فیروز اللغات کا تنقیدی جائزہ

 شمس کمال انجم

دنیا میں بے شمار زبانیں پائی جاتی ہیں ۔ ان کے درمیان آپس میں اخذ وعطا کا سلسلہ بھی قائم ہے۔ بعض ماہرین لغات کہتے ہیں A pure language is a poor language۔ چنانچہ عربی بھی ان بین الاقوامی زندہ زبانوں میں سے ایک ہے جس نے زمانۂ قدیم ہی سے اخذ وعطا کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ کبھی اس نے کسی زبان کا اثر قبول کیا تو کبھی دیگر زبانوں پر اس نے اپنے اثرات مرتب کیے۔جن زبانوں پرعربی زبان اثر انداز ہوئی یا جنہوں نے عربی کا اثر قبول کیا ان میں ہماری مادری زبان اردو سر فہرست ہے۔ایک جائزے کے مطابق اردو زبان میں کل ساٹھ سے ستر ہزار عربی الفاظ پائے جاتے ہیں ، ان میں کچھ نادر الاستعمال ہیں تو کچھ متوسط الاستعمال اوربہت سارے کثیر الاستعمال۔ البتہ اسلامی اور دینی موضوعات کی کتابوں میں چالیس سے پینتالیس فیصد ،صحافتی مضامین میں تیس فیصد ادبی اصناف سخن میں پندرہ سے بیس فیصد ان عربی الفاظ کا بہ کثرت استعمال کیا جاتا ہے۔عربی سے ماخوذ ان تمام عربی الفاظ کو اردو لغات پورے اہتمام کے ساتھ ذکر کرتی ہیں ۔عربی الفاظ کے علاوہ عربی اور اسلامی اصطلاحات کی تشریح وتوضیح کا بھی عربی لغات نے کافی اہتمام کیا ہے مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ اسلامی اور عربی اصطلاحات میں بھی انہوں نے تحقیق کے بجائے سنے سنائے مفہوم ہی کو ذکر کردینا کافی سمجھا جس کی وجہ سے بعض اسلامی اور عربی اصطلاحات کی تشریح دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔

میرے سامنے فی الحال اردو لغت نویسی کے آخری دور کی تالیف شدہ مشہور لغت ’’فیروز اللغات‘‘ ہے جسے مولوی فیروزالدین نے ترتیب دیا ہے اور عرصے سے متداول ہے۔ اس مضمون میں میں نے اس کے اضافہ شدہ جامع ایڈیشن کو بنیاد بنایا ہے جس میں بے شمار عربی اور اسلامی اصطاحات کااندراج کیا گیا ہے۔گذشتہ دنوں ’’اردو میں عربی الفاظ ایک جائزہ ‘‘کے موضوع پرکام کرتے ہوئے اردو کی دیگر لغات کے ساتھ فیروز اللغات بھی میری مطالعے میں رہی ۔اس دوران اس میں موجود اغلاط کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔اس مضمون میں میں نے فیروز اللغات میں وارد عربی الفاظ سے دامن تہی کرتے ہوئے صرف عربی واسلامی اصطلاحات وتراکیب کا جائزہ لیا ہے۔ذیل میں ہم انہی عربی اور اسلامی اصطلاحات وتراکیب پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں :

ابرہہ: ابرہہ کی تعریف میں لکھتے ہیں :

یمن کا حبشی گورنر جس نے چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول میں ہاتھیوں سے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا لیکن ابابیلوں کے کنکر پھینکنے سے اس کی ساری فوج ختم ہوگئی۔ یہ  واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے کچھ عرصہ پہلے ہوا۔

اس کے بعد اصحاب فیل کی تعریف میں لکھتے ہیں :

اصحاب فیل ہاتھی والے، ابرہہ شاہ یمن اور اس کا لشکر جو ہاتھیوں پر چڑھ کر خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا اور جن کو خدا کے حکم سے پرندوں نے کنکر مار مار کر تباہ وبرباد کردیا تھا۔

