اسلام کا شورائی نظام
سلیمان سعود رشیدی
اجتماعی نوعیت کے جن امور کے متعلق قرآن وحدیث میں واضح تشریح موجود نہ ہو ان میں امت کے ارباب حل وعقد آزاد رائے کے ذریعہ فیصلہ کرے تو اس مشورہ اورکمیٹی کو شورای ٰکہتے ہیں. مشورہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نظام حکومت کی بنیاد ہے ،جس کی داغ بیل اسلام نے اس وقت ڈالی ،جب یورپ پارلمینٹ جمہوریت کے مفہوم سے بی نہ آشنا تھا،آپ ﷺکو حکم دیا گیا وشاورھم فی الامر(سورہ اٰل عمران:۱۵۹)حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا ،حضرت ابوہریرہ کی اس روایت کے علاوہ بہت سی نظیریں مثالیں ملتی ہیں جن میں آپ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا،جیسے غزوہ بدر کے موقع پر ابوجہل کے لشکرکا مقابلہ کرنا،جنگی قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنا،غزوہ احزاب میں خندق کھودنا وغیرہ ان مواقع پر مشورہ لینا ثابت ہے۔
ارباب شوری کی صفات:
اب مسئلہ یہ آتا ہے کہ ارکان شوری کس قسم کے لوگ ہونے چاہئے اور انکی تعداد کیا ہونی چاہیے؟ارکان شوری کے معیار کی تعین علما نے اس طرح کی ہے کہ وہ عادل یعنی دینی واخلاقی لحاظ سے قابل اعتماد ہو،صاحب علم کم ازکم مسائل امارات واہلیت امارات کی تفصیلات جانتا ہو،صاحب رائے اور حکمت وتدبرکے فن سے واقف ہو،موقع محل کی نزاکت سے آشنا ہو،ضروری حد تک لوگوں کی نفسیات سمجھتا ہو،لہذا جولوگ اہلیت اور معیار زندگی پر پورے اترتے ہوں انھیں شوری کی رکنیت دی جائے گی،ذیل میں چند اہم اوصاف کی وضاحت کی جارہی ہے۔
۱)ایمان :
ارکان شوری کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو،کیونکہ مجلس شوری کی اہم ذمداریوں میں شریعت واحکام اسلام کی تشریح وتوضیح اور ترجمانی کرنا ہے ،چناچہ اگر کوئ شخص ایمان و یقین کا ہی حامل نہ ہو تو اس سے یہ کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ اسلام اور احکام اسلام کی ترجمانی کرے گا۔
۲)فقاہت:
اسلامی ریاست کا دستور اساسی کتاب و سنت ہے ،لہذا ضروری ہے کہ اس کے ارکان کتاب وسنت اور تعلیمات میں گہری بصیرت رکھتے ہوں۔
۳)عدالت ودیانت :
قرآن کریم میں فاسق وفاجر کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے،فاسق وفاجر جب گواہ اور قاضی نہیں بن سکتا تو قانون ساز ادارے کا رکن کیسے بن سکتا ہے ،جو شخص ارکان اربعہ کا پابند ہواخلاقی جرائم کا عادی ہو وہ نہ مسلمانوں کا معتمد بن سکتا ہے اورنہ مخلصانہ مشورے دے سکتا ہے لہذا ارکان مجلس شوری نے عدالت ودیانت کا پایا جانا ازحدضروری ہے۔
۴)عاقل وبالغ ہونا:
دماغی طور پر مریض اورنابالغ اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا تو انہیں قومی امور کی رکنیت کیسے دی جاسکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟
۵)عرف وعادت سے باخبر :
عرف ورواج شریعت میں معتبر ہے ،نیز غیر منصوص مسائل میں عرف وعادت پر کافی حد تک دارومدار ہوتا ہے۔
۶)ارکان شوری کی تعداد:
