طلبہ و طالبات کا کھیل کود اور ثقافتی پروگروموں میں اختلاط

محمد صابر حسین ندوی

عصر حاضر میں عموما اسلام کو قدامت پسندی کا طعنہ دیا دیاجاتا ہے، اور اسے زمانے کا ساتھ نہ دینے اور جدیدتکنالاجی کے اس دور میں اس پر عمل کو متشددانہ گرداناجاتا ہے،اور ہر پل یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے؛ کہ یہ تعلیم وثقافت اور ترقی وعروج کا مخالف اور انسانی معراج کا مد مقابل ہے، اور رہ رہ کر یہ احساس دلانے کی کد وجد ہوتی ہے؛کہ اسلام میں تفریح وثقافت، کھیل، کود اور ہنسی مزاق یا کسی بھی قسم کی طبعی لطافت کی کوئی جگہ نہیں، یہ گویا ایک ایسا دین ہے، جو اس کے متبعین کو سنگ دل وترش مزاج بنادیتا ہے،بالخصوس اسکول وکالج کی تعلیمات اور طلبہ وطالبات کے اختلاط کی مخالفت کو اس کے تشدد میں شمار کرتے ہوئے نت نئے پروپیگنڈے کی کوشش ہوتی ہے حالانکہ اس کے مضرات سے پوری دنیا واقف ہے، اورخود ان کے محققین واسکالر اورماہرین نفسیات اسے غلط ٹھہراتے ہیں ، لیکن ان سب کی وجہ سے اکثر مسلم طلبہ وطالبات کو احساس کمتری کا شکار پایا جاتا ہے، بہت دفعہ تو تعلیم سے دست بردار ہوجانے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔

 یاد رکھئے ! اسلام ایک آفاقی وآسمانی دین اور فطری مذہب کانام ہے، یہ زندگی کے ہرگوشہ کی تکمیل کرتا ہے،اس پر اشکال دراصل بیمار ذہنیت ومعاندانہ کردار کی علامت اور مغربی نوازوں کی نوازش ہے، ذیل کی سطروں سے بخوبی اندازہ ہوجایئے گا کہ اسلام میں کھیل کود، ثقافتی پروگرام کی کیا حقیقت ہے ؟

اسلام کسی خشک ترین اور تنگ خیال مذہب کا نام نہیں ، چنانچہ علامہ سیوطی ؒنے آپؐ سے نقل کیا ہے؛کہ آپؐ نے فرمایا:اپنے دلوں کو کچھ کچھ وقت بہلایا کرو’’روح القلوبساعۃ ساعۃ‘‘(جامع الصغیر:۶۸۸۵)،ایک دوسری روایت میں ہے حضرت علی ؓنے فرمایا :دل بھی تھک جاتا ہے، جس طرح بدن تھک جاتا ہے’’فانھا تمل کما تمل اغالابدان ‘‘(کنزالعمال:۳؍۶۶۹)،اسلا م ایسا بھی نہیں جو انسانی مزاح و مذاق اور کھیل،کود کے مسابقہ کرنے سے منع کرے؛بلکہ اس سلسلہ میں حضور اکرمؐ کا ایک فرمان میل کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے،آپؐ نے عورت ومرد کی تفریق کے بغیرفرمایا؛کہ قوی مؤمن ؛ضعیف مؤمن سے افضل ہے’’المؤمن القوی خیر واحب الی اللہ من المؤمن الضعیف‘‘( مسلم:۲۶۶۴)

 ایک روایت میں ہیکہ ؛آپؐ نے فرمایا:’’من مشی بین الغرضین کان لہ بکل خطوۃ حسنۃ‘‘جو شخص دو غرضوں (ہدفوں ) کے درمیان چلتا ہے تو ہر قدم کے بدلہ ایک نیکی ملتی ہے(کنزالعمال:فی ادب الجھاد،۴؍۳۵۰)،بلا شبہ مذکورہ فرمان مطلق وارد ہوئے ہیں ، چنانچہ ان میں عورت مرد دونوں شامل ہونگے،اسی لئے حضوراکرمؐ نے اگر مردوں کیلئے کھیل کود کے سلسہ میں حوصلہ کن کلمات ارشاد فرمائے:جیسے: ایک روایت میں ہے؛ کہ عید کے دن کچھ حبشی ڈھال اور نیزوں سے کھیل رہے تھے آپؐ کو دیکھ کر وہ جھجھکے تو آپؐ نے فرمایا:’’خذوا یابنی أرفدۃ!حتی تعلم الیھاد والنصاری أن فی دینن فسحۃ‘‘اے حبشی بچو! کھیلتے رہو،تاکہ یہود و نصاری کو پتہ چلے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے(جامع الصغیر:۵۵۳۰)،ایک اور روایت میں ہے:’’ارموا وارکبوا أن ترموا أحب الی من أن ترکبوا‘‘تیراندازی کرو اور گھوڑسواری کرو ؛البتہ میرے نزدیک تمہارا تیر اندازی کرنا گھوڑسواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے( ابوداود :۲۵۱۳)۔