تعلیق: ابرہہ نے اولا تو خانۂ کعبہ پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ مکہ کے حصار کے وقت ہی اس کا لشکر تباہ ہوگیا تھااور وہ خانۂ کعبہ پر حملہ نہیں کرسکا تھا۔ ثانیا یہ واقعہ چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول کا نہیں بلکہ نصف ثانی کا ہے۔بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا یعنی یہ 671ء کی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی سال یعنی 671ء کے 20 یا 22 ؍اپریل کو پیدا ہوئے۔(الرحیق المختوم صفحہ 78 ، 83)

احرام باندھنا

حرم میں جانے کی شرطین بجالانا، خانۂ کعبہ کے قریب پہونچ کر بعض حلال اور مباح چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلینا ، بے سلا کپڑا پہننا

تعلیق: احرام باندھنے کا مطلب  صرف خانۂ کعبہ کے قریب پہونچ کر بعض حلال اور مباح چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا نہیں ہے بلکہ میقات سے حج یا عمرے کی نیت سے احرام باندھنے سے لے کر اسے کھولنے تک اس پر بہت ساری چیزیں حرام ہوجاتی ہیں ۔

اصحاب صفہ

صحابۂ کرام کا ایک گروہ جو ہر وقت عبادت الہی میں مصروف رہتا تھا ، حضرت بلال، حضرت سلمان ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت زید ابن الخطاب اسی گروہ میں سے تھے۔

تعلیق: اصحاب فیل کا معنی ہاتھی والے تو بتایا مگر یہاں اصحاب صفہ کا معنی گول کرگئے۔ثانیا اصحاب صفہ سے مراد صحابہ کرام کا وہ گروہ نہیں تھا جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتاتھا بلکہ اصحاب صفہ وہ نادار اور غریب صحابہ تھے جن کا کوئی ماوی اور ملجا نہیں تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور انہیں اصحاب صفہ کا نام دیا۔ یہ لوگ آپ کے گھر کے شمال میں بنے ہوئے صفے یعنی چبوترے پر رہتے، عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سیکھتے۔صرف حضرت بلال، حضرت سلمان ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت زید ابن الخطاب اس گروہ سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ اور بھی صحابہ تھے جن میں حضرت ابوہریرہ کا نام نامی سرفہرست آتا ہے جسے مولف صاحب نے ترک کردیا ہے۔اور ان کی تعداد ستر تک پہونچ گئی تھی۔

کہف

کہف کا معنی غار لکھنے کے بعد کہتے ہیں ( وہ کھوہ جس میں اصحاب کہف جاکر سوئے تھے) اس کے بعد اصحاب کہف کی کامعنی (صاحبان غار) بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : مسلمانوں کے عقیدے میں پانچ یا سات یا نو آدمی جو ہزاروں سال کہف یعنی غار میں سورہے ہیں ، اور قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے، ان کے ساتھ ایک کتا بھی ہے۔

تعلیق: کہف کا لفظی معنی صرف غار ہوتا ہے۔ نہ کہ وہ کھو جس میں اصحاب کہف جاکر سوئے تھے ۔ان کی تعداد بھی پانچ یا نو نہیں تھی بلکہ وہ قرآن مجید کے مطابق صرف سات آدمی تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ سبعۃ وثامنہم کلبہم۔ابن عباس نے اس کی تائید کی ہے۔ خود قرآن مجید نے رجما بالغیب کہہ کر پہلی دو تعداد ثلاثۃ رابعہم کلبہم، خمسۃ سادسہم کلبہم کی تردید کردی ہے۔ وہ ایسا بھی نہیں کہ ہزاروں سال سے کہف یعنی غار میں سورہے ہیں ، بلکہ قرآن مجید کے مطابق وہ صرف تین سو نو سال غار میں سوئے رہے{ولبثوا فی کہفہم ثلاث مائۃ سنین وازدادوا تسعا}اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیااور اب وہ قیامت کے دن اٹھاے جائیں گے۔ (اس حوالے سے دیکھیے استاذ محترم پروفیسر محمد نعمان خان کی کتاب اصحاب کہف کے غار کا انکشاف)

