آخر کیوں گھُٹ رہا ہے بچپن؟

احساس نایاب

اے زندگی تونے مجھے اتنے زخم دے دئیے

اب اور بتا میرے نصیب میں کتنا جینا ہے

یہ درد بھرے بول اُس معصوم بچے کے ہیں جسکی عمر محض 14 سے 15 سال کی تھی جو زندگی سے اس قدر ناراض تھا کہ موت کو گلے لگانا اسکو جینے سے زیادہ آسان لگا اس بچے کی تڑپ کا اندازہ تو ان اشعار کے ایک ایک لفظ میں جھلک رہا ہے جسکو اس بچے نے مرنے سے کچھ دن قبل اپنی نوٹ بک پہ  لکھے ہوئے تھے , ناجانے اس معصوم کے دل و دماغ میں آخر ایسا کونسا درد کیسی کسک تھی جو اسکے لفظون میں اتنا درد بھر چکی تھی ماں باپ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی یہ بدنصیب محبت کا اس قدر بھوکا تھا کہ مرتے مرتے بھی اپنے باپ سے دنیاوی تمام آرائشوں کے بدلے باپ کی محبت کو ترجیح دی۔ جی ہاں جس عمر میں بچے موبائل , بائکس ,  جیسی چیزوں کی فرمائش کرتے ہیں انہیں کے ہم عمر اس بچے نے بس باپ کا پیار مانگا جو شاید ہمارے سماج میں آج اتنا مہنگا ہوچکا ہے جسکو پانے کی خاطر بچے اس قدر بے چین رہتے ہیں کہ اس جائز چاہت کی قیمت کئی معصوموں کو اپنی جان دے کر چکانی پڑتی ہے جو کہ انکا حق ہے ۔

 اس بچے کی اندرونی کیفیت کو محسوس کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو روح تڑپ اٹھتی ہے زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے سماج سے نفرت سی ہونے لگتی ہے جہان اتنی کم عمر کے بچے جن کی زندگی ابھی پوری طرح سے شروع بھی نہین ہوئی جنہیں ابھی جوانی کی دہلیز مین قدم رکھنا تھا جہان پہ آکے بچے دوستون کے ساتھ ہنسی مذاق خوشیوں اور جوش سے بھری زندگی گذارتے ہیں۔ ایسی عمر میں بچوں کا خودکشی کرنا صرف انہیں کے والدین کے لئے نہیں بلکہ اس بچے کے  تمام ہم عمر بچوں کے ماں باپ کا بھی دل دہلانے کے لئے کافی ہے۔ اس بچے کے بارے میں سوچتے ہیں تو آنکھوں کے آگے اپنے بچوں کے چہرے گھومنے لگتے ہیں ایک انجانہ سا ڈر ہمیں جکیڑ لیتا ہے رات کی سیاہی میں وہ سب کچھ تسور بنکے نظر آنے لگتا ہے جو زبان پہ لانا بھی خوفزدہ ہے 24 گھنٹے اسی ڈر اور خوف کے سائے میں دن رات گذرتے ہیں جب بچے ہمارے پاس آتے ہیں تو ہمارا ڈر اور خوف آنسوؤں کی شکل میں پلکوں کی قید توڑنے کی کوشش کرتا ہے , ہمارا یہ حال ہے تو ان والدین پہ کیا گذرتی ہوگی جنکے لخت جگر نورِنظر خودکشی جیسا غلط قدم اٹھاتے ہیں ,,