تو وہیں آپؐ نے ایک طرف عورتوں کو جنگوں میں شریک رکھا، تو دوسری طرف خود ان (ازواج مطہرات) کے ساتھ مقابلہ آرائی کی،حضرت عائشہ فرماتی ہیں ، میں نے آپؐ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں آپؐ سے آگے نکل گئی، کچھ عرصہ کے بعد جب میرے بدن پر گوشت چڑھ گیا، تو پھر میں نے اور آپؐ نے دوڑ کا مقابلہ کیا تو آپؐ آگے نکل گئے، پھر آپؐ نے فرمایا:یہ اس کے بدلے میں ہے،’’سابقنی النبیؐ فسبقتہ فلبثنا حتی اذا ارھقنی اللحم فسابقنی فسبقنی، فقال النبی ؐ :ھذہ بتلک ‘‘(صحیح ابن حبان:۴۶۹۱)،نیزآپؐ نے بچیوں کو کھیلنے کی آزادی دی،ایک روایت میں ہے کہ،عید کے دن کچھ بچیاں کھیل رہی تھیں ، ابوبکر نے انہیں روکنے کا ارادہ کیا تو آپؐ نے انہیں روکتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’دعھن یا ابابکر!فانھا أیام عید، لتعلم الیھود أن دیننا فسحۃ،انی ارسلت بحنیفۃ سمحۃ‘‘ابو بکر انہیں چھوڑ دو! یہ عید کے ایام ہیں ، یہود کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا دین گنجائش والا ہے؛کیونکہ مجھے ایسی شریعت دیکر بھیجا گیا جو افراط وتفریط سے پاک اور آسان تر ہے۔ ( کنز العمال:۱۵؍۲۱۴)۔

کھیل کود کی حوصلہ افزائی اس قدر ہے کہ عبدالرحمن بن شماسہ فرماتے ہیں :جس نے نشانہ بازی سیکھی، اور پھر اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ، ایک روایت میں :اس نے گناہ کا ارتکاب کیا،’’من علم الرمی ثم ترکہ، فلیس ما أوقال:فقد عصی‘‘بلکہ امام نووی ؒ سے مروی ہیکہ، مسابقہ اور تیر اندازی نہ صرف جائز ہیں بلکہ سنت ہیں ، اگر وہ جہاد کی تیاری کے مقصد سے ہوں ’’المسابقۃ والمناضلۃ جائزتان؛بل سنتان اذاقصد بھما التأھب للجھاد‘‘(روضۃ الطالبین:۱۰؍۳۵۰،نیز دیکھئے:مغنی المحتاج:۶؍۲۱۰) چنانچہ آج بھی نیت کی درستگی اور شرعی حدود کے ساتھ کھیل کو د نہ صرف جائز ہیں بلکہ مطلوب اور مستحسن بھی ہیں ۔ ___ان تمام بحثوں کے پیش نظر طلبہ وطالبات کے مسابقے کروانا جب کہ دونوں صنف الگ لگ ہوں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن باہم اختلاط کے ساتھ یہ مقابلے جائز نہیں ، کیونکہ یہ بہت سے فتنوں کا باعث ہیں ، ان میں بالخصوص غیر محرم کا محرم کو دیکھنا اور محرم کا غیرمحرم کو دیکھنا لازم آتا ہے جو کہ بلا ضرورت شدیدہ حرام ہے،امام غزالی فرماتے ہیں ’’نظر الرجل الی المرأۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وان کانت اجنبیۃ حرم النظر الیھا مطلقاً‘‘مردکاعورت کی طرف دیکھنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر عورت اجنبیہ ہوتو اس کی طرف دیکھنا حرام ہے،(الوسیط:۳؍۱۲۴)۔

اسی طرح ایک سنگین مسئلہ طلبہ وطالبات کا ثقافتی ومکالمے اور ڈرامے وغیرہ میں حصہ لینے کا ہے، چونکہ عصری تعلیمی ادارے ہوں یا دینی ان میں تہذیبی اور ثقافتی پروگراموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،اس سے ایک طرف تعمیر شخصیت میں مدد ملتی ہے تو وہیں اپنی بات سلیقہ سے رکھنے اور صحیح طور پر فہم وفہمائش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،یہ پروگرام طبعی اعتبار سے دوطرح کے ہوتے ہیں :ایک وہ جن میں تقریر وتحریر وغیرہ شامل ہیں ، دوسرے وہ جن میں مکالمے اور ڈرامے وغیرہ ہوتے ہیں ، چونکہ ان اداروں میں مسلم طلبہ وطالبات بھی ہوتے ہیں ، ایسے میں شرعی اعتبار سے ان کی شمولیت محل نظر ہے،اس سلسلہ میں دو بحثیں مد نظر رکھنا ضروری ہیں :۔