حجر اسود

خانۂ کعبہ کی دیوار میں نصب سیاہ پتھر جسے حاجی بوسہ دیتے ہیں ۔

تعلیق: حجر اسود کو صرف حاجی بوسہ نہیں دیتے بلکہ عمرہ کرنے والا یا غیر خاجی بھی بوسہ دے سکتا ہے۔

عشرۃ کاملہ

حاجیوں کے دس روزے جو قربانی دینے کی استطاعت نہ رکھنے والے تین حج سے پہلے اور سات اس کے بعد رکھتے ہیں ۔

تعلیق: عشرۃ کاملۃ کا  یہاں نہ تو لفظی ترجمہ بتایا نہ ہی یہ اشارہ کیا کہ وہ قرآن مجید کی آیت کریمہ {فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذا رجعتم تلک عشرۃ کاملۃ}کا ٹکڑا ہے۔نہ ہی اس سے مراد حاجیوں کے دس روزے ہیں بلکہ اس سے مراد حج تمتع کرنے والے ان حاجیوں کے دس روزے ہیں جنہیں قربانی کی طاقت نہ رکھنے کی صورت میں تین ایام حج میں اور سات گھر میں روزے رکھنے ہوں گے جو کہ عشرۃ کاملہ یعنی پورے دس ہوجائیں گے اور یہی ان کا فدیہ ہے۔

طیِّبہ

پاک ، پوتر، مدینہ منورہ کو بھی کہتے ہیں ۔

تعلیق: طیبہ کا لفظی معنی پاک پوتر درست ہے مگر یہ مدینہ منورہ کے ناموں میں سے ایک نام نہیں بلکہ یہ مدینہ کی صفت کے طور پر طیب کی مونث طیبہ استعمال ہوتاہے۔ البتہ طیبہ ضرور مدینہ منورہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔

صفامروہ

صفا:مکہ شریف کی ایک پہاڑی جہاں دوڑنا ارکان حج میں داخل ہے۔

مروہ : مکہ معظمہ میں ایک پہاڑی کا نام

تعلیق: صفا مروہ کی بیان کردہ دونوں مفہوم محل نظر ہیں ۔ثانیا یہ کہ اگر صفا کے بارے میں یہ بتایا کہ یہ مکہ کی ایک پہاڑی ہے جہاں دوڑنا ارکان حج میں داخل ہے تو انہیں مروہ کے بارے میں بھی یہی کہنا چاہیے تھا کہ مروہ بھی اس دوڑ کا حصہ ہے۔ثالثایہ کہ صفا پر نہیں دوڑنا ہے بلکہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا ہے۔رابعا یہ کہ یع سعی اور دوڑ صرف ارکان حج میں داخل نہیں ہے بلکہ عمرہ کرنے کے والے کے لیے بھی سعی عمرہ کے ارکان میں شامل ہے۔اگروہ  یوں کہتے تو شاید کافی ہوتا کہ صفا اور مروہ مکہ شریف کی وہ دو پہاڑیاں ہیں جہاں پانی کی تلاش میں مائی ہاجرہ دوڑی تھیں اور اب صفا سے مروہ کے درمیان دوڑنا اور سعی کرنا ارکان حج  وعمرہ میں داخل ہے۔جب کہ صفا دراصل صفاۃ کی جمع ہے ، اس کا معنی ہے چکنا او رچوڑا پتھر،اس سے مرادمسجدحرام کے جنوب میں واقع جبل ابو قبیس میں چھ میٹر لمبی، تین میٹر چوڑی اور دو میٹر اونچی جگہ کانام ہے۔جب کہ مروہ مرو کا واحد ہے۔ اس کا معنی ہے سفید پتھر۔یہ مسحد حرام کے شمال مشر ق میں واقع جبل قیقعان میں چار میٹر لمبی ، دو میٹر چوڑی اور دو میٹر اونچی جگہ کا نام ہے۔(دیکھیے الموسوعۃ الحرۃ وکی پیڈیا)ان دونوں کے درمیان سات سو ساٹھ ہاتھ کی مسافت ہے۔ ( ایسر التفاسیر للجزائری ۱؍۱۳۵)