 اس بچے نے بھی کچھ ایسا ہی کیا لیکن اسکے ذمیدار کون ہیں  ؟؟؟ اور سمجھ نہیں آتا کہ اسکو  خودکشی کا نام دیں یا قتل ؟؟؟ اس بات کو ہم سمجھ نہیں پارہے , کوئی سمجھ سکیں تو بتانا ضرور …….یہ جس بچے کی داستان ہے  وہ 14 سے 15 سال کی عمر کا ہنس مکھ بچہ تھا جسکا نام اسفان تھا جو تین بہنوں کا ایکلوتا بھائی تھا , ماں باپ کے دل کا سکون تھا ، جنکی زندگی غربت میں گذر رہی تھی اس وجہ سے اسفان کی ماں جنکا نام  صفیہ ہے وہ کسی بھی طرح لوگوں کے کپڑے سل کر اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی کوشش میں رات دن ہر قسم کی تکالیف پریشانیوں سے نڈھال ہورہی تھی ۔ لیکن ان تمام مشکلات تکالیف کے  باوجود اپنے لاڈلے کو دیکھ کر اپنا ہر غم بھلادیتی اور باپ غیر ذمیدار جسکو اپنے سوا کسی کی  پرواہ نہ تھی ۔ رہی تین بہنین جن میں ایک بہن کی کچھ ہی دنوں میں  شادی ہونے والی تھی اور یہ معصوم اسفان تین بہنوں میں سب سے چھوٹا سب کا لاڈلہ بھائی تھا اُس بدنصیب ماں کا لختِ جگر ہو کر بھی ناجانے اسفان پہ کیا بیت رہی تھی جو ہمیشہ خود کو تنہاء اور بیبس محسوس کرتا ۔ پھر بھی اپنی ماں کا سہارا بنا ہوا تھا اپنے باپ کی ظلم و ذیادتئیون سے ماں کو بچانا ۔ دلاسہ دیتے رہنا تو کبھی ڈھیروں شکایتیں کرتا رہتا ۔ جب کبھی ماں پریشان ہوکر خود کو تنہاء پاتی تو یہی ایک واحد سہارا تھا جو اپنی ماں کے آنسو پوچھتے ہوئے ہمیشہ ساتھ رہنے اور اچھے دنوں کی امید دلایا کرتا تھا ۔ ناجانے اُس دن اسفان پہ ایسا کونسا جنون سوار تھا اور نہ ناجانے اس دن ماں باپ پہ بھی کونسی غفلت تاری ہوچکی تھی۔ جب کسی بات پہ باپ , بیٹے کی بحث ہوگئی اور چھوٹی سی بات پہ  باپ نے بنا سوچے سمجھے اسفان کو ڈانٹ ڈپٹ کر پھٹکار لگانا مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ ویسے تو یہ سب کچھ ہر روز کا معمول تھا لیکن اس منحوس دن ناجانے اسفان کو ایسا کیا محسوس ہوا جس نے سب کچھ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا شاید اس دن ماں کی خاموشی اسفان کی زندگی کے خاتمے کی وجہ بن گئی ہوگئ ۔

کیونکہ اس دن شوہر اور بیٹے کے درمیان جانا ماں کو بہتر نہیں لگا اسلئے ماں گھر سے باہر نکل گئی اور باقی افراد بھی ڈر کر اپنے معمول کے مطابق کاموں میں لگ گئے اور اکثر یہ ہر گھر کے حالات ہیں جہان شوہر اور بچوں کے درمیان مائیں پیس کے رہ جاتی ہیں اگر شوہر کو روکیں تو شوہر کو لگتا ہے کہ یہ اسکی بیزتی ہے اور بچوں پہ غصہ کریں تو بچے سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی محبت نہیں کرتے , ان حالات کے بیچ ہر دن مرمر کے جیتی ایک ماں ہے ۔

 پھر بھی اس دن ماں ہونے کے ناطے اپنے بچے کو سمجھانا دلاسہ دینا اور اپنی محبت کا احساس دلانا اس ماں کی ذمیداری تھی جس سے شاید وہ چوک گئی اور اس چوک کی قیمت اپنے لختِ جگر کی جان سے چکانی پڑی۔

جس وقت شوہر ، بیٹے کے بیچ بحث چل رہی تھی ماں سے یہ برداشت نہیں ہوا ، تو وہ وہاں سے نکل کر کسی کام سے باہر چلی گئی اور کچھ وقت کے بعد جب گھر میں سب کچھ معمول کی طرح ہوگیا  سبھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تب  ماں گھر  واپس آئی , پر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس سناٹے کے پیچھے ایک بہت بڑا طوفان اسکا منتظر تھا جسکی وجہ سے اسکی پوری دنیا اجڑنے والی تھی، اس بات سے انجان ماں جب گھر میں داخل ہوئی اور بیٹے سے بات کرنے کے ارادے سے کمرے کی اور رخ کیا تو اپنے لختِ جگر کو گلے میں پھانسی ڈالے پنکھے سے لٹکے ہوئے دیکھ کر ماں کی آنکھیں پتھرا گئی منہ سے درد بھری ایسی چیخ نکلی جسکی وحشت سے سارا محلہ دھل گیا اور ایک ہی پل میں اس ماں کی پوری دنیا ویران ہوگئی  اسکے پیروں تلے سے زمین کھسک چکی۔ تمام ہوش و حواس اڑ گئے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ  نیم سدھ ہوگئی۔