اس میں مختلف فقہا کے نظریے ہیں احناف کی رائے میں فی الجملہ ایک جماعت ہونی چاہیئے کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ،مالکیہ اورحنابلہ کی رائے یہ ہے کہ مجلس انتخاب میں اکثر ارباب حل وعقد کی شرکت وتائید ضروری ہے اورجو لوگ شرکت نہ کرسکے وہ اپنا نمائندہ بھیجے اس طرح ہر شہر سے نمائیدگی ضروری ہے ،شوافع کے راجح مسلک کے مطابق اس کے لئے کوئی تعداد مقرر نہیں ہے بلکہ پوری ریاست میں اگر ایک ہی شخص ارباب حل وعقد کی اہلیت رکھتا ہو تو اس ایک کے انتخاب سے امارت منعقد ہوجائے گی اورپوری قوم پر اس کی تائید اوراتباع لازم ہوگی۔
۷)ارکان شوری کی عمر:
مشورہ کے لئے عمرکی کوئی قید نہیں ہے چنانچہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں عبد اللہ ابن عباس ارکان شوری میں داخل تھے ،نیز آپ کی راے پر حضرت عمر فیصلہ بھی کیا کرتے تھے ،حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ موجود ہوتے تھے جو عبداللہ ابن عباس سے عمر میں بڑھے ہوتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹوں سے مشورہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
۸)مجلس شوری میں خواتین کی رکنیت:
اس سلسلہ میں دو آراء ہیں پہلئ رائے کے متعلق خواتین کو رکنیت دی جاسکتی ہے اوراستدلال حضرت ام سلمہ کے مشہور واقعہ سے کرتے ہیں کہ صلح حدیبہ کے موقع پر آپﷺ کو حلق کرواکر احرام اتارنے کا مشورہ دیا تھا ،دوسری رائے یہ ہے کہ خواتین کو شوری کی رکنیت دینا شریعت کے مطابق نہیں ہے اوردلیل میں حضرت ابوہریرہ کی روایت پیش کرتے ہیں۔
۹)مشیر کے فرائض
الف) جس معاملہ میں اس سے مشورہ لیا جارہا ہے، اگر اس میں مکمل بصیرت ہو تو مشورہ دیں ،ورنہ لا علمی کا اظہار کریں
ب)غور وفکر کے بعد مشیر کا دل جس طرف مائل ہورہا ہے ،کسی رعایت کے بغیر صاف طور پر اس کا اظہار کردیں ،یعنی مشیر کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے بھائ کا حق سمجھتے ہوئےصحیح مشورہ دیں ،رسولﷺنے جان بوجھ کر کسی کے معاملہ کو بگاڑنے یا کسی کا نقصان کرانے کے لیے مشورہ دینے کو خیانت اور گناہ قرار دیا ہے۔
ج)مشورہ دینے والے کی ذمداری ہے کہ جس معاملہ میں مشورہ لیا گیا ہے اس کو راز میں رکھیں ، کیونکہ مشورہ ایک امانت ہے ،رسولﷺ نے فرمایا کہ مشیر امین ہوتا ہے۔
۱۰) شوری کے مقاصد :
۱)اصابت رائے:مختلف آرا کے سامنے آنے پر صحیح رائےاخذ کرنے میں مدد ملےگی۔۲)ملوکیت خاتمہ:اسلام میں ملوکیت کا تصور نہیں ہے۔ ۳)ندامت اور حفاظت :یعنی بعض اوقات انسان انفرادی طور پر ایسا فیصلہ کر دیتا ہے جس سے اسے شرمندگی ہوتی ہے،جبکہ مشاورت میں اس ندامت سے بچ جاتا ہے۔ ۴)آزادی رائےاور محاسبہ:مشاورت سے آزاد رائے اور محاسبہ بھی ہوتا ہے جب مشاورت کا اجلاس ہوتا ہے تو رعایا بلاخوف اپنے امیرکے کرداروگفتار پر گرفت کرسکتی ہے،جس سے حکمرانوں کا محاسبہ ہوتا ہے۔ ۵)کتاب وسنت پر عمل:سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کع سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے اور غیر منصوص مسائل کو بنا مشاورت کے سمجھنا دشوار ہے۔
اللہ صحیح سمجھ کی توفیق نصیب فرمائیں ، آمین
تبصرے بند ہیں۔