پھر تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو کہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ وَ قُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اُجِدُ وَ اُحَاذِرُ، ’’میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کے شر سے جس کو میں محسوس کرتا ہوں اور جس کے لاحق ہونے کا مجھے خوف ہے‘‘۔ موطا میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ عثمانؓ بن ابی العاص نے کہاکہ اس کے بعد میرا درد جاتا رہا اور اسی چیز کی تعلیم میں اپنے گھر والوں کو دیتا ہوں ۔
مسند احمد اور طحاوی میں طلق بنؓ علی کی روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بچھو نے کاٹ لیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر پڑھ کر پھونکا اور اس جگہ پر ہاتھ پھیرا۔
مسلم میں ابو سعیدؓ خدری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو جبریلؑ نے آکر پوچھا ’’اے محمدؐ! کیا آپ بیمار ہوگئے‘‘؟ آپ نے فرمایا ہاں ! انھوں نے کہا بِاَسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ ۔ ’’میں اللہ کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اس کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں ‘‘۔ اسی سے ملتی جلتی روایت مسند احمد میں حضرت عُبادہ بن صامِت سے منقول ہے کہ حضورؐ بیمار تھے۔ میں عیادت کیلئے گیا تو آپ کو سخت تکلیف میں پایا۔ شام کو گیا تو آپ بالکل تندرست تھے۔ میں نے اس قدر جلدی تندرست ہوجانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جبریل آئے تھے اور انھوں نے مجھے چند کلمات سے جھاڑا۔ پھر آپ نے قریب قریب اسی طرح کے الفاظ ان کو سنائے جو اوپر والی حدیث میں نقل کئے گئے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ سے بھی مسلم اور مسند احمد میں ایسی ہی روایت نقل کی گئی ہے۔
امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت حفصہؓ ام المومنین کی روایت نقل کی ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے اور میرے پاس ایک خاتون شفا نامی بیٹھی تھیں جو نِملہ (ذُباب) کو جھاڑا کرتی تھیں ۔ حضورؐ نے فرمایا حفصہ کو بھی وہ عمل سکھا دو۔ خود شفا بنت عبداللہ کی یہ روایت امام احمد، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے حفصہ کو جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا ہے نملہ کا جھاڑنا بھی سکھادو۔
مسلم میں عوف بن مالک اشجعی کی روایت ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں ہم لوگ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس معاملہ میں حضورؐ کی رائے کیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا جن چیزوں سے تم جھاڑتے تھے وہ میرے سامنے پیش کرو، جھاڑنے میں مضائقہ نہیں ہے جب تک اس میں شرک نہ ہو۔
مسلم، مسند احمد اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے روک دیا تھا۔ پھر حضرت عَمرو بن حزم کے خاندان کے لوگ آئے اور کہاکہ ہمارے پاس ایک عمل تھا جس سے ہم بچھو (یا سانپ) کاٹے کو جھاڑتے تھے مگر آپ نے اس کام سے منع فرما دیا ہے۔ پھر انھوں نے وہ چیز آپ کو سنائی جو وہ پڑھتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اس میں تو کوئی مضائقہ میں نہیں پاتا، تم میں سے جو شخص اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ ضرور پہنچائے‘‘۔ جابر بن عبداللہؓ کی دوسری حدیث مسلم میں یہ ہے کہ آل حزم کے پاس سانپ کاٹے کا عمل تھا اور حضورؐ نے انصار کے ایک خاندان کو ہر زہریلے جانور کے کاٹے کو جھاڑنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ مسند احمد اور ترمذی اور مسلم اور ابن ماجہ میں حضرت انسؓ سے بھی اس سے ملتی جلتی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں حضورؐ نے زہریلے جانوروں کے کاٹے اور ذُباب کے مرض اور نظر بد کے جھاڑنے کی اجازت دی۔
مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عمیرؓ مولیٰ ابی اللحم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں میرے پاس ایک عمل تھا جس سے میں جھاڑا کرتا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے پیش کیا۔ آپؐ نے فرمایا فلاں فلاں چیزیں اس میں سے نکال دو، باقی سے تم جھاڑ سکتے ہو۔
موطا میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ بیمار ہیں اور ایک یہودیہ ان کو جھاڑ رہی ہے۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ کتاب اللہ پڑھ کر جھاڑ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر توراۃ یا انجیل کی آیات پڑھ کر جھاڑیں تب بھی یہ جائز ہے۔
رہا یہ سوال کہ آیا جھاڑ پھونک مفید بھی ہے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا اور علاج سے نہ صرف یہ کہ کبھی منع نہیں فرمایا، بلکہ خود فرمایا کہ ہر مرض کی دوا اللہ نے پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا کیا کرو۔ حضورؐ نے خود لوگوں کو بعض امراض کے علاج بتائے ہیں ، جیسا کہ احادیث میں کتاب الطب کو دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے، لیکن دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے، ورنہ اگر دوا اور طبی معالجہ ہر حال میں نافع ہوتا تو ہسپتالوں میں کوئی نہ مرتا۔ اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حسنیٰ سے بھی استفادہ کیا جائے، یا ایسی جگہ جہاں کوئی طبی امداد میسر نہ ہو، اللہ ہی کی طرف رجوع کرکے اس کے کلام اور اسماء و صفات سے استعانت کی جائے تو یہ مادہ پرستوں کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔ البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ دوا اور علاج کو، جہاں وہ میسر ہو، جان بوجھ کر چھوڑ دیا اور صرف جھاڑ پھونک سے کام لینے ہی پر اکتفا کیا جائے اور کچھ لوگ عملیات اور تعویذوں کے مطب کھول کر بیٹھ جائیں اور اسی کو کمائی کا ذریعہ بنالیں ۔
اس معاملہ میں بہت سے لوگ حضرت ابو سعیدؓ خدری کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو بخاری، مسلم، ترمذی، مسند احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں منقول ہوئی ہے اور اس کی تائید بخاری میں ابن عباسؓ کی بھی ایک روایت کرتی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضورؐ نے ایک مہم پر اپنے چند اصحابؓ کو بھیجا جن میں حضرت ابوسعیدؓ خدری بھی تھے۔ یہ حضرات راستہ میں عرب کے ایک قبیلے کی بستی پر جاکر ٹھیرے اور انھوں نے قبیلے والوں سے کہاکہ ہماری میزبانی کرو۔ انھوں نے انکار کردیا۔ اتنے میں قبیلے کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا اور وہ لوگ ان مسافروں کے پاس آئے اور کہاکہ تمہارے پاس کوئی دوا یا عمل ہے جس سے تم ہمارے سردار کا علاج کردو؟ حضرت ابو سعیدؓ نے کہا ہے تو سہی مگر چونکہ تم نے ہماری میزبانی سے انکار کیا ہے، اس لئے جب تک تم کچھ دینا نہ کرو، ہم اس کا علاج نہیں کریں گے۔ انھوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ (بعض روایات میں ہے 30 بکریاں ) دینے کا وعدہ کیا اور حضرت ابو سعیدؓ نے جاکر اس پر سورۂ فاتحہ پڑھنی شروع کی اور لعابِ دہن اس پر ملتے گئے۔ آخر کار بچھو کا اثر زائل ہوگیا اور قبیلے والوں نے جتنی بکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا وہ لاکر دے دیں ۔ مگر ان حضرات نے آپس میں کہا ان بکریوں سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیا جائے۔ نہ معلوم اس کام پر اجر لینا جائز ہے یا نہیں ؛ چنانچہ یہ لوگ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا عرض کیا۔ حضورؐ نے ہنس کر فرمایا ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ سورۃ جھاڑنے کے کام بھی آسکتی ہے؟ بکریاں لے لو اور ان میں میرا حصہ بھی لگاؤ‘‘۔ (تفہیم القرآن)
تبصرے بند ہیں۔