 جب ہوش آیا تو گھر کے ساتھ سارے محلے میں ماتم بسرا ہوا تھا سارا محلہ انکے گھر میں جمع ہوگیا آخر اس گھر پہ قیامت جو ٹوٹ پڑی تھی سفید کفن میں لپٹی ہوئی اس معصوم کی لاش دیکھ کر ہر پتھر دل کے آنکھوں سے بھی آنسوؤں کا سیلاب اُمڑ پڑا ۔

کچھ دن بعد جس گھر میں شادی کی شہنائیاں گونجنے والی تھیں  آج وہاں اس قدر ماتم بسرا ہوا تھا کہ ہر ایک کے چہرے پہ دہشت طاری تھی , تینون بہنیں بلک بلک کر رو رہی تھیں , آج اس گھر کا واحد چراغ اسفان جو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا تھا ان بہنوں کی شان انکے مائکے کا سہارا جو ان سے روٹھ چکا تھا جس سے ان بہنوں نے کتنی ہی امیدیں جوڑی ہوئی تھیں غیر ذمیدار باپ سے تو ان بہنوں کو کوئی امید نہ تھی , لیکن اپنے اس قابل بھائی جسکے اخلاق وہ سیرت کی تعریفیں سبھی کی زبانوں پہ گھوم رہی تھیں اسفان کی ایک ایک بات سبھی کو یاد آرہی تھی سبھی کو جھنجوڑ رہی تھی جو اسفان نے مرنے سے پہلے کہے تھے  کیونکہ اسفان تھا ہی  ایسا جو ہر وقت ماں بہنوں کی پرواہ کرتا انکی فکر کرتا پانچ وقتہ نمازی چھوپڑپٹی کے موحول میں پرورش پاکر بھی کمل کے پھول کی مانند پاک شاف خوبصورت اور نیک سیرت کا مالک راہ گذر اجنبی کی بھی مدد کے لئے ہر وقت تیار۔

لیکن آج اسفان کے جانے کے بعد بس اسکی یادیں باتیں اسکے اخلاق اور سیرت کے چرچے عام ہیں جیسے ایک پھول مرجھا جانے کے بعد بھی ہرسو اپنی خوشبو بکھیرتا ہے ویسے ہی اسفان نے اپنے جانے کے بعد بھی اپنی ماں اور بہنوں کے حصہ میں ایک تڑپ کبھی نہ مٹنے والی کسک اور کبھی نہ بھرنے والا ایسا زخم دیدیا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ناسور کی شکل اختیار کرلیگا اور اپنی اس ایک پل کی چوک، غفلت سے تاعمر روبرو کرواتے ہوئے کانٹے کی طرح چبھتا رہیگا ۔

آج ایسے حادثات ہر شہر میں عام ہوتے جارہے ہیں جسکے بارے میں سنتے ہیں تو  سمجھ نہیں پاتے کہ اسکو کیا نام دیں خودکشی یا قتل کیونکہ آج کے ماحول میں بچے ہر دن کسی نہ کسی ذہنی اذئیتوں سے جوجتے رہتے ہیں , آخر ہمارے سماج ہمارے معاشرے میں ایسا ہو کیون رہا ہے ؟ آخر کیون ہم اپنے ہی بچوں کی اندرونی کیفئیت کو انکے ذہنی تناؤ کو سمجھ نہیں پارہے ؟  پریوار کے درمیان رہنے کے باوجود بھی آخر کیون اسفان جیسے بچوں کا بچپن گھٹ گھٹ کے دم توڑ رہا ہے ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ آج پھر سے اس مصروفیت سے بھری زندگی میں بچپن  بھی بچپن کی کمی محسوس کرتا ہوگا جو کمی پہلے نانا نانی , دادا دادی کی محبت شفقت پاکر پوری ہوا کرتی تھی راجا رانی کی کہانیوں سنگ ہنستی کھلکھلاتی پروان چڑھ رہی تھی , جو ماں باپ کی مصروفیت یا کوتاہیوں، لاپرواہیوں یا مجبوریوں یا جو بھی کہیں ان وجوہات کو اپنی محبت دیکر پورا کرنے میں کامیاب ہورہی تھی، شاید آج انہیں کی کمی سے تاریکیون میں گم ہورہا ہے، شاید اُسی بچپن کی کمی سے گھٹ رہا ہے آجکا یہ بچپن۔

تبصرے بند ہیں۔