۱۔ یہ حقیقت ہے؛کہ عورت سراپا پردہ ہے، اور اسے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مردوں کے اختلاط سے بچے ؛لیکن قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ، فرمان الہی ہے:’’واذا سألتموھن متاعاًفسألوھن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(احزاب:۵۳)اس آیت میں اس بات سے منع نہیں کیا گیا کہ عورت بات نہ کرے ؛البتہ یہ شرط رکھی ہے کہ آواز میں کشش کی حد تک نرمی اور جھکاؤ نہ ہو، ارشاد ہے:’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ‘ (احزاب :۳۲ )، چنانچہ فقہاء حنابلہ کرام نے بھی صراحت کی ہیکہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ، (شرح المنتھی:۳؍۱۱،شرح الاقناع:۳؍۸،غایۃ المنتھی : ۳ ؍۸، الفروع: ۵؍۱۵۷)،جہاں تک سوال حضور اکرم ؐ کے اس فرمان کا ہے کہ ’’اذا نامکم شئی  فی الصلاۃ فلیسبح الرجال والیصفق النساء‘‘ (بخاری : ۶۸۴)غالباً یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر دال ہے اور کیفیت صلاۃ کے ساتھ مقید ہے۔ ______اس پس منظر میں طالبات کیلئے تقاریر وغیرہ میں شرکت کی اجازت معلوم ہوتی ہے،تاہم نصوص کے مختلف ہونے کی بنا پر دو شرطوں کی قید لگائی جا سکتی ہے، اولاً:۔ اس کی آواز میں کسر وخضوع نہ ہو (عموماً تقاریر میں یہ صورت نہیں ہوتی )۔ دوم:مرد اس کی آواز ازراہ لذت نہ سن رہے ہوں ، جو یقیناً شرط اول کے ضمن میں پائی جائے گی۔

۲۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عصری درسگاہوں میں ڈرامے اور مکالمے کسی مضبوط پیغام کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ، اور اس کے ذریعہ عوام الناس تک پیغام پہونچانے میں بھی بڑی آسانی ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کو بہت سے افعال حضور اکرم ؐ کرکے دکھلایا کرتے تھے،نیز بعد میں صحابہ کرامؓؓ  بھی اسی طرز پر وضو کر نے اور نہانے وغیرہ کے افعال کرکے بتلاتے تھے، ان میں صحابیات ؓ بھی شامل ہیں ، صحیحین میں روایت ہے کہ ؛ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے غسل جنابت کا طریقہ کرکے دکھلایا :’’عن عائشہؓ قالت کان رسول اللہ ؐ اذاغتسل من الجنابۃ غسل یدیہ وتوضأ وضوئہ للصلاۃ ثم اغتسل ثم یخلل بیدہ حتی اذا ظن انہ قد اروی بشرتہ افاض علیہ الماء ثلاث مرات غسل سائر جسدہ وقالت:کنت اغتسل انا ورسول اللہؐ فی اناء واحد نغرف منہ جمیعاً‘‘ (بخاری:۲۵۹)

 ایسے میں کہا جاسکتا ہے طالبات بھی مکاملے اور ڈراموں میں شرکت کرسکتی ہیں ؛لیکن نقلاً نہ سہی عقلاً بلکہ مزاج شریعت اور فطرت سلیمہ اس پر راضی نہیں ہوتی؛ کہ صنف نازک کو گھر کی ملکہ کے بجائے محفلوں کی تلذذ کا ذریعہ بنایا جائے، نیز حضرت عائشہ ؓ کا مسئلہ دینی تھا، اور بتانے والے اور سننے والے یقیناً انسانیت کے اتم درجہ پر فائز تھے، جب کہ آج پوری انسانیت وحشت و درندگی میں ڈوبی ہوئی ہے، اور عورتیں محض لطف اندوزی کا سامان ہوتی جارہی ہیں ایسے میں بھلا کیونکر اجازت دی جائے؟۔ تاہم اگر اجازت بھی ہو تو چند شرائط کالحاظ اشد ضروری ہے:

الف:مکالمے یاور ڈرامے میں اختلاط نہ ہو

ب:اس کا مدار جھوٹ، تمسخر اور جنسیات پر نہ ہو

ج:موسیقی، گانا، بجانا بھی نہ ہو

د:طالبات کا یہ پروگرام صرف طالبات ہی دیکھیں

ھ:کسی غیر شرعی شخصیت کی ہیئت بنانے سے پرہیز کیا جائے۔

ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

تبصرے بند ہیں۔