ہے انتشار یہاں اور ثبات آئندہ؟

ادریس آزاد

ہے انتشار یہاں اور ثبات آئندہ؟
عذاب "حال” پہ اُترا، نجات "آئندہ؟

۔

تمہارے بعد ستاروں نے مجھ سے وعدہ لیا
ہمارے ساتھ گزاروگے رات آئندہ

۔

یہ لوگ شورش ِ کشمیر کھول دیتے ہیں
تُو اب کسی سے نہ کر کوئی بات آئندہ

۔

وہ پیاس ہائے !کہ دریا پکار اُٹھا تھا

جہان بھر میں بہے گا فرات آئندہ

۔

اُسے کہو کہ تنفس سےماورا۶ ہوجائے
لہو سے جان چھڑالے حیات آئندہ

۔

میں اپنی آپ ہی تقدیر ٹھیک کرلونگا
وہ بازی گر! جو دکھائے نہ ہاتھ آئندہ

۔

تو یوں کریں گے کہ بازی الٹ کے رکھ دینگے
نہ دے سکیں گے جو شاطر کو مات آئندہ

۔

اے رازدار! کہیں کا نہیں رہونگا میں
تمہارے منہ سے جو نکلی یہ بات آئندہ!

۔

تُو یوں خفا نہ ہو، بس اب میں یاد رکھونگا
تمہارے پیار کے چودہ نکات آئندہ

۔

کفن کو شملہ۶ الفت بنا کے باندھ لیا
ہماری آج سے اونچی ہے ذات آئندہ

۔

اُسے کہو! مجھے بچوں سے شرم آتی ہے
وہ میرے گھر میں نہ لائے زکات آئندہ

۔

وہ "عُمرہ باز” تبرک میں سنگ لایا ہے
عرب سے آئیں گے لات و منات آئندہ

۔

میں اپنی طاقتِ وجداں سے اُس کو ڈھونڈونگا
خود اپنے آپ نہ بولیں صفات آئندہ

۔

تمہاری قید سے آزادؔ ہوگئے ہم بھی
یہ سُوت چھوڑ کے پہنیں گے پات آئندہ

تبصرے بند ہیں۔