عرفات

مکہ سے بارہ میل کے فاصلے پرایک مقدس میدان جہاں حاجی حج کے دن کھڑے ہوکر لبیک بگارتے ہیں ،یہاں کچھ عرصہ قیام ہی حج ہے۔

تعلیق:  میدان عرفات میں حاجی صرف لبیک نہیں پکارتے بلکہ لبیک کے ساتھ نماز اور دیگرادعیہ میں بھی مشغول رہتے ہیں ۔

عمرہ

زمانۂ حج کے علاوہ مکہ معظمہ کی حاضری اور بیت اللہ کا طواف اس میں حج کی طرح ہی احرام باندھا جاتا اور بیت اللہ کے طواف اورصفا ومروہ کے درمیان دوڑنے کے بعد کھول دیا جاتاہے۔ حج کے دیگر مناسک ادا نہیں کیے جاتے۔

تعلیق:  صرف زمانۂ حج کے علاوہ  ایام ہی میں عمرہ ادا نہیں کیاجاتا  بلکہ ایام حج میں بھی عمرہ ادا ہوتا ہے۔ حج تمتع تو عمرہ سے ہی شروع ہوتا ہے۔ عمرہ کے بعد حاجی احرام کھول دیتے ہیں پھر اس کے بعد آٹھ ذی الحجہ کو دوبارہ احرام باندھتے ہیں ۔اس لیے یہ کہنا کہ عمرہ زمانۂ حج کے علاوہ مکہ معظمہ کی حاضری اور طواف کا نام ہے محل نظر ہے۔

لبیک

حاضر ہوں ، موجود ہوں ، حاجی لوگ میدان عرفات میں بار بار یہ کلمہ کہتے ہیں

تعلیق: حاجی صاحبان لبیک صرف میدان عرفات میں نہیں پکارتے بلکہ میقات سے احرام کی نیت  لبیک ہی سے کی جاتی ہے اس کے بعد مستقل اس کا ورد حاجی کے لیے مستحب ہے۔

مشعرالحرام

مکہ معظمہ میں وہ جگہ جہاں پر ایام حج میں قربانی کرتے ، سر منڈاتے اور عبادت کرتے ہیں ۔

تعلیق:مشعر الحرام مکہ معظمہ میں نہیں ہے نہ ہی یہاں قربانی کی جاتی ہے اور نہ سر منڈایا جاتا ہے۔ مشعر حرام کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا{فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام) مزدلفہ کو مشعر حرام کہاجاتا ہے ۔ابن عمر کے بقول پورا مزدلفہ مشعر حرام ہے۔ بعض مفسرین کے بقول مشعر حرام مزدلفہ میں قزح نامی ایک پہاڑی کا نام ہے۔(تفسیر ابن کثیر) یہاں حاجی قربانی نہیں کرتے نہ ہی سر منڈاتے ہیں بلکہ عرفات سے بعد از مغرب نکلنے کے بعد حجاج یہاں قیام کرتے ہیں او رمغرب وعشاء کی نمازیں جمع اور قصر کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور بعد نماز فجر منی کے لیے کوچ کرتے ہیں وہاں پہونچ کر قربانی اور سر منڈانے کا عمل انجام یا جاتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. مضامین ڈیسک کہتے ہیں

    اچھا مضمون ہے۔

تبصرے بند ہیں۔